یوکرین جنگ کے بعد مغربی ملک کے صحافی کو روسی صدر کا پہلا انٹرویو ’لڑائی روکنی ہے تو ہتھیاروں کی سپلائی روکنا ہو گی
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے فروری سنہ 2022 میں یوکرین پر حملہ شروع کرنے کے بعد کسی مغربی صحافی کو انٹرویو نہیں دیا تھا۔ لیکن پوتن کا رواں ہفتے مشہور امریکی صحافی ٹکر کارلسن کو دیا گیا ایک انٹرویو گذشتہ جمعرات کو نشر کیا گیا۔
کارلسن کے شو کو اپریل سنہ 2023 تک فاکس نیوز پر سب سے زیادہ ریٹنگ حاصل تھی، لیکن نیٹ ورک نے انھیں بغیر کسی وجہ کے نکال دیا۔ اب ان کی ایک آزاد کمپنی ٹکر کارلسن نیٹ ورک ہے اور ان کا پروگرام ایکس یعنی سابقہ ٹوئٹر پر بھی نشر ہوتا ہے۔
اپنے پلیٹفارم سے وہ سابق امریکی صدر ٹرمپ جیسے دائیں بازو کے سیاست دانوں کے دوستانہ انٹرویوز نشر کرتے ہیں۔
اپنے تازہ ترین انٹرویو میں پوتن نے یوکرین کے قومی کردار کے بارے میں سوالات اٹھائے اور کیئو کے خلاف اپنے خصوصی ’فوجی آپریشن‘ کا جواز پیش کیا اور کہا کہ نیٹو کی توسیع روس کے لیے خطرہ ہے۔
تاہم انھوں نے اس بات کا یقین دلایا کہ وہ پولینڈ یا نیٹو کے کسی رکن ممالک پر حملہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
بہر حال اس انٹرویو پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پوتن کی جانب سے امریکہ کے صدارتی انتخابات کے سال میں امریکی ووٹروں کو متاثر کرنے کی کوشش ہے۔
تجزیہ کار یہ بھی بتاتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ری پبلکن سینیٹرز کی وجہ سے یوکرین کو فوجی امدادی پیکج کی منظوری میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ٹرمپ نے واشنگٹن کی طرف سے بھیجی جانے والی اربوں ڈالر کی امداد کی مخالفت کی ہے اور تناؤ کم کرنے کی وکالت کی ہے۔
یہ تنازع بھی ہے کہ اس سے قبل کارلسن نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ سنہ 2022 کے بعد سے کسی مغربی صحافی نے پوتن کا ان کا موقف جاننے کے لیے ان کا انٹرویو نہیں کیا۔
اور اب ان کے اس دعوے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ کئی تنظیموں سے وابستہ صحافیوں کا کہنا ہے کہ انھیں انٹرویو کے لیے وقت نہیں دیا گیا جن میں بی بی سی روس کے ایڈیٹر سٹیو روزنبرگ بھی شامل ہیں۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے تصدیق کی کہ صدر پوتن نے اس سے قبل کارلسن کی جانب سے انٹرویو لینے کی دیگر کوششوں کو مسترد کر دیا تھا۔
بہر حال اس انٹرویو میں ان کا موقف سامنے آیا ہے آئیے ہم ان کے انٹرویو کے اہم نکات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
’پولینڈ، لتھوانیا یا نیٹو کے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘
صدر پوتن نے کہا کہ ’لیتھوانیا، پولینڈ یا نیٹو کے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
یوکرین پر حملے نے بالٹک ریاست، پولینڈ اور دیگر یورپی ممالک میں خوف پیدا کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔
اس خوف کی وجہ سے ماسکو اور مغرب کی لڑائی میں غیر جانبدار رہنے والے فن لینڈ اور سویڈن نے نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دے دی۔
انٹرویو میں پوتن نے پولینڈ پر حملے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک پولینڈ روس پر حملہ نہیں کرتا اس وقت تک اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
تاہم یوکرین پر حملے سے قبل امریکہ اور اس کے خفیہ اداروں کی مسلسل وارننگ کے باوجود ماسکو حملے کی بات مسترد کرتا رہا تھا۔
اگرچہ روسی صدر نے نیٹو کے کسی بھی ملک پر حملے کے امکان کو مسترد کر دیا تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ نیٹو اتحاد کو یہ ماننا پڑے گا کہ یوکرین میں روس کے زیر قبضہ علاقہ اسی کے پاس رہے گا۔
’اگر امریکہ جنگ ختم کرنا چاہتا ہے تو اسے ہتھیار دینا بند کرنا ہوں گے‘
کارلسن نے روسی صدر سے سوال کیا کہ کیا انھوں نے یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن سے براہ راست بات کرنے کے بارے میں غور کیا ہے؟
صدر پوتن نے کہا کہ کچھ روسی اور امریکی ایجنسیوں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے لیکن جب تک ’امریکہ یوکرین کو ہتھیار بھیجنا بند نہیں کرتا، بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘
انھوں نے یوکرین کو ہتھیار دینے کو ’سٹریٹجک غلطی‘ قرار دیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’آپ کو سچ بتاؤں، ہم امریکی قیادت کو کیا بتانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گا۔ لڑائی روکنی ہے تو ہتھیاروں کی سپلائی روکنا ہو گی۔‘
پوتن کا یہ ردعمل اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی سینیٹ نے یوکرین کے لیے 61 ارب ڈالر کا امدادی پیکج منظور کیا ہے لیکن رپبلکن کنٹرول والے ایوان نمائندگان اس کے خلاف ہیں۔
تاہم یوکرین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ’اگر روس حملہ کرنا بند کر دے تو جنگ ختم ہو جائے گی۔ لیکن اگر یوکرین اپنی حفاظت کرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ خود کو تباہ کر دے گا۔‘
’وہ روس کو سٹریٹجک شکست نہیں دے سکتے‘
روسی رہنما نے روسی ساختہ ہتھیاروں کی ترقی کا ذکر کیا۔
انھوں نے اس کے جواز کے طور پر امریکی حکومتوں کی جانب سے تخفیف اسلحہ اور جوہری تخفیف اسلحہ کی تجاویز کو پیش کیا۔
انھوں نے کہا کہ روسی ملٹری انڈسٹری دوسرے ممالک کے مقابلے جدید ترین ہائپرسونک ہتھیاروں پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔
صدر پوتن نے کہا کہ مغربی حکمران اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ’وہ روس کو تزویراتی شکست نہیں دے سکتے۔‘
’یوکرین سٹالن کی مرضی سے بنایا گیا‘
اس انٹرویو میں پوتن نے دوسری عالمی جنگ سے قبل سوویت یونین کی تاریخ کے بارے میں بات کی۔
انھوں نے کہا کہ ’یوکرین یو ایس ایس آر کا حصہ ہے جس کا تصور سوویت رہنما لینن نے کیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ جنگ کے اختتام پر سٹالن کی قیادت میں یوکرین کو پولینڈ اور ہنگری کے علاقے دیے گئے جہاں ہنگری اور پولش بولنے والے آج بھی رہتے ہیں۔
روسی صدرپوتن نے کہا کہ ’یوکرین ایک مصنوعی ریاست ہے جو سٹالن کی مرضی پر قائم ہوئی تھی۔‘
اگرچہ یونیورسٹی آف روچسٹر کے مؤرخ میتھیو لینوئر کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ یوکرین کی 1918 سے پہلے کوئی تاریخ نہیں تھی لیکن اب یہ ایک قومی ریاست بن چکی ہے اور اس کے ثقافتی اور لسانی انضمام کا عمل 19ویں صدی کے وسط میں شروع ہوا۔
’روسی جیل میں امریکی صحافی کی رہائی ممکن‘
روس میں جاسوسی کے الزام میں قید ’دی وال سٹریٹ جرنل‘ کے صحافی ایوان گیرشکووچ (32) کی رہائی کے حوالے سے پوتن نے کہا کہ ’اگر ہمارے شراکت دار تعاون کرتے تو ان کی رہائی کا معاہدہ ہو سکتا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سپیشل سروسز میں بات چیت جاری ہے، میرے خیال میں کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔‘
گیرشکووچ کو گذشتہ سال 29 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اگر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو انھیں 20 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
کارلسن نے پوتن سے پوچھا کہ کیا وہ صحافی کو فوری رہا کر سکتے ہیں تاکہ ہم انھیں واپس امریکہ لے جائیں۔
پوتن نے اشارہ کیا کہ قیدیوں کے تبادلے کے تحت ایسا ہو سکتا ہے۔ وہ جرمنی میں قید روسی خفیہ ایجنسی (ایف ایس بی) کے قاتل وادیم کراسیکوف کی رہائی کا حوالہ دے رہے تھے جنھیں سنہ 2019 میں برلن میں جارجیائی فوجی افسر کو گولی مارنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
’امریکہ نے نیٹو کو توسیع نہ دینے کا وعدہ کیا تھا‘
روسی صدر کے مطابق کئی رہنماؤں نے کریملن سے وعدہ کیا تھا کہ نیٹو میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ پوتن کا کہنا ہے کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اب ایسی تنظیم کی ضرورت نہیں رہی۔
پوتن کے پیشرو بورس یلتسن نے سنہ 1993 میں دعویٰ کیا تھا کہ نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع ’غیر قانونی‘ تھی۔
روس کے سابق وزیر خارجہ یوگینی پریماکوف نے بھی ایسی ہی دلیل دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں کہ ’وارسا معاہدے سے نکلنے والا کوئی بھی ملک نیٹو میں داخل نہیں ہوگا۔‘
تاہم، لندن سکول آف اکنامکس میں بین الاقوامی تاریخ کی پروفیسر کرسٹینا سپوہر کے مطابق ایک وعدہ اس وقت کیا گیا جب ماسکو نے دیوار برلن کے گرنے کے وقت مشرقی جرمنی سے اپنے 380,000 فوجیوں کو واپس بلانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
جارج ایچ ڈبلیو بش کے اس وقت کے وزیر خارجہ جیمز بیکر نے مبینہ طور پر یوگینی پریماکوف کو بتایا تھا کہ نیٹو کے فوجی مشرق کی طرف ایک انچ نہیں بڑھیں گے، لیکن یہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے حوالے سے تھا۔
وہ سوالات جو پوتن سے نہیں پوچھے گئے
ول ورنن، بی بی سی، واشنگٹن
ٹکر کارلسن نے اس انٹرویو میں پوتن سے بہت کم سوالات کیے جبکہ انھیں بات کرنے کا پورا موقع دیا گيا۔
لیکن جس طرح سے یہ انٹرویو ہوا، اس سے پوتن بہت خوش ہوں گے۔
پوتن نے یوکرین کی تاریخ، سوویت یونین کے ٹوٹنے اور نیٹو کی توسیع کے حوالے سے اپنی تاریخی شکایات کے بارے میں بات کی۔
انھوں نے یوکرین پر حملے کے حوالے سے دلائل بھی پیش کیے لیکن ان کے انٹرویو میں ان سے کئی اہم سوالات نہیں پوچھے گئے۔
ٹکر کارلسن نے پوتن سے یوکرین میں روسی افواج کے جنگی جرائم، یوکرین کے بچوں کو روس میں زبردستی ملک بدری (جس کے لیے آئی سی سی نے پوتن کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے)، سیاسی مخالفین کے قتل، یا جیل میں بند اپوزیشن رہنما الیکسی ناوالنی کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھا۔
لیکن اس انٹرویو میں پوتن نے صرف ‘اشارہ’ دیا کہ روس میں قید امریکی صحافی کو روسی خفیہ ایجنسی کے وادیم کراسیکوف کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے رہا کیا جا سکتا ہے۔