آر ٹی ایس نہ آر ایم ایس اس بار الیکشن کمیشن نتائج کا اعلان کیسے کرے گا اور یہ نیا نظام کتنا قابل بھروسہ ہے؟
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے گذشتہ رات میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان کا پیغام سناتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ ’ن لیگ نے وہ کمپیوٹر ہیک کر لیے ہیں جہاں سے انتخابی نتائج آئیں گے اور ان کے ذریعے وہ نتائج کو تبدیل کریں گے۔‘
علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے پاس وکلا کے ذریعے معلومات آئی ہیں اور انھوں نے خاص طور پر تاکید کر کے بھیجا ہے کہ یہ معلومات باقی جماعتوں اور لوگوں تک پہنچا دیں کہ ن لیگ نے کمپیوٹر ہیک کر لیے ہیں جہاں سے نتائج آنے ہیں۔‘
’ان کا ارادہ ہے کہ جب تنائج آ رہے ہوں گے تو وہ انھیں تبدیل کریں اس لیے انھوں نے (عمران خان) ہدایت کی ہے کہ پولنگ ایجنٹس آر اوز سے نتائج لیے بغیر بالکل وہاں سے نہ ہلیں کیونکہ انھوں نے ٹی وی پر آنے والے نتائج ہیک کر کے بدلنے ہیں۔‘
تاہم اس بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کے نئے چیف الیکشن کمشنر رؤف حسن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس حوالے سے اب تک کوئی معلومات نہیں ملی لیکن ’اگر علیمہ بی بی ایسا کہہ رہی ہیں تو خان صاحب نے انھیں یہ پیغام پھیلانے کو کہا ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ پیغام ہمیں براہِ راست نہیں پہنچایا گیا اس لیے اس پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر علیمہ خان کچھ کہہ رہی ہیں تو اسے آپ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‘
علیمہ خان کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ ن لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ’انھیں میرا مشورہ ہے کہ جتنی ان کی سیاسی سمجھ بوجھ ہے اسی کے مطابق بات کیا کریں۔‘
وہ کہتی ہیں ’آپ خود سوچیں کہ ایک سیاسی جماعت کیسے الیکشن کمیشن کے نظام کو ہیک کرسکتی ہے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’کامن سینس تحریکِ انصاف کے لوگوں میں نہیں ہے۔‘
علیمہ خان کے انہی خداشت کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ تمام نتائج پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں بنائے جاتے ہیں اور ان میں ردِبدل ممکن نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج دستاویزی صورت میں نہ صرف متعلقہ حکام تک پہنچائے جاتے ہے بلکہ پولنگ سٹیشن کے باہر بھر چپساں کیے جاتے ہیں اس لیے نتائج بدلنا تقریباً ناممکن ہے۔
پاکستان میں آئندہ ہفتے عام انتخابات کا انعقاد ہو گا اور ان کے نتائج مرتب کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے ایک نجی ادارے سے سافٹ ویئر تیار کروایا ہے جسے اس بار الیکشن مینجمنٹ سسٹم (ای ایم سی) کا نام دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے حکام کا اصرار ہے کہ یہ نظام گذشتہ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) سے یکسر مختلف ہے۔ البتہ اسے الیکشن کمیشن کے اپنے رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم (آر ایم ایس) کی نئی شکل ضرور کہا جا سکتا ہے۔
ایسے میں الیکشن کمیشن آر ٹی ایس اور آر ایم ایس کو چھوڑ کر ایک تیسرے تجربے کی طرف کیوں گیا ہے اور کیا اس سے نوے ہزار چھ سو ستر پولنگ سٹیشنز سے کروڑوں ووٹوں کا درست شمار ممکن ہو سکے گا؟
واضح رہے کہ ہر ووٹر کو پاس دو پرچیاں ہوں گی، یوں اس بار کل 24 کروڑ سے زائد ووٹ کی پرچیاں چھاپی گئی ہیں۔
اب ووٹ تو سو فیصد نہیں کاسٹ ہوں گے مگر الیکشن کمیشن ان تمام سو فیصد پرچیوں کا حساب رکھنے کا پابند ہے۔
بی بی سی اردو نے الیکشن کمیشن کے ان حکام سے تفصیل سے بات کی ہے، جو اس نئے نظام کی تیاری کے عمل میں شریک رہے ہیں، جس پر 27 جنوری کے بعد بھی مزید تجرباتی اجلاس بلائے گئے ہیں۔
انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ای ایم ایس کو سادہ الفاظ میں الیکشن کمیشن کے پرانے نظام آر ایم ایس کی جدید شکل کہا جا سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’سنہ 2018 کے انتخابات میں نادرا کی طرف سے تیار کردہ الیکشن نتائج مرتب کرنے کا نظام آر ٹی ایس مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا، جسے اب سرے سے ترک کر دیا گیا ہے اور اب آر ٹی ایس تاریخ کے کوڑے دان میں چلا گیا ہے۔‘
انتخابی نتائج مرتب کرنے کا نیا نظام کیا ہے؟
الیکشن کمیشن کے ان حکام نے بی بی سی کو جن سوالات کے جوابات دیے ہیں اور جو تفصیلات بتائی ہیں وہ یہاں درج کی جا رہی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے نومبر 2022 سے نتائج مرتب کرنے سے متعلق نئے نظام ’ای ایم ایس‘ پر کام شروع کیا تھا۔
اس مقصد کے لیے ایک ’بِڈنگ‘ کے ذریعے ایک نجی کمپنی ’سپائر‘ کو چنا گیا، جس نے نتائج مرتب کرنے کے لیے ایک میکنزم اور سافٹ ویئر تیار کر کے الیکشن کمیشن کے حوالے کیا۔
الیکشن کمیشن نے اس سافٹ ویئر پر الیکشن سے محض چند دن قبل 27 جنوری کو ایک تجربہ کیا اور اس عمل میں 859 ریٹرنگ افسران بھی شریک ہوئے۔
یوں یہ ریٹرنگ افسران کے لیے تربیتی ورکشاپ بھی ثابت ہوئی کہ انھوں نے آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کیسے مرتب کرنے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے خود اپنی پریس ریلیز میں تسلیم کیا ہے کہ اس تجربے کے دوران کچھ جگہوں پر انٹرنیٹ کنکشن کے مسائل کی وجہ سے نتائج بھیجنے میں ناکامی بھی ہوئی ہے۔
حکام کے مطابق اس نئے نظام کے تحت ریٹرننگ افسران کو فائبر آپٹیکس اور بصورت دیگر وائی فائی ڈیوائسز مہیا کی جائیں گی۔ ان کے مطابق حکومت کو اس حوالے سے ضروری اقدامات کے لیے بھی لکھا جا چکا ہے جن میں بجلی اور انٹرنیٹ کی بلاتعطل فراہمی بھی شامل ہے۔
حکام کے مطابق اس بار نئے نظام کے تحت الیکشن نتائج کا سلسلہ نامزدگی فارم سے ہی شروع ہو گیا ہے۔ اب یہ تمام تفصیلات نئے نظام میں درج کی جا رہی ہیں اور آخر میں انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد فارم 45 پر پولنگ سٹیشن کا نتیجہ مرتب کیا جانا ہے اور فارم 47 پر پورے حلقے کا نتیجہ لکھا جائے گا۔
ملک بھر سے پریزائڈنگ افسران (پی اوز) پولنگ سٹیشن کا نتیجہ ریٹرنگ افسران (آر اوز) کو بھیجیں گے۔
ان کے موبائل پر ای ایم ایس کی ایپ انسٹال کی جا چکی ہے، جس کے ذریعے وہ فارم 45 کی تصویر آر اوز کو بھیجیں گے۔ اگر کسی وجہ سے یہ تصویر ’سینڈ‘ نہ بھی ہو سکے تو پھر ’جیو ٹیگنگ‘ کر کے اس تصویر کے بنانے اور شیئر کرنے کا وقت معلوم کیا جا سکے گا۔ جیو ٹیگنگ کے لیے پی اوز کے موبائل کا فرانزک کیا جائے گا۔
ہر پولنگ سٹیشن پر سینیئر پی او اور آر او کے پاس یہ موبائل دستیاب ہوں گے جن میں الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ ایپ ڈاؤن لوڈ کی گئی ہے۔
ایک موبائل گم ہونے یا خراب کی صورت میں دوسرا موبائل استعمال کیا جائے گا۔ حکام کے مطابق اگر کسی وجہ سے یہ موبائل سرے سے کام ہی نہ کریں تو بھی انتخابی نتائج کے عمل میں تاخیر ضرور آ سکتی ہے مگر اس سے نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔
پی اوز کو کہا گیا ہے کہ وہ فارم 45 پُر کرنے سے قبل ایک سادہ کاغذ پر نتائج مرتب کریں اور پھر انھیں حتمی فارم 45 پر درج کریں اور اس کی تصویر بنا کر آر اوز کو بھیج دیں۔
نتیجے کی تصویر شیئر کرنے کے علاوہ پی او کو خود نتیجہ لے کر آراو کے پاس جانا ہوگا۔ ریٹرنگ افسران ایک میڈیا وال یا بڑی سکرین کے ذریعے ان نتائج کا اعلان کریں گے۔ اس بار الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ اس سارے عمل میں براہ راست شریک نہیں ہو گا۔
ہر آر او کو صوبائی اسمبلی کے حلقے کا نتیجہ تیار کرنے کے لیے تین جبکہ قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے چار ڈیٹا آپریٹرز میسر ہوں گے، جن کے پاس لیپ ٹاپ ہوں گے اور وہ مسلسل ان نتائج کو مرتب کر رہے ہوں گے۔
ملک بھر سے بہترین صلاحیت کے تقریباً 3600 ڈیٹا آپریٹرز ان نتائج کو مرتب کرنے کے عمل میں شامل ہوں گے۔
ہر آر او کے پاس نادرا کا ایک اہلکار بھی ہو گا، جسے ’ٹربل شوٹر‘ کہا جاتا ہے۔ وہ اہلکار کسی بھی تکنیکی خرابی کی صورت میں ڈیٹا آپریٹرز کی مدد کرے گا۔
اگر سافٹ ویئر میں کوئی پیچیدگی یا مسئلہ ہوا تو معاہدے کے تحت اس کی ذمہ داری اسے تیار کرنے والی کمپنی کے کندھوں پر ہو گی۔
آرٹی ایس سے یہ کیسے مختلف نظام ہے؟
آر ٹی ایس کے بارے میں الیکشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ اس نظام میں سب سے بڑی خرابی یہی تھی کہ اس میں نتائج براہ راست اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے ہیڈکوارٹرز کو بھیجنے تھے۔
اب جب سنہ 2018 میں تقریباً 83000 پولنگ سٹیشنز سے نتائج آنا شروع ہوئے تو پھر اس نظام کی بس ہو گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ نظام مکمل طور پر انٹرنیٹ کی دستیابی کا محتاج تھا۔
نئے نظام میں بھی انٹرنیٹ کے ذریعے نتائج مرتب کرنے کے عمل کو ترجیح دی گئی ہے مگر کسی وجہ سے اگر انٹرنیٹ تک رسائی ممکن نہ ہو سکی تو پھر یہ نیا نظام آف لائن بھی کام کرتا رہے گا۔
الیکشن کمیشن نے پہلے سے اہم ڈیٹا اور فارم لیپ ٹاپ پر ڈاؤن لوڈ کر رکھے ہیں یوں آف لائن بھی نتائج درج ہوتا رہے گا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کسی ’کیش اینڈ کیری‘ میں کمپیوٹرائزڈ بل بنتا ہے اور صارف اسے لے کر گھر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔
اگر کسی وجہ سے آف لائن بھی کرنے میں مسئلہ ہو تو پھر ایکسیل شیٹ میں پورا ڈیٹا دستیاب ہو گا اور پھر نتائج ایکسل شیٹ پر مرتب کیے جائیں گے۔
حکام کے مطابق ابھی بھی ایکسیل شیٹ پر امیدواروں اور سیاسی جماعتوں سے متعلق تمام تفصیلات درج ہیں۔
اس وقت الیکشن کمیشن میں ایک پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ بھی کام کر رہا ہے۔ یہ یونٹ دو ڈھائی برس قبل قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد الیکشن کمیشن کو نئے اور جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔
اس مقصد کے لیے اس یونٹ میں آئی ٹی کے شعبے کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یہ یونٹ اب آٹھ فروری کے بعد دیگر نئی ٹیکنالوجی اور میکنزم پر بھی غور کرے گا کہ الیکشن کو کیسے زیادہ سے زیادہ شفاف بنایا جائے۔
الیکشن کمیشن میں اس پروجیکٹ کے سربراہ محمد سعد علی ہیں۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس یونٹ میں الیکشن مینجمنٹ سسٹم، ڈیٹا سینٹر اور ایک کنٹرول روم ہے۔ ان کے مطابق اس یونٹ نے ہی نتائج مرتب کرنے کے لیے ایک ہارڈویئر بھی خریدا ہے۔
حکام کے مطابق ابھی پاکستان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے لیے تیار نہیں ہے اور دنیا میں یہ تجربہ زیادہ ممالک کر بھی نہیں رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے بھی اس معاملے کو مؤخر کر رکھا ہے۔
ترجمان الیکشن کمیشن ندیم حیدر کے مطابق سرکاری ملازمین، جیل میں، معذور افراد، الیکشن ڈیوٹی والے دس لاکھ کے قریب، پولیس والے ان انتخابات میں 22 جنوری تک پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈال سکتے تھے جبکہ الیکشن کا عملہ لیٹر ملنے کے تین دن کے اندر ووٹ پوسٹ کر سکتے ہیں۔
سعد علی کے مطابق جب پی آر او اپنا نتیجہ بھیج دے گا تو پھر ریٹرنگ افسر کے پاس سارا سسٹم ہو گا، اس کے رزلٹ کو کوئی تبدیل نہیں کر سکے گا۔
ان کے مطابق ’مانیٹرنگ سیل بڑی مستعدی سے کام کر رہا ہے۔ ہمارے مانیٹرنگ افسر ہر حلقے میں موجود ہیں۔ مانیٹرنگ روم موجود ہے۔‘
الیکشن قوانین کے مطابق میڈیا پہلے گھنٹے تک کسی بھی نتیجے کا اعلان نہیں کر سکتا جبکہ رات دو بجے تک تمام پریزاڈنگ افسران نے اپنا نتیجہ آر اوز کے پاس جمع کرانا ہے۔ حکام کے مطابق انتخابات سے اگلے دن صبح دس بجے تک ہر حال میں نتیجے کا اعلان کیا جائے گا۔
نگہت صدیق الیکشن کمیشن میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے ریڈیو پاکستان کے ایک پروگرام میں بتایا کہ ’اب کسی کا ڈبل ووٹ کاسٹ نہیں ہو سکتا ہے، اب باقاعدہ نظام موجود ہے۔‘ ان کے مطابق سنہ 2017 سے قبل کمپیوٹرائزڈ الیکٹورل رول نہیں تھا۔ اب یہ کنفیوژن نہیں ہے۔‘
الیکشن کمیشن کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دنیا بھر میں انتخابی نتائج میں تاخیر پر اتنا شور نہیں مچایا جاتا مگر پاکستان میں ایسی تاخیر کو دھاندلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’پاکستان میں کئی پولنگ سٹیشن اتنے دور دراز ہیں کہ وہاں سے رات کو واپسی کا سفر کرنا عملے کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور پھر جب سکیورٹی دستیاب ہوتی ہے تو پھر یہ عملہ محفوظ جگہ تک سفر کرتا ہے۔‘
ان کی رائے میں کچھ حلقوں میں اس بار بھی ایسی تاخیر کے امکانات موجود رہیں گے۔
ان کی رائے میں کوئی نظام بھی 100 فیصد درست نہیں ہوتا اور اس بار بھی متعدد شکایات موصول ہوں گی ’مگر یہ بات قابل اطمینان ہے کہ اگر انتخابی نتائج مرتب کرنے والا نیا نظام بھی فیل ہو جائے تو بھی رزلٹ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ آف لائن اور ایکسل شیٹ پر نتیجہ مرتب ہونے میں وقت ضرور لگتا ہے مگر اس کا درست اندراج ہو جاتا ہے۔