یوسف رضا گیلانی کی چیئرمین کے انتخاب کے خلاف درخواست، نااہلی کیس میں الیکشن کمیشن سے مہلت مل گئی
حال ہی میں اسلام آباد سے سینیٹر منتخب ہونے والے یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین سینیٹ کے حالیہ انتخاب کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے درخواست کی ہے کہ انھیں چیئرمین سینیٹ قرار دیا جائے کیونکہ انھیں ایوان بالا کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن میں یوسف رضا گیلانی کے خلاف نااہلی کیس کی سماعت میں سابق وزیراعظم کو جواب جمع کرانے کے لیے 5 اپریل تک کی مہلت مل گئی ہے۔
واضح رہے کہ سینیٹ انتخاب سے قبل یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی، جس میں مبینہ طور پر سینیٹ انتخاب میں ’ووٹ کے بدلے نوٹ‘ کی بات کی گئی تھی۔ اس ویڈیو کی بنیاد پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کا رخ کیا تھا۔
چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک کے ذریعے عدالت میں درخواست دائر کی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ان کے سات ووٹ غیر قانونی طریقے سے مسترد کیے گئے لہٰذا ووٹوں کو مسترد کرنے کے عمل کو کالعدم قرار دیا جائے۔
وسف رضا گیلانی نے 12 مارچ کا وہ نوٹیفکیشن بھی معطل کرنے کی درخواست کی ہے، جس کے تحت صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ قرار دیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے عدالت سے یہ درخواست کی ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے مسترد شدہ ووٹوں کو منظور کر کے انھیں چیئرمین سینیٹ قرار دیا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی درخواست میں وفاقی حکومت، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور سینیٹ سیکریٹریٹ کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں ماہ چیئرمین سینیٹ کے لیے ہونے والے انتخاب میں حکومتی امیدوار صادق سنجرانی 48 ووٹ حاصل کر کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے جبکہ یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے اور ان کے سات ووٹوں کو مسترد قرار دیا گیا۔
پارلیمان کے ایوان بالا میں حکمران اتحاد کے مقابلے میں اپوزیشن کے سینیٹرز کی تعداد زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود اپوزیشن امیدوار یوسف رضا گیلانی کو شکست ہوئی۔
اس سے قبل جب یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہوئے تھے تو اس وقت اپوزیشن کو مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں تھی مگر اس کے باوجود وہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے مقابلے میں یہ انتخاب جیت گئے تھے۔
اسے ایک بڑا اپ سیٹ قرار دیا گیا تھا اور اس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کیا تھا۔
ووٹ مسترد ہونے پر تنازع کیا تھا؟
سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر صدر عارف علوی کے مقررکردہ پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے ووٹوں کی گنتی کے موقع پر کہا کہ سات ووٹرز نے یوسف رضا گیلانی کے نام کے اوپر مہر لگائی جس کی وجہ سے یہ ووٹ مسترد ہوئے جبکہ ایک ووٹ اس لیے مسترد ہوا کیوںکہ دونوں امیدواروں کے نام پر مہر لگائی گئی تھی۔
جس پر حزب اختلاف کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کے پولنگ ایجنٹ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’سینیٹ کے قوانین و ضوابط کے تحت چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے طریقہ کار میں ووٹ بیلٹ پر مہر کہاں لگانی ہے اس پر وضاحت نہیں بلکہ جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس کے تحت امیدوار کے خانے کے اندر مہر لگانی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ کہیں نہیں لکھا کہ خانے میں کس جگہ پر مہر لگائیں، آپ جس مہر کی بات کر رہے ہیں وہ خانے کے اندر لگی ہوئی ہے۔‘
ان کا دلائل دیتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ ’سینیٹ سیکریٹریٹ کے عملے نے خود کہا ہے کہ خانے کے اندر مہر لگائی جائے اگر یہ مہر خانے کے باہر لگی ہے تو آپ کے پاس ان کو مسترد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔‘
دوسری جانب حکومتی امیدوار صادق سنجرانی کے پولنگ ایجنٹ سینیٹر محسن عزیز نے پریزائیڈنگ افسر کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے سینیٹ انتخاب کے لیے ہدایات نامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہاں پر چوتھے نقطے پر لکھا ہے کہ بیلیٹ پیپر حاصل کرنے کے بعد رکن پردے کے پیچھے جگہ جا کر اپنی پسند کے امیدوار کے نام کے سامنے، خانے کے اندر مہر لگائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہاں یہ نہیں لکھا گیا کہ نام کے اوپر مہر لگائی جائے، لہذا یہاں جو لکھا گیا ہے وہ اس سے مختلف ہے جو اپوزیشن کہہ رہی ہے۔‘
اس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ’ہدایات نامے میں سینیٹ سیکریٹریٹ کی غلطی کا خمیازہ ووٹر کیوں بھگتے اور یہ عملے کی غلطی ہے اور تکنیکی بنیادوں پر ووٹ مسترد نہیں کیے جا سکتے۔