اسرائیلی یہودی اور فلسطینی مسلمانوں کے ہاں دو ہفتے قیام کی کہانی، سب ایک جیسے نہیں
اس وقت اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں جس قسم کی تباہی اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے اسے دیکھ کر مجھے اپنا اسرائیل کا سفر یاد آ رہا ہے۔
میں سنہ 2019 میں پہلی بار اسرائیل گیا تھا اور وہ میرے لیے ایک چشم کشا تجربہ تھا۔ میں بہت سی سازشی کہانیاں سن کر بڑا ہوا اور یہ ساری کہانیاں یہودیوں کے بارے میں تھیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہودیوں کی زندگی کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنا اور انھیں تباہ کرنا ہے۔
میں جس معاشرے اور خاندان میں بڑا ہوا وہاں یہودی ہی دشمن نمبر ایک تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے دوستی نہیں کی جا سکتی اور ہمیں یہ سب بچپن سے ہی سکھایا گیا تھا۔
ہمیں کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ اسرائیل اور وہاں رہنے والے یہودی ایک جیسے نہیں بلکہ مختلف ہیں۔ شاید ہمارے بزرگ ان اختلافات کو سمجھ نہیں سکے تھے۔
یہودی مخالف جذبات مسلمانوں کے دو متحارب فرقوں (شیعہ سنی) کو متحد کرتے ہیں، دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے مسلمان یہودیوں کی مخالفت کے نام پر متحد ہو جاتے ہیں۔
انڈیا میں ایک مسلمان بچے کی حیثیت سے ہم فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کی بہادری کے قصے سن کر دنگ رہ جاتے تھے، ان کی تنظیم اور ان کی تحریک کے رہنما ہمارے لیے ہیروز کی طرح تھے۔
فلسطینی مظلوم ہیں اور اسرائیل حملہ آور، یہ بات ہمارے ذہنوں میں پوری طرح بیٹھ گئی تھی۔
انڈیا کی خارجہ پالیسی
ان نظریات کو انڈیا کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے بھی بہت تقویت ملی کیونکہ وہ کافی حد تک فلسطینی عوام اور ان کے رہنماؤں کے حق میں جھکا ہوا تھا۔ انڈیا اقوام متحدہ میں لائی جانے والی تمام تجاویز پر اسرائیل کے خلاف موقف اختیار کرتا تھا۔ یاسر عرفات کا انڈیا میں اسی طرح استقبال کیا گیا جس طرح کسی بھی سربراہ مملکت کا کیا جاتا تھا۔
اٹل بہاری واجپئی کے وزیر اعظم بننے کے بعد اس میں تبدیلی رونما ہونے لگی۔ ویسے بھی پوری دنیا میں فلسطینیوں کے لیے زیادہ ہمدردی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ مغربی ممالک کے صحافی بھی فلسطینی علاقوں یعنی مغربی کنارے اور غزہ پٹی کو مقبوضہ علاقے یعنی اسرائیل کے قبضے کے علاقوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔
بعد میں جب میں کام کرنے اور رہنے کے لیے یورپ گیا تو وہاں یہودیوں کے خلاف چھپے ہوئے جذبات دیکھے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ تمام لوگ میرے بچپن کے خیالات سے متفق ہیں۔
تل ابیب کا سفر
دہلی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر طیارے میں بیٹھتے وقت میرے ذہن میں بہت سے ملے جلے خیالات تھے، تجسس تھا، تشویس اور ایک قسم کا احساس جرم بھی تھا۔ میرے کچھ ساتھی صحافیوں نے بتایا کہ مجھے تل ابیب کے بین گورین ایئرپورٹ پر سخت امیگریشن اور سخت حفاظتی اقدام کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
جب میں امیگریشن کاؤنٹر پہنچا تو میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ میرے صحافی دوستوں کو بین الاقوامی ہوائی اڈے پر امیگریشن کے دوران مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا ہو گا لیکن خوش قسمتی سے میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میرے لیے سب کچھ بہت آسان تھا۔
ایئرپورٹ ٹرمینل دہلی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے بہت چھوٹا تھا اور ممبئی کے چمکدار بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ہوائی اڈے کا نام بین گوریئن کے نام پر رکھا گیا ہے جنھیں اسرائیل کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ میں نے بچپن سے پڑھا تھا کہ بین گوریئن ایک حوصلہ مند یہودی تھے جو سنہ 1906 میں پولینڈ سے فلسطینی سرزمین پر آئے تھے۔
گوریئن برطانوی حکمرانی کے خلاف بغاوت کی قیادت کرنے والوں میں شامل تھے۔ مورخین کا خیال ہے کہ انھوں نے سنہ 1946 میں یروشلم کے مشہور ہوٹل کنگ ڈیوڈ پر ایک بم حملہ کیا تھا جس میں 91 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
وہ اسرائیلیوں کے ہیرو تھے اور اپنے ملک کا بانی اور سنہ 1948 میں تشکیل پانے والے ایک نئے ملک کے پہلے وزیر اعظم۔ ان کی ابتدائی زندگی بہت مشکل حالات میں گزری، فلسطینی علاقے میں آنے کے بعد بطور مزدور وہ بہت مشکل سے دو وقت کی روٹی حاصل کر پاتے تھے۔
تخلیق کردہ شبیہہ سے مختلف
اسرائیل میں دو ہفتے قیام کے دوران مجھے علم ہوا کہ ان کی سوانحی حقیقت کے علاوہ اور بھی بہت سی کہانیاں رائج ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے بارے میں کہی جانے والی کچھ باتوں کو اسرائیل میں قطعی طور پر ناقابل تردید سچائی سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے عرب مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی تھی۔
سارا اسرائیلی معاشرہ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ ہوٹل کنگ ڈیوڈ بم دھماکے میں ان کا کوئی کردار تھا اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت وہ پیرس میں تھے۔ یہ سچ ہے کہ وہ اس وقت پیرس میں تھے، لیکن مورخین کا کہنا ہے کہ پیرس جانے سے پہلے انھوں نے بم سکینڈل کی منظوری دی تھی۔
ایک چیز جو میں اچھی طرح سمجھ کر اسرائیل سے لوٹا اور جو اب بھی میرے ذہن میں ہے وہ یہ کہ زیادہ تر اسرائیلی فلسطینیوں سے نفرت نہیں کرتے ہیں۔ انڈیا میں سوشل میڈیا پر کچھ لوگ جلتے ہوئے غزہ کی تصاویر دیکھ کر بہت پرجوش ہیں، لیکن سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل کی یہودی برادری کے بنیاد پرست لوگ بھی اس طرح کے تشدد کے بارے میں اتنے پرجوش نہیں جتنے کچھ انڈین نظر آ رہے ہیں۔
اسرائیل میں زیادہ تر لوگ دو قومی نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں جس کے تحت اسرائیل اور فلسطین دو اقوام کی حیثیت سے ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس پالیسی پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ تصور بھی درست نہیں ہے کہ اسرائیل کے تمام لوگ وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی غزہ کے شہری علاقوں میں بلا اشتعال بمباری کے حامی ہیں۔ اسرائیل میں بہت سے لوگ ہیں جو اسرائیلی حکومت کی پُرتشدد جارحیت کی مخالفت کرتے ہیں، بہت سے یہودی اسرائیلی ہیں جو فلسطینیوں کے انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
ساتھ رہنے کی کوششیں
وہاں ایک مہم جاری ہے جس میں اسرائیلی یہودی اور مسلمان فلسطینی دونوں شامل ہیں۔ اس مہم کا مقصد امن قائم کرنا ہے۔ وہ اقتدار کی غلط پالیسیوں پر مستقل طور پر سوال اٹھاتے ہیں۔
دونوں اطراف ایسے لوگ موجود ہیں جو امن اور ہم آہنگی چاہتے ہیں اور انھوں نے اس کی ایک مثال بھی پیش کی ہے۔ انھوں نے ایک علاقے میں مل کر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سنہ 1974 میں انھوں نے مل کر ایک گاؤں بسایا اور اس کا نام ‘نوؤ شلوم واحۃ السلام’ رکھا ہے۔ یہ ایک عبرانی اور عربی نام ہے اور دونوں کے معنی ’امن کا نخلستان‘ ہے۔
میں اس گاؤں میں دو بار یہ دیکھنے گیا کہ ایک دوسرے کو شدید ترین دشمن سمجھنے والے کس طرح ایک ہی گاؤں میں ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔
ہم نے ان سے کمیونٹی سینٹر میں ملاقات کی، گاؤں کے تھیئٹر سے باہر دونوں برادریوں کے لوگوں سے طویل گفتگو کی اور ہم نے اپنا زیادہ تر وقت اس سکول میں صرف کیا جہاں یہودی اور مسلمان بچے ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔
پہلی نظر میں یہ سمجھنا مشکل تھا کہ ان بچوں میں سے کون یہودی ہیں اور کون مسلمان۔ سب ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ ایک فلسطینی خاتون نے مجھے بتایا کہ بچے آہستہ آہستہ اس تنازعے سے متعارف ہو رہے ہیں، دونوں برادریوں کے درمیان دشمنی سے آگاہ ہیں، اور کوشش کر رہے ہیں کہ دنیا میں امن اور بقائے باہمی کو ممکن بنائیں۔
وہاں ایسا محسوس ہوا جیسے خواتین ہی ساری مہم کو چلا رہی ہیں۔ سکول کی پرنسپل ایک یہودی خاتون تھیں جنھوں نے اپنی مہم کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی مہم اب اسرائیلی یونیورسٹی کے کچھ کیمپسز میں بھی پھیل رہی ہے اور متعدد امریکی یونیورسٹیوں میں اس تجربے کو بطور ایک مضمون پڑھایا جا رہا ہے۔
بچے میوزک کلاس میں امن کے گیت گاتے ہیں اور میدان میں مل جل کر فٹ بال کھیلتے ہیں۔ میں نے انھیں بہت خوش دیکھا، ان کے دلون میں مذہبی اور سیاسی تلخی نہیں تھی۔
قابل تعریف لیکن محدود
امن کی یہ کوششیں قابل تحسین ہیں لیکن وہ صرف متوسط طبقے اور ان میں بھی دونوں طبقوں کے آزاد خیال لوگوں تک ہی محدود ہیں۔ لبرل یہودی اپنے نیک ارادوں کے باوجود اپنے مسلمان پڑوسیوں کے بارے میں قدرے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ وہ امن اور بقائے باہمی کے بارے میں بات تو کرتے ہیں لیکن مل جل کر زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں نظر آتے ہیں۔
گاؤں کے تھیٹر میں ایک نوجوان مسلم خاتون اپنے کنبہ کے تجربات پر مبنی ایک دستاویزی فلم دکھا رہی تھیں۔ یہ ان کی کہانی تھی جب وہ یہودیوں کے ایک خوشحال نواحی علاقے میں رہنے گئے تھے۔ اس دستاویزی فلم میں یہ دکھایا گیا کہ ان کے والدین گاؤں میں آبائی زمین اور مکان فروخت کرتے ہیں اور کرایہ پر لبرل یہودی علاقے میں رہنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔
جب تک کہ ان کی ماں کو کینسر نہ ہوا تھا تب تک سب کچھ ٹھیک تھا لیکن جب وہاں کے لوگوں کو یہ علم ہوتا ہے کہ وہ مرنے والی ہیں تو وہ گھر والوں سے کہتے ہیں کہ انھیں ان کے آبائی گاؤں میں دفن کیا جانا چاہیے۔ وہاں کے لوگوں کو یہ بات قبول نہیں تھی کہ ایک فلسطینی مسلمان خاتون کی لاش کو گاؤں کے روایتی یہودی قبرستان میں دفن کیا جائے۔
دستاویزی فلم ختم ہونے کے بعد میں نے اس نوجوان خاتون سے پوچھا کہ کیا آپ کو مایوسی ہوئی ہے یا آپ تلخی محسوس کر رہی ہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ یقینا مایوس ہیں لیکن ان کی ہمت ابھی نہیں ٹوٹی ہے اور اس سمت میں کام جاری ہے۔
تاریخی فصیل بند شہر مشرقی یروشلم میں دونوں مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اسرائیل پہنچنے کے دوسرے دن، ہم پرانے یروشلم کی ایک تنگ گلی سے فیس بک لائیو پروگرام پیش کر رہے تھے۔ یہ جگہ ‘دیوار گریہ’ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ یہ مقام یہودی اور مسلمان دونوں ہی کے لیے بہت مقدس ہے۔
یہیں مسجد اقصیٰ بھی ہے جہاں پر تازہ ترین پر تشدد واقعات شروع ہوئے۔
ہم نے دیکھا کہ دنیا بھر سے آنے والے سینکڑوں یہودی دیوار کو چومتے اور دعا کر رہے تھے، اس دیوار کے پیچھے مسجد اقصیٰ ہے، جہاں دنیا بھر سے آنے والے مسلمان اپنے مقامی ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔
یہاں عقائد بولتے ہیں، وہ بالکل ایک جیسے ہیں، اور پھر بھی اتنے ہی مختلف ہیں۔
اگر آپ قریب سے دیکھیں تو آپ کو واضح طور پر محسوس ہو گا کہ مسلم عربوں اور اسرائیلی یہودیوں کے مابین ایک قدیم دیوار ہے جو ان کو تقسیم کرتی ہے۔ جہاں تک اس جگہ پر دعوے کا تعلق ہے تو دونوں اسے مکمل طور پر اپنا کہتے ہیں۔ وہاں مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ مقام انڈیا کے بہت سے مذہبی مقامات ایودھیا، بنارس اور متھرا کی طرح ہے جہاں طویل تاریخی تنازعات موجود ہیں۔