آئی ایس آئی سربراہ فیض حمید کے دورۂ کابل پر اسد درانی

آئی ایس آئی سربراہ فیض حمید کے دورۂ کابل پر اسد درانی

آئی ایس آئی سربراہ فیض حمید کے دورۂ کابل پر اسد درانی کا ردعمل: ’خاموشی سے ملاقاتوں کے کئی طریقے ہوتے ہیں

پاکستان کی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کا کہنا ہے کہ ادارے کے موجودہ سربراہ لیفٹینٹ جنرل فیض حمید کا حالیہ دورۂ کابل’نامناسب‘ تھا جس کا نتیجہ افواہوں اور مفروضوں کی صورت میں نکلا۔

بی بی سی کے عثمان زاہد سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ‘ڈی جی آئی ایس آئی کے پاس ایسی ملاقاتیں خاموشی سے کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔’

اسد درانی کا کہنا تھا کہ بعض حلقوں کے خیال میں خطے میں پاکستان کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ لیفٹینٹ جنرل فیض حمید کا دورہ عوامی سطح پر کیا جائے لیکن اس ملاقات کے ردعمل کا ایک غیر ضروری نتیجہ نکلا ہے۔

یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد لیفٹینٹ جنرل فیض حمید نے رواں ماہ پانچ ستمبر کو کابل کا اچانک دورہ کیا تھا جس کی تصاویر بھی میڈیا کی زینت بنی تھیں۔

ان تصاویر اور ویڈیوز میں انھیں ہوٹل کی لابی میں چائے کا کپ تھامے کھڑے دیکھا جا سکتا ہے اور انھوں نے اس موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے ‘پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا’ کے الفاظ ادا کیے تھے۔

اس کے بعد بین الاقوامی میڈیا سمیت انڈین میڈیا میں ان کے دورے کے متعلق قیاس آرائیاں اور افواہوں نے جنم لیا تھا۔

جنرل فیض

جنرل فیض حمید کے دورے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے اسد درانی کا کہنا تھا کہ اس دورے پر ایک گروہ نے پاکستان کے پنجشیر میں کردار کے متعلق افواہیں گھڑ لیں تو دوسری جانب اس مفروضے کو تقویت دینے کی کوشش بھی کی گئی کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے کردار اور اس کے مستقبل کے لائحہ عمل پر بات چیت کے لیے پہنچے تھے۔

انھوں نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ملاقات پر طالبان کے ردعمل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے تاہم اگر وہ جنرل فیض حمید کی جگہ ہوتے تو طالبان سے ملاقات کو عوامی سطح کی بجائے کسی اور طریقے سے انجام دیتے۔

واضح رہے کہ لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی سنہ 1990 سے 1991 تک پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ رہ چکے ہیں جبکہ اس سے قبل سنہ 1988 سے 1989 میں انھوں نے ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ کے طور پر بھی خدمات انجام دی ہیں۔

’وزرا طالبان کے متعلق بیانات پر اپنا منھ بند رکھیں‘

کابل

افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر بات کرتے ہوئے اسد درانی کا کہنا تھا کہ اگرچہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہو گا تاہم اسلام آباد کو یہ فیصلہ چین، ترکی، روس، قطر، ایران اور وسطی ایشائی ریاستوں سمیت خطے کے اہم ممالک اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کرنا چاہیے۔

انھوں نے پاکستان کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے معاملے پر تحمل کے مظاہرے کو سراہا۔

اسی تناظر میں حکومتی وزرا کی جانب سے طالبان حکومت پر دیئے گئے متعدد بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومتی وزرا کے قبل از وقت بیانات کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور بہتر ہے کہ ‘اپنا منھ بند رکھیں۔’

انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی حکومتی وزیر یا وزیراعظم کا ترجمان طالبان حکومت کے متعلق کسی نجی چینل پر حکومتی خارجہ پالیسی سے متصادم کوئی بیان دے دیتا ہے تو اس کو سفارتی سطح پر سنبھالا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ایک کتاب ‘سپائی کرونیکلز’ لکھی تھی جس میں پاکستانی وزارت دفاع کے حکام نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کی لکھی گئی کتابوں میں ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے اور انھوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی خلاف ورزی کی ہے۔

پاکستانی حکومت نے 29 مئی سنہ 2018 میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا تھا تاہم رواں برس مارچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔

ذبیح اللہ مجاہد
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد

’طالبان انڈیا کو افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے دیں گے‘

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد گذشتہ برسوں میں انڈیا کی وہاں کی جانے والی سرمایہ کاری اور ماضی کی افغان حکومت میں ان کے اثر و رسوخ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا غلط ہو گا کہ انڈیا افغانستان سے نکل گیا۔ یہ وقتی ہے کیونکہ اگر انڈیا طالبان سے افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے رابطہ کرتا ہے تو طالبان اسے ضرور کرنے دیں گے کیونکہ وہ حقیقت پسند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان اب اپنے مفادات کے لیے دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات رکھنے کے خواہاں ہوں گے چاہے وہ روس ہو یا انڈیا۔

اسد درانی کا اس پر مزید کہنا تھا کہ طالبان اپنی ضرورت کے تحت انڈیا سے پیسے لیں گے کیونکہ انڈیا کا وہاں کے معاشرے پر کافی اثر ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں انڈیا کو وہ فائدے حاصل ہیں ایک افغان معاشرے میں انڈین فلم انڈسٹری بالی وڈ کا کافی اثر ہے اور دوسرا انڈیا کی کوئی سرحد براہ راست افغانستان سے نہیں ملتی۔

عمران خان

انڈیا اور طالبان کے تعلقات میں پاکستان کے عمل دخل پر انھوں نے کہا کہ انڈیا اور افغانستان کے تاریخی طور پر بھی تعلقات ہے ہیں اور ‘پاکستان کو درمیان میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔’

’پاکستان کا طالبان پر کبھی اثر و رسوخ تھا نہ ہے‘

اسی تناظر میں جب ان سے پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ کے بارے میں سوال کیا گیا تو سابق سربراہ آئی ایس آئی کا دو ٹوک جواب تھا کہ ‘نہ تو پاکستان کا کبھی پہلے ان پر کوئی اثر تھا اور نہ ہی اب ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ طالبان مشترکہ مفادات پر پاکستان سے بات کرتے ہیں لیکن اگر کوئی یہ گمان رکھتا ہے کہ وہ پاکستان کے کہنے پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری مسلح تحریک میں شامل ہو جائیں گے تو ایسا نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو گا۔

اسد درانی کے مطابق افغان طالبان کسی سے ‘ڈکٹیشن’ نہیں لیتے لیکن اگر انھیں ان کے فائدے کی بات کی جائے تو وہ اپنے فائدے کو جانتے ہیں اور ایسا بالکل نہیں ہے کہ انھیں جا کر کچھ بھی کہا جائے تو وہ فوراً مان جائیں گے۔

افغان طالبان کے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ روابط

طالبان

افغان طالبان اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے روابط کے بارے میں جب اسد درانی سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی سے کبھی رابطے منقطع نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے اُن سے اس وقت سے روابط ہیں جب وہ پاکستان میں مضبوط تھی اور ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے عسکری آپریشن کر کے ٹی ٹی پی کو ملک سے نکال باہر کر دیا تھا اور وہ افغانستان بھاگ گئے تھے۔

اسد درانی کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ ٹی ٹی پی میں شامل سے افراد سے مذاکرات کر کے ان کو مرکزی دھارے میں لایا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان سے کہیں کہ ’آئیے مذاکرات کریں، اپنا ملک ہے، آپ واپس آ جائیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *