اسلام آباد میں کسانوں کا احتجاج: کیا گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ ملک میں آٹے کی قیمت بڑھنے کی وجہ ہے؟
وفاقی دارالحکومت میں ہزاروں کسانوں کی جانب سے کھاد کی بلیک مارکیٹنگ، کھاد اور بیج کی وافر مقدار میں فراہمی، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ گندم کی خریداری کی امدادی قیمت چار ہزار روپے فی من مقرر کرنے کے مطالبات کے حق میں احتجاج جاری ہے۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق جمعہ کی صبح مظاہرین نے ایک مرتبہ پھر اسلام آباد کے ڈی چوک کی جانب پیش قدمی کرنے کی کوشش کی تاہم سکیورٹی اداروں کی جانب سے انھیں واپس خیابان چوک کی جانب دھکیل دیا گیا۔ حکومت ایک جانب کسان اتحاد کے رہنماؤں سے مذاکرات میں مصروف ہے تو دوسری جانب یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ مظاہرین کو ریڈ زون جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یاد رہے کہ اس احتجاج میں پنجاب کے مختلف اضلاع سے آئے کسان حصہ لے رہے ہیں۔
کسان اتحاد کے چیئرمین خالد باٹھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اُن کے مطالبات میں کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کا خاتمہ، کھاد اور بیج کی وافر مقدار میں فراہمی اور گندم کی خریداری کی قیمت چار ہزار روپے فی من مقرر کیے جانا شامل ہیں۔‘
واضح رہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کے آنے والے سیزن کے لیے امدادی قیمت تین ہزار روپے فی من مقرر کی گئی ہے تاہم سندھ حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت 4000 روپے فی من مقرر کی گئی ہے۔
سندھ اور پنجاب میں گذشتہ سیزن میں گندم کی امدادی قیمت 2200 روپے فی من تھی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اس قیمت میں رواں برس آٹھ سو روپے فی من اور سندھ حکومت کی جانب سے 1800 روپے فی من اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔
تاہم پنجاب کے کسانوں کا مطالبہ ہے کہ پنجاب میں امدادی قیمت تین کے بجائے چار ہزار ہونی چاہیے۔
پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے اگلے سیزن کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا جب پہلے ہی ملک میں آٹے کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ آٹے کی قیمت میں سندھ میں زیادہ اضافہ ہوا ہے اور سب سے زیادہ اضافہ کراچی میں ریکارڈ کیا گیا۔
پنجاب اور سندھ میں اگلے سیزن کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ملک میں آٹے کی قیمت میں مزید اضافے کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے جو اس وقت سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سو روپے فی کلو سے زیادہ جبکہ پنجاب میں نوے روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔
پاکستان میں اس وقت آٹا کن نرخوں پر فروخت ہو رہا ہے؟
پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں آٹے کی قیمت میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے ادارہ شماریات کے مطابق کراچی میں فی کلو آٹے کی قیمت 120 روپے ہے، اسی طرح حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ میں فی کلو آٹا 115 روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے۔
بلوچستان میں کوئٹہ اور خضدار کے اضلاع میں بھی ایک کلو آٹے کی قیمت 120 روپے کے لگ بھگ ہے جبکہ پشاور، بنوں اور کے پی کے کچھ دوسرے اضلاع میں فی کلو آٹا 105 سے 110 روپے کے درمیان فروخت ہو رہا ہے۔
ملک کے دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب میں آٹے کے نرخ کم ہیں اور یہ 85 سے 90 روپے کے درمیان فروخت ہو رہا ہے۔
گندم کی امدادی قیمت کے اعلان نے آٹے کی قیمت کو کیسے بڑھایا؟
حالیہ ہفتوں میں ملک میں آٹے کی قیمت میں ہونے والے اضافے کی وجہ گندم کی امدادی قیمت خاص کر سندھ حکومت کی جانب سے 4000 روپے فی من کرنے کے اعلان کو قرار دیا جا رہا ہے۔
آٹے کی قیمت میں اضافے کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین اور فلور ملر رؤف مختار کا کہنا ہے کہ ’حالیہ عرصے میں آٹے کی قیمت میں زیادہ اضافہ سندھ میں ہوا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ معلوم ہو کہ اگلے کچھ مہینوں میں گندم کی قیمت بڑھ جائے گی تو لازمی طور پر کم گندم کو مارکیٹ میں لایا جاتا ہے اور اس وقت یہی ہو رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا ’کیونکہ سندھ حکومت کی جانب سے پنجاب حکومت کے مقابلے میں امدادی قیمت میں ہونے والے اضافہ زیادہ ہے اس لیے اس کی وجہ سے اب زیادہ گندم سندھ جا رہی ہے تاکہ اچھی قیمت مل سکے۔‘
انھوں نے کہا ’اگرچہ امدادی قیمت میں اضافہ اگلے گندم کے سیزن کے لیے ہے تاہم یہ رجحان کا تعین کر دیتا ہے کہ اگلے آنے والے مہینوں میں گندم کی قیمت کیا ہو گی۔‘
اجناس کے شعبے کے ماہر شمس الاسلام نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’جب امدادی قیمت میں اضافے کا اعلان کر دیا گیا ہے، چاہے وہ اگلے سیزن کے لیے ہی کیوں نہ ہو تو اس کے بعد گندم کی سپلائی میں کمی کر دی جاتی ہے۔ امدادی قیمت بڑھنے سے ظاہر ہے کہ گندم کے ریٹ بڑھیں گے تو یہاں سے گندم کی ذخیرہ اندوزی اور اسے سٹاک میں رکھنے کا کام شروع ہوتا ہے تاکہ آنے والے دنوں میں زیادہ قیمت پر فروخت کیا جا سکے۔‘
گندم کی امدادی قیمت بڑھانے کی وجہ کیا ہے؟
سندھ اور پنجاب میں گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کی وجوہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سندھ میں کاشت کاروں اور زمینداروں کی نمائندگی کرنے والے سندھ آباد گار بوڑد کے نائب صدر محمود نواز شاہ نے کہا کہ ’امدادی قیمت میں اضافے کی وجہ بہت واضح ہے کہ زرعی شعبے کی لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور نئی امدادی قیمت جائز ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اب یہ نہیں ہو سکتا ہے جو چیز آج سے پانچ چھ سال پہلے 20 روپے فی کلو میں بکتی تھی وہ آج بھی اسی قیمت پر بکے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ملک کی فوڈ سکیورٹی کے لیے لازمی ہے کہ ملک کے اندر زرعی اجناس کو زیادہ پیدا کیا جائے۔
وہ پوچھتے ہیں کہ ’اگر حکومت کی جانب سے درآمدی گندم کی پورٹ پر پہنچنے کی قیمت 105 روپے فی کلو مقرر ہے اور ملوں تک پہنچانے میں اس کی قیمت مزید بڑھ سکتی ہے اور مقامی کاشتکار کو اگر سو روپے فی کلو کے حساب سے امدادی قیمت مل رہی ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔‘
انھوں نے کہا اس لحاظ سے امدادی قیمت بڑھانا صحیح ہے کیونکہ مہنگی درآمدی گندم پر قیمتی زرمبادلہ ذخائر خرچ کرنے کی بجائے مقامی کاشتکار کو فائدہ پہنچایا جائے۔
اس حوالے سے سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کا کہنا ہےکہ امدادی قیمت کے بارے میں سب سے پہلے یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ یہ اگلے سیزن کے لیے ہے اور موجودہ سیزن کی گندم 2200 روپے فی من پر خریدی گئی۔
انھوں نے بتایا امدادی قیمت بڑھانے کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے ملک میں گندم کی کمی رہی اور وفاقی حکومت نے گندم باہر سے منگوائی جس کی کوالٹی اتنی اچھی نہیں تھی اور یہ گندم 9000 ہزار روپے فی من کے حساب سے ملک میں آئی۔
ان کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں کاشتکار زیادہ تر گندم اپنے کھانے کے لیے اگاتا ہے کیونکہ دوسری نقد آور فصلوں کےمقابلے میں اس فصل میں زیادہ منافع نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کسانوں کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ زیادہ رقبے پر گندم اگائیں۔
شرجیل میمن نے کہا کہ کاشتکار کو زیادہ گندم اگانے کی طرف راغب کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے اس کی فصل کی اچھی قیمت دی جائے تاکہ وہ زیادہ گندم اگائے۔
انھوں نے کہا کہ درآمدی گندم مہنگے نرخوں پر خریدنے کی بجائے یہ بہتر ہے کہ ملک میں کاشتکار کو مالی فائدہ دیا جائے۔
کیا امدادی قیمت میں اضافے سے صرف بڑے زمیندار فائدہ اٹھاتے ہیں؟
شمس الاسلام کے مطابق امدادی قیمت کا زیادہ فائدہ بڑے زمینداروں کو ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سندھ میں امدادی قیمت میں زیادہ اضافے کی بھی یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت میں شامل زیادہ افراد زرعی پس منظر رکھتے ہیں اور حکومت یہ گندم خریدتی ہے اس لیے وہ زیادہ فائدے میں رہتے ہیں۔
اس حوالے سے روف مختار کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کا مائنڈ سیٹ زرعی شعبے کا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے زرعی شعبے کو زیادہ سپورٹ کرتی ہے کیونکہ اس کی حکومت میں شامل زیادہ افراد کا تعلق زرعی شعبے سے ہے۔
محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ یہ دلیل دینا کہ چھوٹا کاشتکار امدادی قیمت سے فائدہ نہیں اٹھاتا، درست نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’فرض کریں اگر بڑے زمیندار حکومت کو گندم زیادہ قیمت پر بیچ دیتے ہیں اور چھوٹا کاشت کار حکومت کو نہیں بیچ پاتا تو پھر بھی چھوٹے کاشتکار کوان ڈائریکٹ طریقے سے فائدہ ہوتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ حکومت گندم کی مجموعی پیداوار میں سے صرف پندرہ سے بیس فیصد گندم خریدتی ہے جب کہ باقی کھلی مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جب امدادی قیمت بڑھتی ہے تو کھلی مارکیٹ میں بھی قیمت بڑھتی ہے جس کی وجہ سے چھوٹا کاشتکار بھی زیادہ قیمت وصول کرتا ہے۔
شرجیل میمن نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ حکومت سندھ میں شامل افراد کے زرعی بیک گراونڈ ہونے کی وجہ سے امدادی قیمت زیادہ رکھی گئی ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جو بڑے زمیندار ہیں وہ اپنے کھانے کی گندم کے علاوہ کم ہی گندم اُگاتے ہیں۔ وہ زیادہ تر نقد آور فصلوں جیسے گنے، کیلے اور باغات میں کام کرتے ہیں جہاں انھیں زیادہ پیسہ ملتا ہے۔
شرجیل نے کہا اس کے علاوہ سندھ حکومت امدادی قیمت کے ذریعے صرف 20-25 فیصد گندم خریدتی ہے اور باقی گندم کھلی مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے اس لیے یہ تاثر دینا کہ سندھ حکومت بڑے زمینداروں کو نوازنے کے لیے امدادی قیمت بڑھاتی ہے قطعی طور پر غلط ہے۔
انھوں نے کہا جہاں تک صارفین کو سستا آٹا فراہم کرنے کا تعلق ہے تو اس کے لیے حکومت سندھ 65 روپے فی کلو کے حساب سے کراچی میں سات سے زیادہ جگہوں پر آٹا فراہم کر رہی ہے۔