آرین خان کی گرفتاری پر ’سوالیہ نشان آرین خان کے ساتھ سیلفی لینے والا ’پرائیویٹ جاسوس‘ اور ارباز مرچنٹ کا ہاتھ پکڑے ’بی جے پی کارکن‘ کا معمہ
ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی ہائی پروفائل کیس میں تفتیش کے دوران کوئی حراست میں لیے گئے شخص کے ساتھ سیلفی لے اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرے یا چھاپے کے بعد ایک سیاسی کارکن ملزم کا ہاتھ پکڑ کر عدالت میں لاتا دکھائی دے۔
بالی وڈ کے سپر سٹار شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کی گرفتاری کے معاملے میں بالکل ایسا ہی ہوا ہے جس کے بعد نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) کی غیر جانبداری پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
گذشتہ اتوار کو شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کو انڈیا میں منشیات کی روک تھام کے ادارے نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) نے منشیات خریدنے اور استعمال کرنے کے الزامات کے تحت ایک ‘ریو پارٹی’ سے گرفتار کیا تھا۔ اس دن سے آرین خان کا نام مختلف وجوہات کی بنا پر سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔
مہاراشٹر حکومت میں کابینہ کے وزیر اور این سی پی رہنما نواب ملک نے الزام لگایا ہے کہ آرین خان کی گرفتاری کے بعد جو تصویر وائرل ہوئی تھی وہ کے پی گوساوی نامی شخص نے لی تھی۔ نواب ملک کا کہنا ہے کہ گوساوی ایک پرائیویٹ جاسوس ہے اور اس کے خلاف دھوکہ دہی کے مقدمات ہیں۔
گوساوی کی حراست میں بیٹھے آرین خان کے ساتھ لی گئی سیلفی وائرل ہونے کے بعد این سی بی نے پہلے کہا کہ تصویر میں موجود شخص سے ایجنسی کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن بعد میں اسے گواہ بتایا گیا۔
نواب ملک نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ جو شخص آرین خان کے دوست ارباز مرچنٹ کے ساتھ ویڈیو میں نظر آ رہا ہے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا کارکن منیش بھانوشالی ہے جس کے فیس بک پروفائل میں وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے کئی سینیئر لیڈروں کے ساتھ تصاویر موجود ہیں اور یہ شخص ارباز مرچنٹ کا ہاتھ پکڑ کر لاتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔
ان الزامات کی بنیاد پر نواب ملک نے آرین خان کی گرفتاری سے متعلق پورے کیس کو ’جعلی‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ یہ سارا معاملہ بی جے پی کی ’مہاراشٹر حکومت اور بالی وڈ کو بدنام کرنے کی سازش‘ ہے۔
‘کچھ افراد آزاد گواہ کے طور پر شامل تھے’
نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) نے نواب ملک کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
این سی بی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل گیانندر سنگھ نے کہا ہے کہ اس کیس سے متعلق پنچ نامے قانونی دفعات کے مطابق تیار کیے گئے ہیں اور کارروائی کے دوران ‘کچھ افراد بطور آزاد گواہ شامل تھے’۔ ان کے مطابق قانون آزاد گواہوں کو شامل کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
چھ اکتوبر کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے گیانندر سنگھ نے 10 لوگوں کے نام بتائے جنھیں انھوں نے آزاد گواہ کہا۔ ان میں کرن گوساوی اور منیش بھانوشالی کے نام شامل ہیں۔
گوساوی اور بھانوشالی کے خلاف الزامات کے بارے میں گیانندر سنگھ نے کہا کہ ‘ایجنسی پر لگائے گئے کچھ الزامات بے بنیاد ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ الزامات این سی بی کے سابقہ اقدامات کی وجہ سے لگائے جا رہے ہیں’۔
گیانندر سنگھ نے یہ بھی کہا کہ این سی بی کی کارروائی پیشہ ورانہ اور قانونی طور پر شفاف اور منصفانہ رہی ہے اور رہے گی۔
گیانندر سنگھ نے کوئی نام تو نہیں لیا لیکن جن سابقہ اقدامات کا وہ ذکر کر رہے تھے اس کو رواں سال جنوری میں منشیات کے ایک کیس میں نواب ملک کے داماد سمیر شبیر خان کی گرفتاری سے جوڑا جا رہا ہے۔
کیا آزاد گوا بنانے چاہیے تھے’
اترپردیش پولیس کے سابق ڈی جی پی وکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ کسی بھی تحقیقات میں اعتماد اور ساکھ کا ہونا ضروری ہے۔
وہ کہتے ہیں ‘نجی تفتیش کاروں اور سیاسی طور پر منسلک لوگوں کی موجودگی تفتیش کی غیر جانبداری ہونے اور ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔ اپنے 36 سال کے کریئر میں، میں نے کبھی بھی نجی تفتیش کاروں یا سیاسی لوگوں کی مداخلت یا موجودگی کی اجازت نہیں دی۔’
کارکن منیش بھانوشالی نے کہا ہے کہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے انھوں نے اس معاملے سے متعلق معلومات این سی بی کو دی تھیں۔
وکرم سنگھ کہتے ہیں ’اگر کوئی نجی تفتیش کار یا سیاسی کارکن آپ کو معلومات دینا چاہتا ہے تو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے لیکن ایسے لوگوں کو کبھی بھی تفتیش کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ان پر اس بات کا بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ تحقیقات منصفانہ اور قانونی طریقے سے کی جائیں گی۔‘
وکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ این سی بی کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ ذاتی مفادات والے لوگ اس تفتیش میں شامل نہ ہوں۔ ’انھیں آزاد لوگوں کو بطور گواہ رکھنا چاہیے تھا۔‘
‘عام لوگ گواہ بننے سے گھبراتے ہیں’
ایک طرف وکرم سنگھ کا خیال ہے کہ سرکاری تفتیش میں نجی تفتیش کاروں یا سیاسی کارکنوں کی شمولیت سے اس تحقیقات کی ساکھ پر سوالات اٹھ سکتے ہیں جبکہ دوسری جانب سابق آئی پی ایس افسر وبھوتی نارائن رائے کا کہنا ہے کہ زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ ‘عام لوگ پولیس گواہ بننے سے گھبراتے ہیں کیونکہ کوئی بھی عدالتوں کے چکر نہیں لگانا چاہتا۔‘
رائے کے مطابق این سی بی کا یہ کہنا درست ہو گا کہ یہ لوگ ان کے مخبر تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’این سی بی ان لوگوں کو اپنے ساتھ لے گئی ہو گی کیونکہ کسی مشہور شخصیت کے بیٹے کے خلاف گواہی دینے کے لیے کسی گواہ کو تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ جو لوگ تصویروں میں نظر آ رہے ہیں یہ وہی لوگ ہوں گے جن کی ان سب چیزوں سے روزی روٹی چلتی ہو گی۔‘
این سی بی پر بحث
کچھ عرصے سے نارکوٹکس کنٹرول بیورو خبروں میں ہے۔ پچھلے سال بالی وڈ اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی موت کے بعد، این سی بی نے مبینہ ڈرگ ریکیٹ کے انکشافات کی تحقیقات کے حصے کے طور پر کئی بالی وڈ اداکاروں اور اداکاراؤں سے پوچھ گچھ کی تھی۔
کئی دن کی پوچھ گچھ کے بعد این سی بی نے گزشتہ سال ستمبر میں بالی وڈ اداکارہ ریا چکرورتی کو منشیات سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔ اسی منشیات کیس کی تحقیقات کے دوران اداکارہ دیپیکا پاڈوکون سے بھی پوچھ گچھ کی گئی تھی۔
فلم اور ٹی وی کی دنیا سے وابستہ کئی بڑی شخصیات کو این سی بی نے تحقیقات کے دوران پیش ہونے کو کہا تھا۔ این سی بی آفس میں ان مشہور شخصیات سے پوچھ گچھ کئی روز تک جاری رہی لیکن آہستہ آہستہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ ریا چکرورتی کو 28 دن تک حراست میں رہنے کے بعد گزشتہ سال ممبئی ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کیا تھا۔
دریں اثنا کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ کروز پر این سی بی کا چھاپہ گجرات کی منڈرا بندرگاہ پر بڑی مقدار میں منشیات کی ضبطی کے معاملے سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
16 ستمبر کو ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس (ڈی آر آئی) نے گجرات میں اڈانی گروپ کے منڈرا پورٹ پر دو کنٹینرز سے تقریباً 3000 کلو ہیروئن ضبط کی تھی، عالمی منڈی میں جس کی قیمت میں تقریباً اکیس ہزار کروڑ روپے بتائی جا رہی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ این سی بی چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دے رہی ہے سوائے بڑے ڈیلروں کے جو کہ منشیات کے کاروبار میں مصروف ہیں۔
تاہم وزارت داخلہ کی طرف سے ہری جھنڈی ملنے کے بعد 6 اکتوبر کو منڈرا پورٹ سے منشیات ضبط کرنے کا معاملہ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔