کیا ریاستی انتخابات میں بے جے پی کی کامیابی انڈیا میں آئندہ برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو گی؟
انڈیا میں ہونے والے حالیہ پانچ اہم ریاستی انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں جس نے مرکز میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو مزید طاقتور پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے اور حزب اختلاف، خاص طور پر کانگریس پارٹی، کے مستقبل پر مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
ان انتخابات میں بی جے پی نے تین ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ تلنگانہ میں کانگریس پہلی بار حکومت بنانے جا رہی ہے۔
بی جے پی جن ریاستوں میں فتح یاب ہوئی ہے وہ انڈیا کے وسطی اور مغربی علاقوں میں واقع ہیں اور انھیں شمالی ریاستوں کے ساتھ ’ہندی بیلٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو کہ انڈین پارلیمان میں سب سے زیادہ نمائندے بھیجتی ہیں۔
حالانکہ یہ انتخابات ریاستی سطح پر ہوئے ہیں لیکن ان کے اثرات چند مہینوں میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر ہو سکتے ہیں۔
ان انتخابات کو 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے سیمی فائنل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، جس کے لیے 28 اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے کے ارادے سے ’انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنس (انڈیا) کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا ہے۔
انڈیا میں بحث جاری ہے کہ یہ نتائج اپوزیشن اتحاد اور اس کے مستقبل کو کس طرح متاثر کریں گے بلکہ ان نتائج کے بعد کانگریس پارٹی کی اتحادی جماعتوں نے اس کے رویے پر سوال اٹھایا اور الزام لگایا ہے کہ کانگریس نے کئی بار یکطرفہ فیصلہ لیا یا اتحادی پارٹیوں کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کیا۔
بی جے پی کی جیت کی وجوہات
بی جے پی آج انڈیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس کے رضاکار پورے ملک میں، خاص طور پر انڈیا کی شمالی اور مغربی علاقوں میں، موجود ہیں، جن کی رسائی ہر طبقے اور ہر محلے تک ہے۔
بی جے پی کئی بار ووٹر لسٹ کے ہر صفحے کے لیے ایک شخص کا تعیّن کرتی ہے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لسٹ مین درج ہر شخص سے رابطہ کرے اور اسے بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے راضی کرے۔
دوسری پارٹیوں کی عوام تک رسائی اتنی وسیع نہیں اور اس کے اثرات ہر انتخاب میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی عام لوگوں کے لیے فلاحی سکیموں کو بھی بہتر طریقے سے اہداف تک پہنچانے میں کامیاب رہی ہے۔
بی جی پی ایک نظریاتی پارٹی ہے جو ہندوتوا یعنی ہندوپرستی پر یقین رکھتی ہے جو کانگریس کی سیکولرازم کے خلاف زیادہ کامیاب ثابت ہوئی۔
حالیہ برسوں میں بی جے پی کی فنڈنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن یہ بھی اہم ہے کہ ان سبھی ریاستوں میں جیت کی وجہ وزیر اعظم نریندر مودی کا بھی کردار ہے جو تقریباً 10 سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود بھی خاص طور پر شمالی اور مغربی ریاستوں میں کافی مقبول ہیں اور مقامی امیدوار کی بجائے اکثر ان کے نام پر ووٹ دیے جاتے ہیں۔
یہ بی جے پی کے لیڈروں کے موقف سے بھی ظاہر ہے۔ ان انتخابات کے نتائج کے بعد ایک بی جے پی رہنما نے میڈیا سے گفتگو کرتے کہا کہ ’آئندہ لوک سبھا (پارلیمان) انتخابات کے لیے ہمارا ریزولیوشن ’ہر بوتھ پر پی ایم مودی‘ ہے۔ ہمارا مقصد ان بوتھوں میں ووٹ شیئر بڑھانا ہوگا جہاں ہمیں کم ووٹ ملے اور جن بوتھوں پر ہم ہار گئے، وہاں جیت حاصل کی جائے۔‘
انڈین میڈیا اور ماہرین ان سبھی وجوہات کو بی جے پی کی جیت کی وجہ بتاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ وہ کانگریس اور حزب اخلاف کی پارٹیوں کی کمزوریوں کو بھی اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
کانگریس کی رہنمائی میں اپوزیشن کہاں کمزور رہ گئی؟
کانگریس کی قیادت میں انڈیا کا اپوزیشن اتحاد پہلے سے ہی کئی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ مثال کے طور پر اس کی اتحادی پارٹیاں کئی ریاستوں میں ایک دوسرے کی سب سے بڑی حریف ہیں اور وہ ایک دوسرے کے خلاف الیکشن بھی لڑتے رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مختلف مسائل اور موضوعات پر ان کی رائے اور موقف بھی مختلف ہیں، جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوتا ہے۔
انتخابی نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی سیما چشتی کہتی ہیں کہ ان انتخابات میں ’انڈیا‘ اتحاد اور کانگریس نے ایک اہم موقع گنوا دیا۔
ان کے خیال میں یہ انتخابات حزب اختلاف کی جماعتوں کو جمع کرنے اور سیاسی تبدیلی کا آغاز کرنے کا ایک قدم ہو سکتا تھا جس سے اپوزیشن کے اتحاد کو تقویت ملتی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کانگریس چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ لے کر حاصل ہونے والے فوائد سے محروم ہو گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’کسی بھی اتحاد کی تشکیل کے ساتھ جو سیاسی شکل تبدیل ہوتی ہے، وہ تبدیل نہیں ہوئی اور وہ کئی جگہوں پر چھوٹی پارٹیوں کو ایک ساتھ لانے کا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے وہی معتدل ہندوتوا کی سیاست کھیلی لیکن نہ تو آپ (بی جے پی کی) ہندوتوا کو چیلنج کر پائے اور نہ ہی آپ خود اس پر کچھ کر پائے۔ پھر کوئی آپ کو کیوں منتخب کرے گا؟‘
جنوبی ریاست تلنگانہ، جہاں کانگریس فتح یاب ہوئی ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف اور سینیئر صحافی نلن ورما کہتے ہیں کہ تلنگانہ میں کانگریس کو فائدہ ہوا کیونکہ وہاں ایک علاقائی تحریک چل رہی تھی یعنی وہاں ایک علاقائی پارٹی اقتدار میں تھی، نہ کہ بی جے پی اور لوگوں کو دو ادوار تک اقتدار میں رہنے والی اس علاقائی پارٹی کے خلاف غصہ تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ‘مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں اگر چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلایا جاتا تو (کانگریس) کو فائدہ ہوتا۔‘
ان نتائج کے بعد کانگریس اور حزب اختلاف کا پارلیمانی چیلنج
نلن ورما کا کہنا ہے کہ ان اسمبلی انتخابات کے نتائج کو ’انڈیا الائنس‘ کی ناکامی نہیں مانا جا سکتا اور نہ ہی اس بنیاد پر فی الحال مستقبل کے بارے میں کوئی تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس اتحاد میں شامل کون سی پارٹیاں ’ہندی بیلٹ‘ یعنی شمال اور مغربی ریاستیں، مثلا مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں انتخابات لڑ رہی ہیں؟ صرف کانگریس لڑ رہی ہے۔ یہ مقابلے صرف کانگریس بمقابلہ بی جے پی تھے۔‘
’سوراج ابھیان‘ نامی پارٹی کے رہنما اور انتخابات سے متعلق معاملات کے ماہر یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ ان نتائج کا زیادہ اثر نہیں ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ’تعداد کے لحاظ سے زیادہ تبدیلی نہیں آئی کیونکہ ان تین ریاستوں میں بی جے پی پہلے بھی جیتتی رہی ہے اور اس بار بھی جیتی ہے لیکن بی جے پی کو شکست دینے کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو گئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ضروری نہیں کہ جو کچھ اسمبلی انتخابات میں ہوا وہی پارلیمانی انتخابات میں بھی ہو گا لیکن جو لوگ اقتدار میں تبدیلی چاہتے ہیں، ان کے لیے ان کا کام مزید مشکل ہو گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بی جے پی کو مرکز میں اقتدار سے ہٹانے کے لیے اسے انڈیا کی شمالی ریاستوں میں شکست دینی ہو گی جس میں گجرات سے بہار تک کی ریاستیں شامل ہیں۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان سے اس وقت کانگریس کے محض تین سے چار پارلیمانی ممبران ہیں۔ یہاں کانگریس کے لیے کچھ سیٹیں جیتنا ضروری ہوگا، لیکن حالیہ نتائج نے یہ امکان مشکل کر دیا ہے‘۔
حزب اختلاف کے اہم مدعے کا کیا بنا؟
انڈیا میں ذات پات پر مبنی امتیاز ایک اہم مسئلہ ہے لیکن انڈیا میں ’نیچی ذات‘ سے تعلق رکھنے والوں کی تعدد کتنی ہے اس کے مکمل سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں کیونکہ 1931 میں آخری بار ’ذات کی بنیاد پر مردم شماری‘ ہوئی تھی۔
سماجی کارکن، سیاسی ماہرین اور ’نچلی ذات‘ کے لوگ اس دعوے کے ساتھ ذات پات کی مردم شماری کا مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ملازمت، تعلیم اور سیاست میں ان کی نمائندگی کم ہے۔
حالانکہ ماہرین کا یہ کہنا ہے بی جے پی اس طرح کی مردم شماری کرانے سے گریز کرنا چاہتی ہے کیونکہ اسے خوف ہے کہ اس طرح کے اقدام سے پارٹی کے ’اونچی ذاتوں‘ کے روایتی ہندو ووٹرز ناراض ہوسکتے ہیں۔
لیکن کانگریس اور حزب اختلاف کی پارٹیوں نے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ذات کی بنیاد پر مردم شماری کروائیں گے۔
نلن ورما کہتے ہیں کہ ’مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں سوشلسٹ یا پسماندہ طبقے کی تحریک کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ اتر پردیش یا بہار میں ہوا۔ بہار اور یو پی میں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہیں۔ ذات پات کی مردم شماری کے معاملے کے لیے ان کے پاس ایک لیڈر ہے‘۔
واضح کر دیں کہ شمالی ریاستیں بہار اور اتر پردیش میں کئی مقامی رہنما دہائیوں سے مذہب پر مبنی سیاست کے مقابلے میں ذات پات پر مبنی سیاست اور مساوات کی بات کرتے رہے ہیں جس کا انھیں واضح طور پر سیاسی فائدہ ہوا ہے لیکن اس طرح کی سیاست یوپی اور بہار کے علاوہ دوسری ریاستوں میں اتنی کامیاب نہیں رہی۔
نلن ورما کہتے ہیں کہ ان ریاستوں میں بی جے پی کو کانگریس کے خلاف ایک کھلا میدان مل گیا بلکہ کانگریس نے تو چند ماہ پہلے ’انڈیا الائنس‘ کی تشکیل کے بعد ہی پسماندہ طبقے کی تحریک کی بات کی تھی۔
سیما چشتی کا بھی خیال ہے کہ اتر پردیش یا بہار کے مقابلے میں راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے معاملے کے بارے میں اتنی بیداری نہیں۔
لیکن حزب اختلاف کے اس وعدے پر بی جے پی کا کہنا تھا کہ ’کانگریس اور اس کی اتحادی پارٹیاں ملک کو بانٹنا چاہتی ہیں‘، جسے مودی نے نتائج کے اعلان کے بعد بھی دہرایا۔
’دی ہندو‘ نامی اخبار نے انتخابی نتائج کا خلاصہ یوں کیا ’یہ نتائج بی جے پی اور مودی کو صحیح رفتار اور اعتماد دیتے ہیں۔ کانگریس اور گاندھی کو زیادہ نظریاتی وضاحت کے ساتھ اپنا طویل سفر دوبارہ شروع کرنے سے پہلے ڈرائنگ بورڈ پر واپس جانا چاہیے۔