اشرف غنی سابق افغان صدر فرار ہو کر متحدہ عرب امارات

اشرف غنی سابق افغان صدر فرار ہو کر متحدہ عرب امارات

اشرف غنی: سابق افغان صدر فرار ہو کر متحدہ عرب امارات کیوں پہنچے، عرب ممالک سے افغانستان کے کیسے روابط ہیں؟

متحدہ عرب امارات نے افغانستان سے راہ فرار اختیار کرنے والے صدر اشرف غنی کو انسانی بنیادوں پر پناہ دی ہے۔

15 اگست کو جب طالبان جنگجو کابل کا محاصرہ کر رہے تھے اسی دوران صدر اشرف غنی نے اچانک ملک چھوڑ دیا۔

اس وقت یہ علم نہیں تھا کہ وہ کہاں گئے۔ بہت سے لوگ ان کے ازبکستان یا تاجکستان جانے کی بات کر رہے تھے۔ پھر اشرف غنی نے خود متحدہ عرب امارات میں ہونے کی تصدیق کی۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اشرف غنی کو انسانی بنیادوں پر سیاسی پناہ دی ہے۔ جبکہ مسٹر غنی نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملک سے فرار نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے ایک بڑے سانحے کو ٹال دیا ہے۔

اشرف غنی نے کہا: ‘میں ابھی متحدہ عرب امارات میں ہوں تاکہ خونریزی اور افراتفری کو روکا جا سکے۔’ اشرف غنی نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان واپس آنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

اشرف غنی متحدہ عرب امارات کیوں پہنچے؟

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات پہنچنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ ملک سلامتی اور رازداری فراہم کرتا ہے۔ یہاں پرسکون رہنے اور اپنے پیسے لگانے کے کافی مواقع ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے پاس جدید ترین کیمرے ہیں اور سکیورٹی کا بہترین نظام ہے۔ شاہی خاندان کی حکومت مضبوط گرفت ہے۔ ایسی صورتحال میں یہاں پہنچنے والے سیاسی افراد محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے سیاستدان اور سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پناہ کے حصول کے لیے متحدہ عرب امارات پہنچ رہے ہیں۔ فوجی بغاوت میں اقتدار سے باہر ہونے والے تھائی لینڈ کے وزیر اعظم تھاکسن شیناواترا اور ینگ لک شیناوترا نے بھی متحدہ عرب امارات میں پناہ لی تھی۔

اس کے علاوہ سپین کے سابق بادشاہ ہوان کارلوس، فلسطینی رہنما محمد دہلان اور یمن کے مرحوم رہنما علی عبداللہ صالح کے بڑے بیٹے احمد علی عبداللہ صالح نے بھی دبئی میں پناہ لی تھی۔

پرویز مشرف

افغانستان کی سیاست

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب متحدہ عرب امارات نے عالم اسلام کے کسی رہنما کو پناہ دی ہو۔ سنہ 1990 کی دہائی میں پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی متحدہ عرب امارات کو اپنا ٹھکانہ بنایا تھا۔

پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد متحدہ عرب امارات کا ہی رخ کیا۔ لیکن پھر بھی لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اشرف غنی نے افغانستان چھوڑنے کے بعد متحدہ عرب امارات کو اپنا مسکن کیوں بنایا اور متحدہ عرب امارات نے انھیں پناہ کیوں دی؟

تاہم اس بار متحدہ عرب امارات نہیں چاہے گا کہ اشرف غنی ان کی سرزمین کو سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کریں۔

بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں افغانوں اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد ہے، اس لیے متحدہ عرب امارات نہیں چاہے گا کہ اس کی سرزمین افغان سیاست کا اکھاڑہ بن جائے۔

اس کے ساتھ ہی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ لوگ مسٹر غنی کی متحدہ عرب امارات آمد سے زیادہ حیران نہیں ہیں۔

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن سے منسلک کبیر تنریجا کا کہنا ہے کہ ‘طالبان اور افغانستان دونوں کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے تعلقات دلچسپ رہے ہیں۔ اشرف غنی کو متحدہ عرب امارات نے انسانی بنیادوں پر پناہ دی ہے۔ یو اے ای کا یہ اقدام غیر متوقع نہیں ہے۔’

بینظیر

متحدہ عرب امارات کے طالبان کے ساتھ تعلقات

سنہ 1996 میں جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا اور حکومت قائم کی تو صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا۔ تب سے ان ممالک کے درمیان تعلقات میں کافی تبدیلی آئی ہے۔

تنریجا کا کہنا ہے کہ ‘امریکہ میں 9/11 کے حملوں کے بعد عرب ممالک پر دباؤ تھا کہ وہ اپنی شبیہ بہتر کریں۔ اس حملے میں ملوث زیادہ تر لوگ خلیجی ممالک سے تھے۔ عرب ممالک میں اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے خود کو طالبان سے دور کرنا شروع کر دیا۔ ان ممالک نے طالبان سے واضح فاصلہ رکھنا شروع کر دیا۔’

جب امریکی قیادت والی نیٹو افواج نے سنہ 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کو وہاں سے نکال دیا تو متحدہ عرب امارات نے بھی اس حملے کی حمایت کی۔ متحدہ عرب امارات کے فوجی بھی افغانستان میں موجود تھے، حالانکہ ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں تھی۔

متحدہ عرب امارات کا ایک چھوٹا فوجی دستہ افغانستان میں امن اور انسانی مشنوں پر کام کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ افغانستان ان فوجیوں کو دوست مسلمان فوجیوں کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں میں سنی اور وہابی نظریہ غالب رہا ہے۔ ان ممالک نے افغانستان میں مدارس اور مساجد کے ذریعے خیرات کے نام پر ترقیاتی کام کیے ہیں۔ نظریاتی طور پر متحدہ عرب امارات اور طالبان کے درمیان قربت رہی ہے۔

لیکن طالبان کو تسلیم کرنے والے متحدہ عرب امارات نے سنہ 2001 کے بعد خود کو بڑی حد تک طالبان سے دور کر لیا اور سفارتی فاصلہ برقرار رکھا۔

تنریجا کا کہنا ہے کہ ‘اس وقت متحدہ عرب امارات نے بڑے پیمانے پر طالبان سے تعلقات منقطع کر لیے اور حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی کی قیادت والی حکومتوں کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ بہرحال نظریاتی طور پر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور طالبان کے درمیان تعلقات اب کم ہو چکے ہیں۔ اب متحدہ عرب امارات اور افغانستان کے درمیان تعلقات نظریاتی کم اور عملی زیادہ ہیں۔’

سنہ 2017 میں متحدہ عرب امارات کے سفارت کاروں کے ایک گروپ پر قندھار میں حملہ ہوا تھا۔ اس حملے میں سفارت کاروں سمیت کئی افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد سے متحدہ عرب امارات نے طالبان سے فاصلہ بنا رکھا ہے۔

طالبان

طالبان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں پاکستان کا کردار

اسی کے ساتھ طالبان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ترکی اور قطر افغانستان کے معاملے میں سرگرم رہے ہیں۔ ایسے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی کو یہ خیال گراں گزرسکتا ہے کہ ان کا اثر و رسوخ تھوڑا کم تو نہیں ہو رہا ہے۔

معاشی معاملات کے حوالے سے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان کشیدگی بھی رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو دیے گئے قرضوں کی وصولی کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

تنریجا نے کہا: ‘متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی طالبان کے ساتھ اس کے تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ متحدہ عرب امارات اور طالبان کے درمیان تعلقات خراب ہوں۔ عرب دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اہم ہیں، اگر یہ تعلقات متاثر ہوتے ہیں تو پھر پاکستان پر چین کا اثر و رسوخ مزید بڑھ سکتا ہے اور پاکستان ایسا نہیں کرنا چاہے گا۔

’ایسی صورت حال میں عرب ممالک کے ساتھ طالبان کے تعلقات پر بھی پاکستان کا اثر ہو سکتا ہے۔‘

تنریجا کا کہنا ہے کہ ‘ایسا ہو سکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کرے، لیکن وہاں ہاتھ ڈالنا آگ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ میرے خیال میں متحدہ عرب امارات جو بھی قدم اٹھائے گا وہ سوچ سمجھ کر اٹھائے گا۔’

اشرف غنی

اشرف غنی متحدہ عرب امارات میں کب تک رہیں گے؟

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ مسٹر اشرف غنی متحدہ عرب امارات میں کب تک رہیں گے۔ وہ بعد میں امریکہ جا سکتے ہیں، لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت امریکہ ان کے لیے اپنے دروازے نہیں کھولے گا۔

تنریجا کا کہنا ہے کہ ‘متحدہ عرب امارات نے ماضی میں اسلامی دنیا کے لوگوں کو پناہ دی ہے اور بات چیت کے لیے جگہ فراہم کی ہے۔ ایسی صورت حال میں مسٹر غنی کی متحدہ عرب امارات میں آمد کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے۔’

لیکن متحدہ عرب امارات میں رہنا بھی آسان نہیں ہے۔ یہاں زندگی بہت مہنگی ہے۔ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اشرف غنی بہت ساری دولت لے کر فرار ہوئے ہیں، لیکن اشرف غنی نے ایک بیان میں ان الزامات کی تردید کی ہے۔

غنی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ افغانستان سے ایک جوڑی کپڑے اور جوتے پہن کر نکلے ہیں اور ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *