کولمبیا کی ویب سائٹ جہاں ’خونی ماضی‘ والے محل فروخت ہوتے ہیں
کسی بھی ویب سائٹ پر جائیداد کی فروخت کے اشتہارات ایسے نمودار ہوتے ہیں جیسے یہ کوئی پراپرٹی کی ویب سائٹ ہو۔
اسی سلسلے میں مجھے معلوم ہوا کہ کولمبیا کے کریبیئن ساحل پر تین خواب گاہوں، دو غسل خانوں اور فیروزی رنگ کے سوئمنگ پول والا اپارٹمنٹ کرائے کے لیے خالی ہے۔
پاناما کی سرحد کے قریب جنگل کے سائے میں چار کمروں، چار غسل خانوں اور لکڑی کے فرش والا مکان۔ یہ وسیع و عریض آرٹ ڈیکو مینشن کولمبیا کے دوسرے بڑے شہر میڈیلن میں واقع ہے۔
مگر ایک مسئلہ ہے: یہ جگہیں دائیں بازو کی نیم فوجی ملیشیا اور بائیں بازو کی ریولوشنری آرمڈ فورسز آف کولمبیا یا ایف اے آر سی (فارک) کے جنگجوؤں کی ملکیت رہی ہیں جو کولمبیا کی کئی دہائیوں پر محیط لڑائی میں ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے
کولمبیا کی حکومت نے فروری میں ایک آن لائن ریئل اسٹیٹ ایجنسی قائم کی جس کا مقصد ایسے 1600 مکانوں یا دوسری جائیدادوں کو فروخت کرنا تھا جو حکومت کے قبضے میں آ چکے تھے یا مسلح گروہوں نے صلح کے بعد انھیں حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔
خیال ہے کہ اس املاک کی فروخت سے 140.3 ملین ڈالر حاصل ہوں گے جنھیں جنگ کے دوران متاثر ہونے والے ستّر لاکھ افراد کی بحالی پر خرچ کیا جائے گا۔
کولمبیا میں متاثرین کے لیے کام کرنے والے یونٹ کے مِگویل اوینڈانو کا کہنا ہے کہ ان میں سے بعض مکانات کی فروخت یا انھیں کرائے پر چڑھانا انتہائی مشکل ہے۔
2018 میں ان کی فروخت کے آغاز سے اب تک صرف 12 مکانات ہی فروخت ہوئے ہیں۔
مِگویل کہتے ہیں کہ قوم کے زخم آہستہ آہستہ مندمل ہو رہے ہیں اور ایسے اس اسٹیٹ ایجنسی کی کوشش ہے کہ ان جائیدادوں کی فروخت میں شفافیت پیدا کی جائے تاکہ ان کے ’خونی ماضی‘ سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جا سکے۔
ان میں سے کئی مکانات دیہی علاقوں میں واقع ہیں جہاں فارک جنگجوؤں اور حکومت کے درمیان امن معاہدہ ہونے کے باوجود لڑائی جاری ہے۔
کئی جائیدادیں محفوظ علاقوں میں بھی واقع ہیں مگر ان کا پُرتشدد ماضی ان کے آڑے آتا ہے، جیسا کہ میڈیلِن میں مونٹیکیسِنو مینشن۔
سنگ مرمر سے مزین یہ محل نما حویلی گنجان آباد پہاڑی شہر میں واقع ہے اور ماہانہ 4,700 ڈالر کرایے پر دستیاب ہے۔ اس میں 12 کمرے اور 13 غسل خانے اور وہ سب کچھ ہے جس کا آپ کسی محل میں تصور کر سکتے ہیں۔
اس حویلی کا سابق مالک نیم فوجی ملیشیا گروپ یونائیٹڈ سیلف ڈیفنس فورسز آف کولمبیا کے بانیوں میں سے ایک تھا۔ جس مقام پر یہ تعمیر کیا گیا وہاں کبھی خون آشام سانحے نے جنم لیا تھا۔
ملیشیا کے قائدین یہاں قتل عام اور حملوں کے منصوبے بنایا کرتے تھے، لوگوں کو ایذائیں دی جاتی تھیں اور خطرناک جنگجو یہاں تربیت پاتے تھے۔
میگوِل کہتے ہیں کہ ’اس محل جیسا دوسرا نہیں ہے۔ یہ تین ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے اور میڈیلِن کے سب سے اچھے علاقے میں واقع ہے۔ پھر بھی اس کی فروخت ناممکن ہے۔‘
سول انجینیئر سرگئی اورٹِز اس کے خونریز ماضی کو بھلا کر اس کے شاندار مستقبل کے امکانات کو دیکھتے ہیں۔
باون سالہ سرگئی، جن کا اپنا خاندان اس جنگ میں متاثر ہوا، کہتے ہیں کہ وہ اس جگہ کو کرائے پر لے کر اس کے احاطے میں ورزش کی جگہ اور پارک بنائیں گے جو عام لوگوں کے لیے کھلا ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کی بولی منظور ہوگئی تو وہ یہاں جنگ سے متاثر ہونے والے افراد کو ملازمت پر رکھیں گے اور ماضی کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔ ’یوں جگہ اور امن فراہم کر کے ہم اپنی قوم کی خدمت کریں گے۔‘
کرائسِس گروپ اِن کولمبیا سے وابستہ تجزیہ کار ایلزبتھ ڈِکنسن کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں میں ایسی جائیدادوں کی فروخت میں کوئی مسئلہ نہیں مگر ان علاقوں میں جہاں حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں ایسی جگہوں کی فروخت ’موت کو دعوت‘ دینے کے مترادف ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ: ’سب جانتے ہیں کہ ان کا تعلق کس سے رہا ہے اور یقیناً ان علاقوں میں اس وابستگی کے جذبات اب بھی موجود ہیں۔‘
ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ کرایہ داروں کو مکان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور ممکنہ خریداروں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔
مِگویل کو امید ہے کہ وقت گزرنے اور سابق جنگجوؤں کی جائیدادیں عام لوگوں کے ہاتھ میں جانے کے ساتھ یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔
اپنے قیام کے دو ماہ کے اندر اسٹیٹ ایجنسی دس جائیدادوں کی فروخت میں کامیاب رہی ہے۔
سرگئی بھی موٹیکیسینو مینشن کی کھڑکی سے باہر محل کے احاطے پر نظر ڈالتے ہوئے ایسی ہی توقعات رکھتے ہیں۔
وہ درختوں اور جھاڑیوں سے بھری ہوئی ایک پٹی کی جانب اشارہ کرکے کہتے ہیں: ’یہاں ہم باغ بنائیں گے۔ ہم یہاں پھول اگائیں گے، کیوںکہ پھول زندگی کی علامت ہیں۔