اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے قریب آ رہے ہیں

اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے قریب آ رہے ہیں

اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے قریب آ رہے ہیں۔۔۔ ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو سعودی عرب بھی کرے گا: محمد بن سلمان

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مسلسل قریب آ رہے ہیں جبکہ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو سعودی عرب بھی انھیں حاصل کرے گا۔

انھوں نے امریکی نشریاتی ادارے ’فوکس نیوز‘ کے چیف پولیٹیکل اینکر اور ایگزیکٹیو ایڈیٹر بریٹ بائیر کو دیے گئے ایک ٹی وی انٹرویو میں اسرائیل سے تعلقات کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ’ہم روزانہ کی بنیاد پر قریب آ رہے ہیں۔‘

اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کے ممکنہ تاریخی معاہدے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب اتنا بڑا ملک ہے اور مجھے یقین ہے کہ کسی بھی شخص کا بلواسطہ یا بلاواسطہ سعودی عرب سے کچھ لینا دینا ضرور ہے۔‘

قدامت پسند امریکی نیٹ ورک فوکس کا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ انٹرویو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ واشنگٹن کے مشرق وسطیٰ کے اہم اتحادیوں اور دو علاقائی طاقتور ممالک کے درمیان تاریخی تعلقات قائم کرنے میں ثالثی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے مذاکرات کا مرکز وہ پیچیدہ معاملات ہیں جن میں امریکہ کی جانب سے سکیورٹی گارنٹی اور ریاض کی جانب سے پرامن مقاصد کے جوہری ٹیکنالوجی کے حصول اور فلسطینیوں کے لیے ممکنہ اسرائیلی رعایتیں شامل ہیں۔

شہزادہ سلمان

لیکن جب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی صلاحیت اور سعودی عرب کے لیے اس کا کیا مطلب ہے، سے متعلق سوال کیا گیا تو سعودی ولی عہد نے ایک بار پھر واضح الفاظ میں کہا کہ ’اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو سعودی عرب کو بھی سکیورٹی اور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اسے حاصل کرنا پڑے گا۔‘

تاہم تہران نے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوششوں کی تردید کی ہے۔

محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں تشویش ہے کہ اگر کوئی ملک جوہری ہتھیار حاصل کر رہا ہے تو یہ غلط ہے، یہ غلط قدم ہو گا۔ انھیں جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ ان کا استعمال نہیں کر سکتے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اگر کوئی ملک جوہری ہتھیار استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ باقی دنیا سے جنگ کر رہا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دنیا ایک اور ہیروشیما کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر دنیا لاکھوں لوگوں کو مرتا دیکھتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ باقی دنیا کے ساتھ جنگ میں ہیں۔‘

’لہذا جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے کوشش کرنا جن کا آپ استعمال نہیں کر سکتے اور اگر اس کا استعمال کرتے ہیں تو پھر آپ کو باقی دنیا سے بڑی لڑائی لڑنا ہو گی۔‘

ایران سعودی معاہدہ

انٹرویو کے دوران جب ان سے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے سے متعلق سوال کیا گیا تو شہزادہ محمد بن سلمان نے ان خبروں کی تردید کی کہ سعودی عرب نے مذاکرات کو معطل کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ ’یہ (خبریں) درست نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم روزانہ کی بنیاد پر تعلقات کو معمول پر لانے سے متعلق معاملات میں قریب آ رہے ہیں، پہلی مرتبہ یہ ایک حقیقت لگ رہی ہے، ہم دیکھیں گے یہ معاملہ کہاں جاتا ہے۔‘

انھوں نے زور دیا کہ چاہے اس ممکنہ معاہدے کے تحت جو بھی انچارج ہو ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔ انھوں نے اس معاہدے کو ’سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سب سے بڑا تاریخی معاہدہ‘ قرار دیا ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ اس معاہدے کا دارومدار فلسطینیوں کے ساتھ سلوک سے متعلق معاہدوں پر ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم ایسے کسی معاہدے تک پہنچنے میں کوئی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق ملیں اور خطے کو پرامن بنایا جائے، تو ہم کسی کے ساتھ بھی کام کرنے کو تیار ہیں۔‘

سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ وہ زیادہ تفصیل میں نہیں جا سکتے لیکن وہ ’فلسطینیوں کے لیے اچھی زندگی‘ دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ فلسطین ہمارے لیے بہت اہم ہے، ہمیں اس مسئلے کو بھی سلجھانا ہے۔ اور اب تک ہماری مذاکرات کی حکمت عملی اچھی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم کسی ایسے نتیجہ پر پہنچیں جو فلسطینیوں کی زندگی کو آسان بنائے اور اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایک اہم ملک بن کر سامنے آئے۔‘

یاد رہے کہ کافی عرصے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔

بائیڈن

ممکنہ طور پر امریکی صدر جو بائیڈن سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کو ایک اہم خارجہ پالیسی کی کامیابی کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے وہ اگلے سال آنے والے انتخابات سے قبل ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

سعودی عرب، عرب اور اسلامی دنیا کا رہنما ہے۔ سنہ 1948 میں اسرائیل کا قیام ہوا تب سے اب تک سعودی عرب نے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

گذشتہ ماہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس معاہدے کے امکانات پر بات کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ ’ہم ایک تاریخی واقعے کا مشاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔‘

لیکن ایک بات جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی معاہدہ ہو گا وہ متنازع ہو گا۔

کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں سعودی عرب امریکی ساختہ جدید ہتھیاروں اور سب سے زیادہ متنازعہ سول نیوکلیئر پروگرام بشمول اندرون ملک یورینیم افزودگی کے لیے امریکی ضمانتوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔

ایسے معاہدے سے اسرائیل ایک خلیجی طاقت کے ساتھ تجارتی اور دفاعی تعلقات سے فائدہ اٹھائے گا اور سنہ 2020 میں ہونے والے دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ معاہدوں کے بعد خطے میں مزید تاریخی انضمام کی کوشش کرے گا۔ یہ چیز کئی عرصے سے اسرائیل حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔

کسی بھی کامیاب معاہدے میں فلسطینیوں کے لیے اسرائیل کی جانب سے اہم رعایتیں شامل ہوں گی۔ اس کے علاوہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو سعودی عوام کو بھی مطمئن کرنا پڑے گا جو تاریخی طور پر اسرائیل مخالف ہیں اور فلسطینیوں سے گہری ہمدردی رکھتے ہیں۔

 

فلسطین

ممکنہ معاہدے کے لیے فلسطین کے مطالبات کیا ہیں؟

ادھر رواں ماہ کے اوائل میں فلسطینی صدر محمود عباس کے قریب ترین سمجھے جانے والے دو افراد، انٹیلیجنس چیف ماجد فراج اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل حسین الشیخ سمیت فلسطینی حکام کی ٹیم نے سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر مساعد العيبان سے ملاقات کی۔

امریکی حمایت یافتہ عمل میں شامل ہونے کے بدلے ان کے مطالبات کی فہرست بھی عمان میں امریکی معاون وزیر خارجہ باربرا لیف کے ساتھ ملاقات کے دوران ترتیب دی گئی تھی۔

ایک فلسطینی اہلکار کے مطابق ان مطالبات میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:

مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو جو اس وقت مکمل اسرائیلی کنٹرول میں ہیں (سنہ 1990 کے اوسلو امن معاہدے کے تحت جنھیں ایریا ’سی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے) کو فلسطینی اتھارٹی کی حکمرانی والے علاقوں میں منتقل کیا جائے گا

مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری کی ’مکمل بندش‘ کی جائے

تقریباً 200 ملین ڈالر سالانہ کی فلسطینی حکام کو سعودی مالی امداد دوبارہ شروع کر دی جائے، جو 2016 سے سست ہو گئی تھی اور تین سال پہلے مکمل طور پر بند ہو گئی تھی

مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولا جائے جو فلسطینیوں کے لیے سفارتی مشن تھا اور جسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بند کر دیا تھا

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں جہاں سے وہ سنہ 2014 میں اس وقت کے وزیر خارجہ جان کیری کی قیادت میں رک گئے تھے

یہ مطالبات بہت اہم ہیں اور مبینہ طور پر امریکیوں کے نزدیک یہ حد سے زیادہ ہیں۔ لیکن یہ سعودی، اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کے متعلق عوامی طور پر بیان کردہ سرکاری فلسطینی مؤقف سے بہت دور ہیں۔ عوامی طور پر اگر اسرائیل فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر نہیں چھوڑتا تو فلسطینی حکام اسے یکسر مسترد کر دیں گے۔

یہ پیش رفت سنہ 2002 کے سعودی زیر قیادت عرب امن اقدام کے بعد ہو رہی ہے جس کے تحت اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے انخلا اور مغربی کنارے اور غزہ میں ایک فلسطینی ریاست کے بدلے میں عرب دنیا کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پیشکش کی تھی۔

اس اہم معاہدے کے ممکنہ فوائد

اب تک امریکی حکام کا اصرار ہے کہ اس معاہدے سے متعلق کوئی پیش رفت بہت دور ہے اور ابھی اس کی راہ میں بڑی رکاوٹیں باقی ہیں، وہ ذاتی طور پر اس ’علاقائی میگا ڈیل‘ کے ممکنہ فوائد پر زور دیتے ہیں۔

ان میں عرب اسرائیل تنازعے میں ممکنہ فلیش پوائنٹ کو دور کرنا، ایران کے خلاف طاقت کو مضبوط کرنا اور خلیج میں چین کی مداخلت کا مقابلہ کرنا شامل ہے۔

جبکہ امریکی صدر بائیڈن یہ معاہدے ہونے کی صورت میں اسے اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی بھی قرار دیں گے کیونکہ وہ نومبر 2024 میں دوبارہ انتخاب کے خواہاں ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تاہم امریکہ کو اس معاہدے کی ثالثی میں اب تک جن مشکلات کا سامنا ہے ان میں سے سب سے اہم سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مطالبات کو پورا کرنا ہوگا۔

اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ (محمد بن سلمان) ایک ایسے معاہدے کی تلاش میں ہے جس میں وہ سعودی عرب پر حملہ ہونے کی صورت میں امریکہ کا اس کا دفاع کرنے کا وعدہ، جدید ہتھیار اور جوہری پروگرام کے لیے مدد بھی چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ محمد بن سلمان فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی ریاستی حیثیت اور فلسطینیوں کو اہم مراعات دینے پر زور دے رہے ہیں۔ جس کے لیے بائیڈن بھی زور دے رہے ہیں لیکن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت نے اسے دینے پر بہت کم آمادگی ظاہر کی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *