آرمی ایکٹ کے تحت سزائیں جنرل قمر باجوہ کو خط لکھنے والا کمپیوٹر انجینیئر ہائی سکیورٹی جیل میں کیسے پہنچا؟
بظاہر یہ کسی عام عدالت جیسا منظر تھا۔ 15 سے 20 فٹ کے کمرے میں ایک جانب جج اور ان کے سامنے ملزم اور مدعی اپنے اپنے وکلا کے ہمراہ موجود تھے۔ لیکن نا تو یہ مقدمہ عام تھا اور نا ہی عدالت۔
ایک میز کے پیچھے بیٹھے تین فوجی افسران میں سے ایک کا رینک لیفٹینینٹ جنرل جبکہ دو میجر جنرل رینک تھے۔ یہ تینوں اس عدالت کے جج تھے۔
ان کے سامنے ہی ایک میز کے پیچھے اسد جمال اپنے موکل کا دفاع کرنے کے لیے موجود تھے۔ اسد جمال کے قریب ہی مقدمے کے مدعی فوجی افسر اپنے وکیل کے ہمراہ براجمان تھے۔
اسد جمال نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کھ ہی دیر میں ان کے موکل کے خلاف گواہان پیش ہونا شروع ہوئے اور انھوں نے نوٹس لینا شروع کیے تاکہ جرح میں کام آ سکیں تو ان کو روک دیا گیا۔
یہ سماعت ایک عام شہری کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی تھی۔
اس مخصوص مقدمے کے اختتام پر اسد جمال کے موکل حسن عسکری کو پانچ سال قید بامشقت کی سزا سنا کر ساہیوال کی ہائی سکیورٹی جیل بھیج دیا گیا۔
حال ہی میں نو مئی کے واقعات کے بعد عام شہریوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی بازگشت ہوئی تو حسن عسکری کا نام ایک ایسی مثال کے طور پر سامنے آیا جو فوجی عدالت سے سزا پا چکے ہیں۔
حسن عسکری پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام لکھے جانے والے ایک خط، جس کی کاپی ججوں کے علاوہ مبینہ طور پر دیگر فوجی جرنیلوں کو بھی بھجوائی، کی وجہ سے پاکستانی فوج میں ’بغاوت اور فوجی افسران کو اپنی کمانڈ کے خلاف اُکسانے‘ کا الزام لگا۔
یہ وہ وقت تھا جب اس وقت کی حکمران جماعت تحریک انصاف سمیت تمام اہم سیاسی جماعتیں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے معاملے پر ایک صفحے پر تھیں اورعمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات نے جنم نہیں لیا تھا۔
حسن عسکری کی قید کے دوران ہی ملک کے سیاسی حالات نے پلٹا کھایا۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور انھوں نے آرمی چیف جنرل باجوہ کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
جنرل باجوہ اپنی دوسری مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو گئے اور عمران خان نے اقتدار سے دور ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنا لیا۔
لیکن وہ کیا حالات تھے جن میں ایک سابق فوجی افسر کا بیٹا، جو آسٹریلیا میں پرسکون زندگی بسر کر رہا تھا، ایک ایسی ہائی سکیورٹی جیل میں پہنچ گیا جہاں صرف خطرناک مجرموں کو رکھا جاتا ہے؟
یہ وہ سوال تھا جس کے جواب کی تلاش میں بی بی سی نے حسن عسکری کے والدین سے بات چیت کی۔
حسن عسکری کون ہیں؟
پاکستان کی بری فوج سے میجر جنرل کے عہدے پر ریٹائر ہونے والے سید ظفر مہدی عسکری کی پہلی اولاد حسن عسکری نے پاکستان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ کی سٹیٹ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے کمپیوٹر انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
تاہم ان کے اہلخانہ کے مطابق حسن کمپیوٹرز سے زیادہ معاشیات، آئین اور انسانی حقوق میں دلچسپی رکھتے تھے۔
انھوں نے بیرونِ ملک سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان میں سی ایس ایس کا امتحان بھی دیا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے اور سنہ دو ہزار کے قریب اپنی بہن زہرا کے ہمراہ آسٹریلیا منتقل ہو گئے۔ تاہم کچھ ہی عرصے کے بعد وہ پاکستان لوٹ آئے۔
زہرا بتاتی ہیں کہ پاکستان واپسی پر حسن عسکری نے اپنی این جی او بھی کھولنے کی کوشش کی۔ ’وہ پاکستان میں اصلاحات کا خواہش مند تھا۔ اسے اپنے ملک سے بہت محبت تھی۔ وہ کہتا تھا کہ میں پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔‘
کچھ عرصہ پاکستان میں گزارنے کے بعد وہ ایک بار پھر آسٹریلیا چلے گئے۔ زہرا کہتی ہیں کہ ’حسن کو آسٹریلیا میں بھی پاکستان کا خیال رہتا تھا۔ وہ ہر وقت کہتا تھا کہ پاکستان کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں۔‘
سنہ 2015 کے لگ بھگ حسن کی والدہ گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوئیں تو وہ ان کا خیال رکھنے کے لیے ایک بار پھر پاکستان لوٹ آئے۔
پاکستان واپسی کے بعد انھوں نے اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی میں نوکری شروع کی لیکن ان کی ملکی سیاست پر گہری نظر رہی۔
فوج کو خطوط لکھنے کا آغاز
حسن کے خاندان کے مطابق فوج کو براہ راست خطوط لکھنے کا سلسلہ انھوں نے 2018 میں شروع کیا تاہم یہ خطوط کس موضوع پر ہوتے تھے، اس سے حسن کا خاندان لاعلم تھا۔
حسن کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’اس نے ہمیں کبھی نہیں بتایا۔ یہ سب تو اس نے ہمیں اب بتایا ہے۔‘
زہرا کہتی ہیں کہ ’وہ براہ راست خط لکھتا تھا۔ اس کا سوشل میڈیا پر کوئی اکاوئنٹ نہیں تھا، اور نہ ہی کبھی اس نے اپنے خطوط کو کہیں چھپوایا۔‘
حسن کے خاندان کا دعوی ہے کہ ایسے ہی ایک خط کے جواب میں انھیں جی ایچ کیو بلایا بھی گیا۔
فوج کے ایڈجوٹینٹ جنرل کی طرف سے حسن عسکری کی فوج میں تحویل کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک جواب جمع کروایا گیا جس میں کہا گیا کہ حسن عسکری نے ’سنہ2017 سے بڑی تعداد میں خطوط اور کتابچے پاکستانی افسران کو لکھے تھے جس کا مقصد فوجی افسران کو اپنی قیادت کے خلاف بغاوت پر اُکسانا تھا۔‘
اس جواب میں کہا گیا کہ اس حوالے سے حسن عسکری کو ’بارہا متنبہ کیا گیا کہ وہ ایسی سرگرمیوں سے باز رہیں’ لیکن اُنھوں نے ‘فوجی افسران کو خطوط لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔‘
دروازہ ایسے بجنا شروع ہوا جیسے کوئی توڑ رہا ہو‘
دو اکتوبر، 2020 کی صبح چھ بجے کا وقت تھا جب ریٹائرڈ میجر جنرل سید ظفر مہدی عسکری ایک شور کی آواز سے اٹھ بیٹھے۔
ایک دن قبل ہی حسن کی سالگرہ تھی۔ وہ 51 برس کے ہو چکے تھے۔
حسن کے والد نے بتایا کہ ’صبح کے چھ بجے کا وقت تھا۔ ہم سو رہے تھے۔ دروازہ ایسے بجنا شروع ہوا جیسے کوئی توڑ رہا ہو۔ ہمیں تو کوئی سمجھ نہیں آئی، ہم آنکھیں ملتے ہوئے باہر نکلے تو اتنی دیر میں وہ حسن کو باہر لے جا چکے تھے۔‘
میجر جنرل (ر) ظفر مہدی کے گھریلو ملازم عالم نے ہی دروازہ کھولا تو زہرا کے مطابق باہر15-20 گاڑیاں تھیں جن میں ’پولیس والے بھی تھے اور سول کپڑوں میں ملبوس اہلکار بھی۔ انھوں نے عالم سے بھی بدتمیزی کی، اسے دھکے دیے۔‘
زہرا کہتی ہیں کہ اہلکار پہلی منزل پر حسن کے کمرے میں گئے جہاں ’اس کے لکھے ہوئے خطوط موجود تھے۔ اس کا کمپیوٹر، پرنٹر فون۔۔۔جو کچھ ان کو ملا وہ لے گئے۔‘
تاہم دو اکتوبر کی اس صبح حسن کے گھر والوں کو علم نہیں تھا کہ انھیں کیوں لے جایا جا رہا ہے۔
حسن کے والد کہتے ہیں کہ ’میں تو ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہوا کیا ہے تو وہ لوگ جا بھی چکے تھے۔‘
اسی دن شام کو ان کے گھر کے دروازے پر ایک ایف آئی آر اور مجسٹریٹ کے حکم نامے کی کاپی پہنچی۔
اسلام آباد کے تھانہ شالیمار میں یہ ایف آئی آر ایک ہی دن قبل، یعنی یکم اکتوبر کو شام چار بجے درج ہوئی تھی۔ اس میں حسن عسکری کا مکمل پتہ دیتے ہوئے درخواست گزار نے شکایت کی تھی کہ انھوں نے مختلف ’فوجی افسران کو خطوط لکھ کر ڈیوٹی سے گمراہ کرنے اور آرمی چین آف کمانڈ کے خلاف مجموعی مزاحمت اور حکم عدولی پر اکسانے کے لیے نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی۔‘
ایف آئی آر کے مطابق درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ’حسن عسکری کا یہ عمل فوج میں بغاوت کو جنم دینے کی کوشش تھی جس میں ریاست مخالف عناصر کی پشت پناہی نظر آتی ہے۔‘
اس درخواست پر اگلی ہی صبح حسن عسکری کو ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ اسی دن، یعنی دو اکتوبر کو ہی اسلام آباد کے جوڈیشل مجسٹریٹ میاں محمد اظہر ندیم نے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے حسن عسکری کو فوجی حکام کے حوالے کرنے کے احکامات پر دستخط کر دیے۔
حسن عسکری کو کس قانون کے تحت فوج کے حوالے کیا گیا؟
حسن عسکری کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 131 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ تعزیرات پاکستان کی اس دفعہ کے تحت اگر کسی شخص پر آرمڈ فورسز کے کسی اہلکار کو بغاوت پر اُکسانے کا جرم ثابت ہو جائے تو اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ اس قانون کے تحت مجرم کو عمر قید یا دس سال قید اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے۔
آرمی ایکٹ کے سیکشن 31 ڈی کے تحت صرف کوئی فوجی اہلکار یا افسر ایسے مقدمے میں ملوث پایا جائے تو اس کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے جبکہ سویلین یعنی عام شہری پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31 ڈی میں لا کر اس کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پہلے اس سویلین کے خلاف کسی تھانے میں مقدمہ کے اندارج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔
’ہمیں ایک میس بلوایا گیا‘
حسن عسکری کے والد سید ظفر مہدی عسکری 1991 میں فوج سے میجر جنرل کے رینک پر ریٹائر ہوئے۔
جب ان کو علم ہوا کہ ان کا بیٹا فوج کی حراست میں ہے تو انھوں نے جی ایچ کیو میں افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اتنا فائدہ ضرور تھا کہ میں لوگوں سے مل سکتا تھا اور لوگ مجھ سے اچھے طریقے سے ملتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جن افسران سے بھی وہ ملتے، ’وہ اس کیس سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے، وہ تو یہ بھی نہیں بتاتے تھے کہ ہمیں پتہ ہے۔ ہماری کوشش تھی کہ معاملہ حل ہو، ہم کسی سے لڑائی نہ کریں۔‘
ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو ماہ بعد حسن سے خاندان کی پہلی ملاقات ہو گئی۔ حسن کی بہن زہرا بھی تب تک پاکستان آ چکی تھیں۔
زہرا نے بتایا کہ ’ہمیں کہا گیا کہ آپ راولپنڈی کے ایک میس آ جائیں۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ وہ زندہ ہے اور واقعی فوج کے پاس ہے۔‘
ان کے مطابق حسن دو ماہ کے دوران کمزور ہو چکا تھا۔ ’اس نے بتایا کہ اس کو پتہ نہیں کہ اس کو اس دوران کہاں رکھا گیا لیکن وہ جہاں بھی تھا، اسے تنہا قید رکھا گیا۔‘
’ہمیں اندازہ ہوا اس معاملے کو ایسے نہیں چھوڑیں گے‘
زہرا کے مطابق حسن نے اس ملاقات میں ان کو بتایا کہ ان کا لائی ڈیٹیکٹر سے تین بار ٹیسٹ لیا گیا۔
میجر جنرل ظفر مہدی بولے کہ ’تفتیش اسی نکتے پر تھی کہ یہ اکیلا تو کچھ نہیں کر سکتا، تو یہ کس کے ساتھ ہے۔‘
اس وقت تک حسن کے گھر والوں کو اور خود حسن کو بھی شاید یہ امید تھی کہ ان کو جلد ہی رہا کر دیا جائے گا جب تفتیش کاروں کو اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ حسن کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں اور یہ خطوط انھوں نے صرف اپنے خیالات کے مطابق ایک انفرادی عمل کے طور پر لکھے تھے۔
لیکن یہ امید اس وقت ٹوٹی جب ان کو علم ہوا کہ حسن کا کیس اب فوج کی جیگ برانچ یعنی قانونی شعبے کو بھجوا دیا گیا ہے۔
زہرا کہتی ہیں کہ ’تب ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہ اس معاملے کو ایسے نہیں چھوڑیں گے۔‘
’حسن کے خلاف کیا چارج شیٹ ہے، ہمیں کچھ بھی نہیں ملا‘
اسد جمال نے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی میں حسن عسکری کا دفاع کیا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل فوج کی اعلی ترین عدالت ہے جس میں لیفٹینینٹ جنرل اور میجر جنرل رینک کے افسران کو جج مقرر کیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں سخت سے سخت سزا دینے کا اختیار ہوتا ہے۔ وہ سزائے موت بھی ہو سکتی ہے اور عمر قید بھی۔‘
اسد جمال نے بتایا کہ حسن عکسری کے کورٹ مارشل کی دو درجن کے قریب سماعتیں ہوئیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس کارروائی کے دوران فوج کی قانونی برانچ، جیگ کا ایک افسر، عدالت کی رہنمائی کے لیے موجود ہوتا ہے جبکہ ملزم کے لیے فوج کی جانب سے ایک نمائندہ دیا جاتا ہے جو ملزم کو اس کے حقوق بتاتا ہے، اس کو کیا سہولیات مل سکتی ہیں اور ان کے مطالبات حکام تک پہنچانے کا کام کرتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کو حسن عکسری کے خلاف چارج شیٹ نہیں فراہم کی گئی اور نا ہی سزا کے بعد ان کو کچھ دیا گیا۔
اسد جمال کا کہنا ہے کہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں فوجی عدالت کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی قانون کو ایک طرف رکھ کر، یا معطل کر کے کارروائی تیز تر کر سکتے ہیں۔‘
اسد جمال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے لیے جب وہ پہنچتے تو ان کو کمرہ عدالت کے قریب ایک کمرے میں پہنچایا جاتا جہاں حسن عسکری کو لایا جاتا۔
’اس کے چہرے پر کپڑا باندھا ہوتا اور اس کو ہتھکڑی لگی ہوتی۔ ایک عام انسان کے لیے یہ کافی تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے۔ مجھے نظر آتا تھا کہ حسن کتنی تکلیف میں ہے۔‘
اسد جمال کہتے ہیں کہ حسن کی سزا کے بارے میں وہ لاعلم تھے۔
’مجھے بتایا ہی نہیں۔ کسی کو بھی نہیں بتایا۔ صرف حسن کو بتایا کہ یہ سزا ہوئی ہے۔‘
اسد جمال کا کہنا تھا کہ ’عام حالات اور سول عدالتوں کی طرح فوجی عدالت میں کسی سولین کوعدالت سجا کر فیصلہ نہیں سنایا جاتا کیونکہ سولین شور مچا سکتے ہیں، کچھ کہہ سکتے ہیں۔‘
حسن کے والد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حسن کو ایک سادہ کاغذ پر یہ لکھا ہوا دکھایا گیا کہ پانچ سال قید بامشقت۔ ایک سادہ کاغذ تھا جس پر کسی کے دستخط بھی نہیں تھے۔‘
خط میں کیا لکھا گیا تھا؟
حسن عسکری کو جس خط پر سزا دی گئی، وہ منظر عام پر نہیں آیا۔ آخر انھوں نے خط میں ایسا کیا لکھا کہ ایک فوجی قانون کے تحت ان کو پانچ سال قید بامشقت کی سزا دی گئی؟
حسن کی وکیل ایمان زینب مزاری سے جب میں نے سوال کیا کہ کیا ان کے پاس اس خط کی نقل موجود ہے تو انھوں نے کہا کہ اس خط کی کاپی کو بھی دکھایا نہیں جا سکتا۔ حسن کی بہن زہرا نے بھی یہی جواب دیا۔
تاہم ایمان زینب مزاری کے مطابق تقریباً 100 صفحات پر مشتمل اس خط میں حسن عسکری نے سیاست میں فوج کے عمل دخل اور آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کے ملک پر ممکنہ سیاسی اور معاشی مضمرات سے خبردار کیا تھا۔
میجر جنرل ظفر مہدی کہتے ہیں کہ ’ایک سویلین اگر آرمی چیف پر تنقید کرتا ہے، تو چیف کو کیسے ہضم ہو گا جو اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ پوری حکومت چیف کی ماتحت ہوتی ہے۔ اور اس آدمی کو کوئی ایسے چیلنج کرے۔‘
’یہ ظلم ہوا۔ بس ہماری قسمت خراب تھی۔‘
’یہ سارا معاملہ پرسنل لینے کا ہے۔ اگر آپ پرسنل نہ ہوں تو آپ حالات اور حقائق کو دیکھتے ہیں، لیکن جب آپ پرسنل ہوتے ہیں تو آپ صرف وہ چیز دیکھتے ہیں جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ بس یہ کیس یہی ہے۔‘
’انھوں نے اسے پرسنل بنا لیا۔‘
زہرا کہتی ہیں کہ ’اس کے خلاف ہتک عزت کا کیس کر دیتے۔ لیکن یہ کہنا کہ اس نے فوجی افسران کو بغاوت پر اکسایا بالکل غلط الزام تھا۔‘
جیل میں ملاقات
حسن کے خاندان کو ابھی علم نہیں تھا کہ حسن کو سزا ہوئی ہے۔
زہرا بتاتی ہیں کہ ’ہم نے اپنے وکیل سے کہا کہ کیا ہم آخری کارروائی کا حصہ بن سکتے ہیں؟ جب وکیل نے فوجی حکام سے رابطہ کیا تو ان کو بتایا گیا کہ اب حسن گجرانوالہ میں نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کہاں ہے تو انھوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے۔‘
زہرا کہتی ہیں کہ ’ایک بار پھر جی ایچ کیو میں لوگوں کو فون کرنے کا سلسلہ شروع ہوا کہ پتہ کریں حسن کہاں ہے۔‘
’پھر ہمیں ایک افسر نے ایک نمبر دیا اور کہا کہ وہ ساہیوال جیل میں ہے۔‘
جیل میں حسن سے گھر والوں کی پہلی بار ملاقات دو ستمبر 2021 کو ہوئی۔ زہرا کہتی ہیں کہ ’حسن کو ایک سکرین کے پار بٹھایا گیا تھا۔ کورونا کی وجہ سے ایک پلاسٹک کی شیٹ بھی نصب تھی۔‘
’اس کو قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ وہ کافی بے چین تھا۔ اس نے ہمیں بات ہی نہیں کرنے دی اور اس نے کہا کہ دیکھو یہ میرے ساتھ غلط کر رہے ہیں۔ وہ جیسے اپنی بھڑاس نکال رہا تھا۔ اس نے کہا تم لوگوں کو یہ یہ اقدامات کرنے ہیں۔ لیکن اس نے کہا کہ میری فکر مت کروں۔ آپ لوگوں نے اس کے خلاف لڑنا ہے۔‘
’وہ آج تک یہی کہتا ہے کہ میری فکر مت کرو۔‘
عدالتی ریلیف میں ناکامی
مئی 2019 میں پاکستان فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو جاسوسی کا الزام ثابت ہونے پر 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
تاہم فوجی عدالت نے ان کی پہلی اپیل پر سزا سات سال کم کر دی اور دوسری اپیل میں اُن کی سزا میں مزید تین سال کی کمی کر دی گئی۔ جنوری 2023 میں ان کو رہا کیا گیا تو جیل حکام کا کہنا تھا کہ بہتر کنڈکٹ کے باعث انھیں قید میں چھوٹ دی گئی۔
تاہم حسن عسکری کی قید کو تقریباً ڈھائی سال گزرنے کے باوجود ان کی ملٹری کورٹ میں اپیل پر اب تک صرف دو دن سماعت ہوئی ہے۔ ملتان میں ہونے والی اس سماعت پر حسن کی وکیل ایمان زینب کی اپنے موکل سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔
واضح رہے کہ فوجی قانون کے مطابق فوجی عدالت کی سزا کے خلاف صرف فوجی کورٹ آف اپیل ہی سزا میں کمی کا اختیار رکھتی ہے۔
حسن عسکری کے معاملے میں سول عدالتوں سے ریلیف کی تمام کوشیں اب تک ناکام رہی ہیں۔
حسن عسکری کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مجسٹریٹ کی جانب سے حسن عسکری کی فوجی حکام کو حوالگی غیر قانونی تھی۔ تاہم ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے اس درخواست کر مسترد کر دیا۔
اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی گئی جس پر فیصلہ رواں سال فروری میں محفوظ کیا گیا۔
حسن عسکری کی سزا کے بعد خاندان کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ سے یہ اپیل بھی کی گئی کہ بوڑھے والدین کی صحت کو مدںظر رکھتے ہوئے حسن کو اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کر دیا جائے۔
عدالت نے خاندان کو آئی جی جیل خانہ جات پنجاب سے رجوع کرنے کو کہا جنھوں نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔
آئی جی کے اس فیصلے کے خلاف حسن کا خاندان ایک بار پھر عدالت پہنچا۔
لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے جون 2022 میں حسن عسکری کو دو ہفتوں کے اندر اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے۔
جون 2022 میں جاری ہونے والے اس عدالتی حکم پر بھی اب تک عمل نہیں ہو سکا ہے اور حسن کے معمر والدین آج بھی اس انتظار میں ہیں کہ وہ کب اپنی بیٹے سے مل سکیں گے۔
حسن نے حال ہی میں اپنے خاندان کی نام ایک پیغام میں لکھا: ’ریاستی اداروں پر تمام تر منفی اثرات کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی کوشش جاری ہے چاہے اس کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔۔۔ ہماری غیر منصفانہ جدائی جاری رہے گی۔ ہمیں اس کو قبول کرنا ہو گا۔‘