کووڈ ویکسین کی تیسری خوراک اومیکرون کو روکنے میں

کووڈ ویکسین کی تیسری خوراک اومیکرون کو روکنے میں

کووڈ ویکسین کی تیسری خوراک اومیکرون کو روکنے میں ’88 فیصد موثر‘، برطانیہ میں دوسری اینٹی وائرل دوا کی منظوری

برطانیہ کی ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی کی نئی معلومات کے مطابق ویکسین کی اضافی خوراک (یعنی بوسٹر شاٹ) کووڈ 19 کی وجہ سے لوگوں کے ہسپتال داخلے کو 88 فیصد تک روکنے میں مؤثر ثابت ہوئی ہے۔

یو کے ایچ ایس اے کے نئی ڈیٹا نے تصدیق کی ہے کہ ایسٹرا زینیکا، فائزر اور ماڈرنا ویکسینز کی دو خوراکیں کووڈ 19 کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف بہت کم تحفظ فراہم کرتی ہیں مگر ان کی مدد سے وائرس کی نئی قسم سے شدید بیماری کو ٹالا جا سکتا ہے۔

اسی لیے صحت کے حکام نے کہا ہے کہ اس تحقیق سے اب تیسری خوراک حاصل کرنے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

برطانیہ کے وزیر صحت ساجد جاوید نے کہا ہے کہ ’ویکسین کی اہمیت کے بارے میں یہ معلومات اچھی ہے۔ ان کی مدد سے ہم زندگیاں بچا سکتے ہیں اور شدید بیماری کو روکا جا سکتا ہے۔‘

’اس کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ کووڈ 19 کی ویکسین حاصل نہیں کرتے تو آپ کے ہسپتال داخلے کے امکانات آٹھ گنا زیادہ ہوتے ہیں۔‘

برطانوی ادارے نے 29 دسمبر تک انگلینڈ میں اومیکرون کے چھ لاکھ سے زیادہ مصدقہ اور مشتبہ متاثرین کا جائزہ لیا۔

اس سے معلوم ہوا ہے کہ ویکسین کی ایک خوراک کی صورت میں ہسپتال میں علاج کا خطرہ 52 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔ دوسری خوراک سے یہ شرح 72 فیصد تاہم 25 ہفتوں کے بعد یہ حفاظت گِر کر 52 فیصد پر آ جاتی ہے۔

تیسری خوراک کے دو ہفتوں بعد ہسپتال داخلے کے خلاف تحفظ 88 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

کووڈ، برطانیہ، اینٹی وائرل

برطانوی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس بارے میں ناکافی ڈیٹا ہے کہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ تحفظ کب تک رہتا ہے لیکن توقع ہے کہ اس سے وائرس کی علامات کے خلاف تحفظ کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔

جن لوگوں میں پہلے سے علامات موجود ہوں، ان میں ہر خوراک کے بعد تحفظ کچھ حد تک کم ہوتا ہے اور غیر ویکسین شدہ افراد کے مقابلے بوسٹر شاٹ کے بعد یہ شرح 68 فیصد تک کم ہوتی ہے۔

’حوصلہ افزا اشارے‘

کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی ایک دوسری تحقیق میں پتا چلا ہے کہ وائرس کی قسم ڈیلٹا کے مقابلے اومیکرون کی صورت میں ایمرجنسی یا ہسپتال کے وارڈ میں داخلے کا امکان نصف ہوتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا ہے کہ ڈیلٹا کے مقابلے صرف اومیکرون کی صورت میں ہسپتال داخلے کا خطرہ ایک تہائی ہے۔

یو کے ایچ ایس اے میں چیف میڈیکل ایڈوائزر سوزین ہاپکنز کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا ان حوصلہ افزا اشاروں کی تائید کرتا ہے جو ہم نے دیکھے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابھی کسی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہو گا کہ ڈیلٹا کے مقابلے اومیکرون کی وجہ سے لوگ کس حد تک بیمار ہونے کے بعد ہسپتال لائے جاتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’اومکیرون کے پھیلنے کی شرح زیادہ ہے اور انگلینڈ میں 60 سال کی عمر کے متاثرین بڑھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آنے والے ہفتوں میں این ایچ ایس پر دباؤ بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسین کے لیے آنا، خاص کر تیسری خوراک کے لیے، اس انفیکشن اور شدید بیماری سے خود کو اور دوسروں کو بچانے کا بہترین طریقہ ہے۔‘

کووڈ، برطانیہ، بوسٹر شاٹ

برطانیہ میں دوسری اینٹی وائرل دوا کی منظوری

ادویات کے برطانوی نگراں ادارے نے کووڈ کی علامات کے علاج کے لیے ایک نئی اینٹی وائرل دوا کی منظوری دی ہے۔

پلیکسووڈ کو اس وقت استعمال کیا جاسکتا ہے جب لوگوں میں شدید بیماری کے خطرے کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

طبی آزمائش میں یہ معلوم ہوا ہے کہ اس سے بالغ افراد میں 89 فیصد افراد کو ہسپتال منتقل نہیں کرنا پڑا یا ان کی موت نہیں ہوئی۔

برطانیہ نے اس دوا کی قریب 27 لاکھ خوراکیں منگوائی ہیں۔ یہ امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے بنائی ہے اور اس کی بنیاد ایچ آئی وی کی موجودہ ادویات ہیں۔

پلیکسووڈ سے پہلے برطانیہ میں ایک اور دوا ملنوپیراور کی منظوری دی گئی تھی جو کووڈ سے بچاؤ کے لیے تیار کی گئی ہے۔

ساجد جاوید نے کہا ہے کہ نئی اینٹی وائرل ادویات سے سنہ 2022 میں اومیکرون کے خطرے سے نمٹنے کے لیے برطانیہ اچھی حالت میں ہو گا۔

پلیکسووڈ دوا اس انزائم کو روکتی ہے جو وائرس کو پھیلنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ اگر اسے کم شدت والی اینٹی وائرل دوا ریٹونور کے ساتھ لیا جائے تو یہ جسم میں زیادہ دیر رہتی ہے۔

اسے برطانیہ میں 18 سال سے زیادہ عمر کے مریضوں کے لیے منظور کیا گیا ہے جنھیں کم شدت کا کووڈ انفیکشن ہوا ہو لیکن ان کی بیماری کے شدت اختیار کرنے کے خطرات موجود ہوں۔

’وبا کا 2022 میں خاتمہ ممکن ہے‘

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادہانوم نے نئے سال کے آغاز پر اس امید کا اظہار کیا ہے کہ کورونا کی وبا کو 2022 میں شکست دی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے دنیا کے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ انھوں نے ویکیسن کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف خبردار بھی کیا ہے۔

یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کورونا کی نئی قسم اومیکرون دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور کئی ممالک نے نئے سال کی پر ہجوم تقریبات کی ممانعت کی ہے۔

اپنے بیان میں عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم عدم مساوات ختم کر دیں تو وبا کا خاتمہ ممکن ہے۔‘

ڈاکٹر ٹیڈروس کے مطابق قومی تنگ ذہنی اور ویکیسن کی ذخریہ اندوزی ہی اومیکرون کے پھیلاو کا باعث ہیں اور ’جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا وائرس اپنی شکل اور ساخت بدلتا رہے گا۔‘

واضح رہے کہ یورپ اور امریکہ جیسے متمول عالمی دنیا کے حصوں میں اوسطاً ہر شخص کو ایک بار ویکیسن لگ چکی ہے لیکن افریقہ میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 2021 کے خاتمے تک چالیس فیصد آبادی کا ہدف بھی پورا نہیں کیا جا سکا۔

ڈاکٹر ٹیڈروس نے اس سے پہلے بھی امیر ممالک کو عالمی ویکیسن سپلائی کا بڑا حصہ خود ہی استعمال کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 2022 کے لیے ایک نیا ہدف طے کیا گیا ہے جس کے تحت جولائی تک دنیا کے ہر ملک کی ستر فیصد آبادی کو ویکسین لگ جانی چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *