چلی اور پاکستان کیا پاکستان میں بھی چلی کی طرح بائیں بازو کا کوئی نوجوان رہنما اقتدار سنبھال سکتا ہے؟
لاطینی امریکہ کے مغربی ساحل کے ملک چلی کے عوام نے حال ہی میں 35 برس کے بائیں بازو کے نظریات کے حامل نوجوان کو بھاری اکثریت سے اپنے ملک کا صدر منتخب کیا ہے۔ اگرچہ دنیا ان کے انتخاب پر حیران ہو رہی ہے لیکن چلی میں یہ تبدیلیاں اچانک رونما نہیں ہوئیں بلکہ ان کے پیچھے ایک تسلسل ہے۔
چلی میں 19 دسمبر کو مکمل ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بائیں بازو کے سابق طلبا رہنما اور چلی کی کانگریس میں دو مرتبہ منتخب ہونے والے گیبریئل بورِک کو دائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کے امیدوار کے مقابلے میں دس لاکھ زیادہ ووٹ ملے۔ وہ اب مارچ میں اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
چلی سمیت لاطینی امریکہ کی بائیں بازو کی تحریکیں اس وقت دنیا بھر میں بائیں بازو کی تحریکوں کے لیے حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ حال ہی میں ترکی کی اپوزیشن نے چلی میں بورِک کی حکمت عملی کو اپنے لیے ایک مثال قرار دیا ہے۔ پاکستان کے بائیں بازو کے نوجوانوں میں بھی ایسے ہی بحث و مباحثے ہو رہے ہیں۔ اب پاکستان میں بھی اس موضوع پر بات ہو رہی ہے اور پیر کی رات کو ایک مذاکرہ طے کیا گیا ہے۔ تو پھر ان حالات میں پاکستان میں بائیں بازو کی طلبا تحریکوں کا مستقبل کیا ہے؟
بائیں بازو کے دانشوروں کی آراء
اس گفتگو کے بعد ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا چلی میں ہونے والے واقعات دیگر ممالک کے طلبا یا نوجوانوں کے لیے ایک مثال بن سکتے ہیں، کیا یہ عالمی رجحان بن سکتا ہے، کیا پاکستان میں گیبریئل بورِک جیسا رہنما ابھر سکتا ہے، اگر نہیں، تو کیا وجہ ہے، کیا پاکستان کا مذہبی رجحان ایک رکاوٹ ہے، اور کیا امکانات ہیں؟
اسی کو جاننے کے لیے ہم نے آج کے دور کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے چند معروف اور سرگرم کارکنوں اور سابق طلبا رہنماؤں سے بات کی کہ آیا وہ چلی کی تبدیلی سے کوئی سبق لیتے ہیں یا یہ دو الگ الگ ممالک ہیں اور یہ کہ ان دونوں ممالک میں حالات ایک جیسے نہیں ہیں، اس لیے یہ بحث بے کار ہے۔
یا بات یہ کی جائے گی کہ پاکستان میں فوجی حکومت کے ہوتے ہوئے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ‘اگر پولیس مارے گی تو انقلاب کیسے آئے گا’، جیسے کہ انقلاب یا تبدیلی بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کسی ‘نقرئی طشتری’ (سِلور پلیٹر) میں رکھ کر پیش کرے گی تو کوئی کامیابی ہو گی۔
نیو لبرل ازم کی تعریف:
نیو لبرل ازم ایک پالیسی ماڈل ہے جس میں سیاست اور معاشیات دونوں شامل ہیں جس کے مطابق بنیادی طور معاشی عوامل کا کنٹرول سرکار سے نجی شعبے کو منتقل کر دیا جاتا ہے۔ نیو لبرل ازم کی بہت سی پالیسیاں آزاد منڈی کے سرمایہ داری کے نظام کو مضبوط کرتی ہیں اور اسے بڑھاتی ہیں اور حکومتی اخراجات، حکومتی ضابطے اور عوامی ملکیت پر حدیں لگانے کی کوشش کرتی ہیں۔نیو لبرلزم کے حامی اسے اقتصادی شرح نمو یعنی ترقی کے لیے اہم اور ضروری سمجھتے ہیں، جبکہ مخالفین ان پالیسیوں کو معاشرے میں عدم مساوات گہری کرنے، یعنی امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ جلال: لیفٹ یا بائیں بازو کا مستقبل
معروف مورخ ڈاکٹر عائشہ جلال نے اس برس کے آغاز میں اس سوال پر کہ کیا وہ لیفٹ کا کوئی مستقبل دیکھ رہی ہیں کہا تھا کہ ‘اگر آپ ایک مورخ سے بات کریں گے تو میں یہ کہوں گی کہ کبھی حالات ایک جیسے نہیں رہتے ہیں، اس وقت ہم نیو لبرل ازم کی انتہائی پستی تک جا پہنچے ہیں۔’
ڈاکٹر عائشہ جلال کہتی ہیں ‘اس وقت وباء اور اس سے بد تر حالات کی وجہ سے ہم ایک اخلاقی بحران کا شکار ہیں جس کا پوری دنیا کو سامنا ہے۔ اور میں سمجھتی ہوں کے بہتری کا بھی امکان ہے اور مجھے اُمید ہے کہ لیفٹ (بائیں بازو) کی ایک واپسی ہو گی، تاہم ان کو بھی اپنی سوچ بدلنا ہو گی، زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے، لیکن ہر حال میں نیو لبرل ازم سے آگے بڑھنا پڑے گا۔’
ڈاکٹر عائشہ نے مزید کہا تھا کہ ‘میرے خیال میں اس وقت دنیا کو جس اخلاقی بحران کا سامنا ہے اُسی میں لیفٹ کے لیے آگے بڑھنے اور اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کا ایک موقع بھی ہے، لیکن ذرا مختلف انداز میں، لکیر کا فقیر نہیں رہنا ہو گا بلکہ ان کو ایک نئے انداز میں کام کرنا ہو گا۔’
‘لیکن اب یقیناً لیفٹ کے لیے بہت زیادہ گنجائش ہے۔ امریکہ کو دیکھ لیجیے انھوں نے سنہ 1950 کی دہائی میں تمام سوشلسٹوں کو کمیونمسٹ بنا دیا تھا، سوشلزم کو کیمیونزم سے جوڑ دیا اور پھر انھیں سختی سے کچل دیا تھا۔ لیکن برنی سینڈرز اور ایلزبیتھ وارن جیسے لوگ اس اخلاقی بحران کی وجہ سے اس قابل ہوئے ہیں کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کو زور لگا کر بائیں بازو کی جانب لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔’
ڈاکٹر عائشہ جلال کہتی ہیں کہ ‘آپ برطانیہ میں دیکھیں، جیریمی کوربن کیسے آیا۔ میرے خیال میں حالات بدل رہے ہیں لیکن اس کےساتھ ساتھ لیفٹ کو آج کے حالات کے تقاضوں کے مطابق سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ وہ سنہ پچاس یا سنہ ساٹھ کی دہائی کی جانب لوٹیں’۔
ڈاکٹر فاروق سلہیریا، بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے وابستہ بائیں بازو کے دانشور
بائیں بازو کے نظریات سے وابستہ اور بیکن نیشنل یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر فاروق سلہیریا کہتے ہیں کہ لاطینی امریکہ میں تبدیلی کا عمل صرف چلی تک محدود نہیں ہے۔ لاطینی امریکہ میں گزشتہ بیس پچیس سال میں کئی ترقی پسند تحریکیں ابھریں جن کے نتیجے میں بورک جیسے رہنما سامنے آئے۔
‘نیو لبرل ازم کے خلاف 90 کی دہائی میں سب سے بڑی تحریک میکسیکو میں زپاتستا کی شکل میں اٹھی پھر وینزویلا، بولیویا، برازیل، ایکواڈور، ہینڈوراس، یوراگوئے اور دیگر ممالک میں یہ سب نظر آیا۔ اس سال ہی پیرو میں ایک نوجوان سوشلسٹ سکول ٹیچر صدرمنتخب ہوا۔’
ڈاکٹر سلہیریا کہتے ہیں ’لیکن ہمارے خطے میں حالات الٹ ہیں۔ سوائے نیپال کے، سب جگہ مذہبی جنونیت پھیل چکی ہے۔ ہندوستان، سری لنکا، پاکستان، افعانستان، بنگلہ دیش، ایران ان تمام جگہوں پر بائیں بازو کی بجائے مذہبی طاقتوں نے زور پکڑا۔ ہمارے ہاں ترقی پسند تحریک ضیا آمریت کے بعد سنبھل نہیں سکی۔’
ڈاکٹر فاروق سلہیریا کہتے ہیں کہ ‘ہمارے ہاں بھی نوجوان قیادت ابھری ہے۔ منظور پشتین، محسن داوڑ ،عمار علی جان، علی وزیر، جلیلہ حیدر، عالیہ حیدر جیسے چند اہم نام لیے جا سکتے ہیں۔ مگر وہ ابھی قومی سطح پر لوگوں کو متحرک نہیں کر سکے ہیں۔’
پاکستان میں نوجوان قیادت ابھری ہے، ان کے درمیان تعاون بھی ہے لیکن بغیر کسی بڑی عوامی تحریک کے، یہاں کوئی بورک جیسا رہنما نہیں ابھرے گا۔ تحریک کب ابھرے گی، کبھی بھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ ابھی تک لوگ بڑی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے ہی متحرک ہوئے ہیں۔’
‘مریم نواز اس کی ایک مثال ہیں۔ (ہم نے) دھوکہ بھی کھایا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی خود رو تحریک جنم نہیں لے رہی۔ لازمی بھی نہیں کہ خود رو تحریک نوجوان قیادت کو ہی جنم دے۔ یہ امکانی بات ہے۔ بہرحال، اندرونی حالات امکانات بہت روشن نہیں کیونکہ سول سوسائٹی میں وہ عناصر موجود نہیں جو بورِک جیسی قیادت یا خودرو عوامی تحریک کو جنم دیں۔’
ڈاکٹر فاروق سلہیریا کہتے ہیں کہ ‘زیادہ خدشہ اس بات کا ہے کہ اگلی ممکنہ عوامی تحریک کی قیادت مذہبی جنونی قوتیں کریں گی۔’
جبکہ ‘چلی میں 30 سال سے جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے۔ پاکستان میں یہ کسی نہ کسی صورت میں معطل ہوتا رہا ہے۔ وہاں طلبہ یونین پر پابندی نہیں۔ بورک طلبہ سیاست و تحریک کی پیداوار ہے۔ وہاں عورت تحریک طاقتور ہے۔ ٹریڈ یونین ہماری بہ نسبت بہت مضبوط ہے۔ گویا سول سوسائٹی ہم سے زیادہ توانا ہے۔’
ڈاکٹر سلہیریا کے مطابق چلی وہ ملک ہے جہاں پہلی بار ڈاکٹر الاندے کی قیادت میں کیمونسٹ پارٹی کسی پُرتشدد انقلاب کی بجائے، انتخابات لڑ کر اقتدار میں آئی تھی (یہ تاریخ کا ایک منفرد تجربہ تھا جو ناکام ہوا تھا)، تاریخی اور انقلابی روایات کی طرح چلی کی تاریخ بھی ہم سے بالکل مختلف ہے۔
جلیلہ حیدر، لفٹسٹ دانشور اور انسانی حقوق کی علمبردار
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی بائیں بازو کی معروف ایکٹیویسٹ جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ گیبریئل بورک کی چلی میں کامیابی بائیں بازو کے سیاست کی از سر نو ابھرنے کے جانب ایک مزید پیش قدمی ہے جسے اس وقت پورے خطے (لاطینی امریکہ) میں دیکھا جا سکتا ہے۔
جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ ایک زمانے میں یہ تصور بھی محال تھا کہ امریکہ جیسے ملک میں کوئی بائیں بازو کے نظریات کا حامل شخص کھبی صدارتی انتخابات میں اپنا حصہ لے سکے گا اور یہ جب یہ کہا جاتا تھا کہ سوشلزم روس کے ساتھ ہی ختم ہوچکا ہے اُس وقت بہت کم لوگ یقین کرتے تھے کہ بائیں بازو از سر نو ابھر کر سامنے آ سکتا ہے۔’
‘تاہم ہم نے برنی سینڈرز کو دیکھا اور پھر جہاں جیریمی کوربن کی متحرک سیاست نے برطانیہ میں لیبر پارٹی کو متاثر کیا وہیں پر عالمی سطح پر بھی اس نظریے کو یکسر رد کر دیا کہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے افراد کی اب غیر متعلق یا اِریلیوینٹ ہو چکے ہیں۔’
‘گیبریل بورِک کی حالیہ جیت بھی ان کے سیاسی میدان میں فعال ہونے کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے چلی جو نیو لبرل ازم کی آماجگاہ سمجھا جاتا تھا آج بائیں بازو کے لوگ وہاں پر بھی ابھر کر آ گئے۔ یہ پوری دنیا کے بائیں بازو کی سیاست سے جڑے لوگوں کے لیے ایک امید بھی ہے اور پیغام بھی کہ سوشلزم کی سیاست پر اب بھی لوگ یقین رکھتے ہیں۔’
اس سوال پر کہ آیا پاکستان میں گیبریئل بورِک پیدا ہو سکتا ہے، جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ پاکستان میں گیبریل جیسی قیادت موجود ہے اور ایسی بات نہیں کہ زمین یکسر بنجر یے۔البتہ پاکستان میں بائیں بازو کے لیڈروں کو دیہاتوں، قصبوں گاؤں اور محنت کشوں سے رابطوں کو مزید گہرا اور تیز کرنا پڑے گا۔
پاکستان کے بوسیدہ نیم جاگیرداری جمہوریت پسند بھی سرمایہ دار طبقوں کے گماشتوں کے طور پر کام کرتے رہے ہیں جس نے عوام کو آپس میں کبھی جڑنے نہیں دیا اس لیے بائیں بازو کے دانشوروں اور لیڈروں کو بھی وہ سپیس نہیں مل سکی جس کی بدولت وہ کھل کر کام کر سکتے اور عوام سے رابطے بڑھاتے۔
سنہ 80 کے دہائی سے اب تک آزادی اظہار رائے پر پابندی، افغان جہاد کے پٹرو ڈالر فنڈز کے نتجہ میں کمیونزم کے خلاف منفی پروپگنڈا وہ گراونڈ رییلیٹی ہے جس کی وجہ سے بائیں بازو کے ادیبوں، دانشوروں اور لیڈروں کو اپنی جگہ بنانے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں نوجوانوں کے کثیر گروہ نے عمران خان کو اس لیے سپورٹ کیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی کا نعرہ بھی نوجوان قیادت تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے بھی ماضی کے اسی بوسیدہ نظام اور لوگوں کا سہارا لے کر اپنے پہلے ہی دورِ اقتدار میں کم از کم نچلی اور عوامی سطح پر اپنی مقبولیت کھو دی۔’
‘البتہ یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ نوجوان نسل قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے تیار ہے۔ لیکن ان کے لیے حقیقی سیاسی پلیٹ فارم کم از کم مجھے بائیں بازو کے سیاست میں ہی نظر آتا ہے جو ان کی سیاسی تربیت اور یونین سازی کے ذریعے گیبریل جیسے لیڈروں کو جنم دے سکتے ہیں۔’
نوجوانوں میں سے سیاسی قیادت کے نہ ابھرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ مطالبہ کرتی ہیں کہ طلبا یونینز سے پابندی ختم کی جائے۔ جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ ‘چونکہ اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی ہے، نوجوانوں کی سیاسی تربیت تعلیمی اداروں میں نہیں ہوتی اس لیے سیاست پر اشرافیہ طبقے کے چند خاندانوں کی اجارہ داری رہی ہے۔
بشریٰ مہ نور، سوشلسٹ فیمینسٹ
لاہور سے تعلق رکھنے والی سابق طالب علم رہنما، بشریٰ مہ نور کہتی ہیں کہ گیبریئل دنیا بھر کی طلبا برادری کے لیے ایک متاثر کن مثال ہیں۔ ‘یہ تاریخ کا ایک بہت اہم وقت ہے جس میں لیفٹ اپنے آپ کو متحرک کرے۔ ہمیں نظر آ رہا ہے کہ یہ دنیا بھر میں لیفٹ کی نشاۃ ثانیہ کا دور ہے۔’
گیبریئل بورک کی کیوبا پر تنقید کو بشریٰ مہ نور ایک مثبت فکری ارتقا قرار دیتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ جیریمی کوربن اور برنی سینڈرز دونوں کو نوجوانوں کی حمایت حاصل تھی مگر بورِک میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ بورک خود بھی نوجوان ہے اور وہ اپنے آپ میں خود تبدیلی اور نوجوانوں کی ابھرتی ہوئی آواز کی علامت کے ساتھ ساتھ ایک مثال بھی ہے۔
ماضی کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بشریٰ مہ نور کہتی ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر تو ابتدا ہی سے پابندی عائد کر دی گئی تھی، لیکن بائیں بازو کی دیگر سرگرمیوں پر بھی سختیاں بڑھتی گئیں۔ ‘پاکستان میں کئی برس تک ڈکٹیٹرشپ کا ہونا اور جمہوریت کے نہ ہونے نے بھی بائیں بازو کے رجحان کو کچلا۔’
‘جس ملک میں طلبا پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جائیں، بائیں بازو کے رہنماؤں کو گھروں سے اٹھا لیا جائے، لوگوں کو لاپتہ کیا جائے، کئی ایک کو صرف آواز یا سوال اٹھانے پر قتل بھی کر دیا جاتا ہو، تو وہاں لیفٹ کو قصور وار ٹھہرانا کہ اس کی نمو کیوں نہ ہو سکی، غلط بات ہو گی۔
بشریٰ مہ نور کہتی ہیں کہ لیفٹ کو قابو کرنے کے لیے بار بار مذہب کا کارڈ استعمال کیا گیا۔ لیفٹ کے کئی رہنماؤں پر غیر مسلم ہونے کے فتوے لگا کر ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ پر امن خواتین مارچ پر توہینِ مذہب کے الزامات عائد کیے گئے اور بائیں بازو کے لوگوں پر بہت سختیاں کی گئیں۔
‘مگر ہم کئی برس سے دیکھ رہے ہیں کہ طلبا یکجہتی مارچ اور عورت مارچ کی شکل میں لیفٹ عام لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ ہم لیفٹ کی ترقی کے بارے میں بہت پر امید ہیں۔’
بشریٰ مہ نور کہتی ہیں کہ اگر طلبا یونین پر پابندیاں ہٹا لی جائیں تو یہ پاکستان میں سیاست کو بدل کر رکھ دے گی۔ ‘کیونکہ اس سے طلبا اور سیاست کو ایک نیا پلیٹ فارم ملے گا جس سے نئے دروازے کھلیں گے۔ اگر ہم موروثی سیاست یا ایک خاص طبقے کی سیاست سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو نوجوانوں کو موقع دیا جائے۔’
بشریٰ مہ نور کہتی ہیں کہ ملک کی 64 فیصد آبادی کے فیصلے کرنے کے لیے پارلیمان میں ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو نوجوانوں کے مسائل سے آگاہ ہیں اور نہ ہی وہ انھیں سمجھ سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنے والوں کے درمیان ایک نسل کی خلیج ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پارلیمان میں 50 فیصد سے 60 فیصد تک نوجوانوں کو نمائندگی ملے۔’
ڈاکٹر عمار علی جان، ‘حقوقِ خلق موومنٹ’ کے مرکزی رہنما
ڈاکٹر عمار علی جان کہتے ہیں کہ سرمایہ داری کا بحران دنیا بھر میں خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے جس کی وجہ سے عوام میں غصہ بڑھ رہا ہے اور وہ اس بحران زدہ نظام کا متبادل ڈھونڈ رہے ہیں۔ ‘بائیں بازوں کے نظریات نے ہمشیہ سرمایہ دارانہ نظام پر ایک مفصل تنقید پیش کی ہے جس کی وجہ سے ایک بار پھر ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘چلی میں سوشلزم شروع ہی سے جمہوریت کے ساتھ جڑا رہا ہے۔ ال سالواڈور الاندے نے 1970 میں سوشلزم کے نام پر چلی میں الیکشن جیت کر اقتدار حاصل کیا لیکن ان کی حکومت کو 1973 میں سی آئی اے کی مدد سے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے ہٹا دیا گیا۔ ہر ملک کے بائیں بازوں کی اپنی روایت ہے اور اس میں سے کوئی مجموعی رجحان اخذ کرنا ممکن نہیں۔’
ڈاکٹر عمار علی جان کہتے ہیں کہ ‘لاطینی امریکہ کی ان تحریکوں میں مماثلت یہ ہے کہ انھوں نے بائیں بازو کے روایتی نعروں اور اصلاحات سے ہٹ کر عام زبان میں عوام کے مسائل کی ترجمانی کی جس کی وجہ سے انہیں ان حلقوں میں بھی پذیرائی ملی جو عمومی طور پر لیفٹ کے نظریات کے مخالف تھے۔’
‘دونوں میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ کوربن اور سینڈرز نے روائتی پارٹیوں کے اندر رہتے ہوئے اپنی مہم چلائی جبکہ گیبریئل بورک نے سماجی تحریکوں اور لیفٹ کی پارٹیوں کو جوڑ کر ایک متبادل پلیٹ فارم تشکیل دیا۔ شاید اسی وجہ سے سینڈرز اور کوربن کو ان کی پارٹیاں بلیک میل کرنے میں کامیاب رہیں جبکہ بورک کو اپنی پارٹی کی مکمل حمایت حاصل رہی جس کی بدولت وہ الیکشن جیت گیا۔’
عمار علی جان کہتے ہیں کہ پاکستان میں بائیں بازوں پچھلے 40 سال سے کمزور ہے اور عمومی طور پر مین سٹریم پارٹیوں میں اپنی جگہ ڈھونڈتا ہے۔ لیکن چلی میں بھی کچھ سال پہلے تک حالات ہم سے بہتر (یا مختلف) نہیں تھے۔
‘سنہ 2011 میں چلنے والی طلبا تحریک نے وہاں پر بائیں بازوں کو مضبوط کیا اور پھر سنہ 2019 میں ایک عوامل بغاوت نے لیفٹ کو مزید مقبولیت دی۔ بورک اس عوامی جدوجہد میں سے نکلے ہیں۔ پاکستان میں ہم نے پچھلے کچھ عرصے میں طلبا، عورتوں، مظلوم قوموں اور ورکروں کی تحریکوں کو مزید فعال کیا ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ امید ہے کہ ان چھوٹی بغاوتوں میں سے ایک دن کوئی ایک بڑا متبادل نکلے گا کیونکہ لوگ مین سٹریم سیاسی سے مایوس ہو چکے ہیں۔
بائیں بازوں کے ساتھیوں کی آمریت کے خلاف بے مثال قربانیاں ہیں۔ لیکن دو بڑی غلطیوں کے باعث وہ عوام سے دور ہیں۔ ایک تو انھوں نے اپنے تجزیے کو آج کے تقاضے کے مطابق اپڈیٹ نہیں کیا۔ دوسرا انھوں نے کوئی ایسا مجموعی بیانیہ نہیں بنایا جو آسان بھی ہو اور لوگوں کے جذبات کی ترجمانی بھی کرے۔
‘لیفٹ کو بیسویں صدی کے انقلابات پر گھسی پٹی بحثوں کے علاوہ بھی اپنا کوئی نیا تجزیہ عوام کے سامنے پیش کرنا پڑے گا۔’
پاکستان میں مذہب کارڈ کے حوالے سے ڈاکٹر عمار کہتے ہیں کہ مذہب کا رجحان لاطینی امریکہ اور امریکہ میں بھی مضبوط ہے۔ ‘مذہب خود کوئی مسئلہ نہیں ہے اور بائیں بازو کی بہت ساری تحریکوں میں مذہبی خیالات نے مثبت کردار ادا کیا ہے۔ البتہ فاشسٹ قوتوں نے جس طرح پاکستان میں مذہب کو استعمال کیا ہے اس سے ترقی پسند سوچ کے لیے مزید رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے یقین ہے پاکستان میں نوجوان سیاست میں اہم رول ادا کریں گے۔ اس وقت جتنی بھی عوامی تحریکیں چل رہی ہیں، ان کی قیادت نوجوان کر رہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں سے سیاسی پارٹیاں ڈرتی ہیں جس کی وجہ سے یہ نوجوان متبادل سیاسی تنظیم بنانے کی طرف بڑھیں گے۔’
حقوقِ خلق موومنٹ کے رہنما کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت ایک عام شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا کیونکہ اس میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن دنیا بھر میں پیسے کا مقابلہ صرف مضبوط تنظیم سازی کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ اگر نوجوان ایک مظبوط تنظیم بنانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ پارلیمنٹ تک ضرور پہنچیں گے۔
طلبا یونین سے پابندی اٹھانے کے مطالبے کے بعد ڈاکٹر عمار جان کہتے ہیں کہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو پارٹیوں کے اندر اہم عہدے اور پارلیمنٹ میں سیٹیں دی جائیں۔ لوکل گورنمنٹ میں نوجوانوں کے لیے کوٹہ رکھا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ اسی طرح کا کوٹہ پارلیمنٹ میں بھی ہونا چاہیے تاکہ نئے چہرے اور نئی سوچ سامنے آ سکے۔
ڈاکٹر فہد علی، انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی سے وابستہ دانشور
ڈاکٹر فہد علی کہتے ہیں کہ چلی میں بائیں بازو کے امیدوار کی صدارتی انتخابات میں جیت کو صرف بائیں بازو کے نظریاتی احیاء کے طور پر دیکھنا زیادتی ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ چلی میں ایک بائیں بازو کے امیدوار کی کامیابی کے اسباب جاننے کے لیے اس ملک کے سیاسی اور تاریخی پس منظر میں سمجھنا ہو گا۔
‘سچ بات تو یہ ہے کہ پچھلے 50 برسوں سے چلی میں نیو لبرل سرمایہ داری نظام کے تحت ایسی معاشی پالیسیوں کو نافذ کیا گیا جس سے معاشرے میں اقتصادی عدم مساوات زیادہ گہرا ہوئی۔ حتٰی کہ ایک اندازے کے مطابق، چلی کے امیر ترین ایک فیصد ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے 25 فیصد حصے پر قابض ہیں۔’
اس لیے وہ کہتے ہیں کہ جہاں پر معاشی، معاشرتی اور اقتصادی حالات اس ڈگر پر پہنچ جائیں وہاں صرف نظریاتی احیا کی بات کرنا ناکافی ہے۔ صدارتی انتخابات میں گیبریئل بورِک کی فتح اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ چلی کے مزدور، غریب کاشتکار، نوجوان، طلبا اور مڈل کلاس کے ایک بڑے حصے نے نیو لبرل پالیسیاں مسترد کر دیں ہیں۔
‘وہ چلی کی معاشی ترقی میں سب کے حصے اور شراکت کے خوہاں ہیں، نہ کہ وہاں کے صرف امیر طبقے کے، جو ایک عرصے سے ان (نیو لبرل) پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتا چلا آ رہا ہے۔’ وہ کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں بائیں بازو کی تحریکوں کو شخصی و شہری آزادیوں کے حق میں دو ٹوک بات کرنی پڑے گی۔’
چلی میں اس کے پس منظر یا سیاق و سباق میں جنرل پینوشے کی ظالمانہ آمریت کا دور بھی تھا جب شہری آزادی بری طرح سلب کر لی گئی تھی۔ ان کے مطابق، گیبریئل بورِک کی تنقید اپنے خیر خواہوں کے علاوہ اپنے مخالفین کو تسلی دینے کے لیے بھی ہو سکتی ہے کہ کم از کم اُن کی حکومت شہری آزادیوں کو سلب کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
ڈاکٹر فہد علی کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں چلی اور دنیا کے دیگر ملکوں میں ابھرنے والی بائیں بازو کی تحریکوں کو امریکہ اور برطانیہ کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیا بھر میں، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں ابھرنے والی بائیں بازو کی تحریکیں، امریکہ اور برطانیہ میں موجود بائیں بازوں کے رہنماؤں سے متاثر شدہ نہیں ہیں۔
‘سوچنے کی بات ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں بائیں بازو مختلف سیاسی محاذوں پر کامیابیاں حاصل کرتا نظر آتا ہے تو ایسا امریکہ اور برطانیہ میں کیوں نہیں ہوا؟ ان دونوں ممالک میں یا ان کی تاریخ میں ایسے واقعات میں جو ان دونوں ممالک میں چلی، بولیویا، وینیزویلا اور ایسے اور ممالک کی طرح جمہوریت پسند بائیں کی سیاست کو پنپنے نہیں دیتے ہیں۔’
ڈاکٹر علی کے مطابق نوجوان قیادت کسی سیاسی خلا میں نہیں ابھرتیں ہیں۔’گیبریئل بورِک صدارتی امیدوار بننے سے پہلے سنہ 2019-2020 میں اقتصادی عدم مساوات کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔ اس سے پہلے وہ چلی کی فیڈرل سٹوڈنٹس یونین کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔’
‘پاکستان میں نوجوانوں کو ایسے مواقع میسر نہیں ہیں۔ لے دے کر اِن کے پاس مذہبی جماعتیں اور ان کے شدت پسند ٹولے ہی رہ جاتے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جس دن بھی پاکستانی عوام نے یہ فیصلہ کر لیا کے مذہبی شدت پسندی ہمیں انسانیت سے دور لے جا رہی ہے تو اُس سیلاب کے ریلے میں بہت کچھ بہہ جائے گا۔’
بلال ظہور، اشاعتی ادارے سے وابستہ دانشور
بلال ظہور کہتے ہیں کہ کامیابیوں کے اس سلسلے سے محسوس تو ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا میں جو دائیں بازو کی فاشسٹ قوتیں ابھری تھیں ان کا اختتام ہونے والا ہے، لیکن فاشسٹ قوتوں کو شکست دینے کے لیے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے جس پر ہمیں غور کرنا ہو گا۔
‘لاطینی امریکہ میں پچھلے دو ایک سال میں جتنی بھی بائیں بازو کی تحریکیں ابھری ہیں ان میں ہمیں ایک مضبوط تسلسل نظر آتا ہے۔ ان تحریکوں میں ایک مشترک بات نظر آتی ہے وہ یہ کہ بائیں بازو کی کامیابیاں کسی قسمت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ کارکنوں نے حالات کو اپنے لیے ہموار کیا ہے۔’
بلال ظہور کے مطابق، ان تحریکوں میں کئی ایک ایشوز پر الگ الگ کام کرنے سے کام نہیں بنے گا بلکہ تمام ایشوز کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اٹھانا ہو گا چاہے وہ عدم مساوات کا چیلنج ہو، انسانی حقوق ہوں، روٹی کپڑا اور مکان کا معاملہ ہو، یہ سارے سوالات ہم سے ایک ہنگامی ردعمل کا تقاضہ کرتے ہیں۔
‘تاہم ہمیں اس کے لیے بھی تیار ہونا ہو گا کہ نتائج فوری طور نہیں ملتے ہیں۔’
ان کا کہنا ہے کہ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ لبرل ریاستوں یا ان میں جو حقوق کے بارے میں مروجہ اصول ہیں ان کو بھی اپنے فریم ورک میں شامل کریں تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہو گا۔
‘بلکہ میں تو کہوں گا کہ 21ویں صدی کی سیاست 20ویں صدی کی سیاست سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اب جد و جہد صرف طبقاتی تضاد کی بنیاد پر نہیں ہے، اب خواتین کے حقوق بہت اہم ایشو ہے، اب معاشروں میں ہر طرح کی عدم مساوات ہے، جینڈر کے لحاظ سے، صرف آمدن ہی میں تفاوت نہیں ہے بلکہ ہر معاملے میں عدم مساوات ہے۔’
بلال ظہور کہتے ہیں کہ عدم مساوات نہ صرف طبقات میں ہے، بلکہ یہ آمدن میں ہے، نسلی گروہوں اور قومیتوں میں ہے، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا معاملہ ہے۔ ‘ان سارے معاملات یا چیلنجوں کو ایک ہی فریم ورک میں یکجا کر کے ایک بڑی سطح کی تحریک تشکیل دینا ہے۔’
ان کے مطابق، انہی سوالات کے ساتھ آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے جس کا تعلق طبقاتی تضاد کے ساتھ بھی ہے، خواتین کے حقوق کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے، کلائمٹ چینج کے سوال پر بائیں بازو کے لوگ ایک واضح لڑائی لڑ سکتے ہیں کیونکہ مغربی طاقتوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے حل گزشتہ تیں دہائیوں سے اس مسئلے کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
‘میں اس بارے میں پرامید ہوں کہ پاکستان میں گیبریئل بورِک جیسی قیادت نہ صرف پیدا ہو سکتی ہے بلکہ خلق موومنٹ کی صورت میں اُبھر رہی ہے، چاہے یہ عمار علی جان کی صورت میں ہو یا ایسی تحریکوں کی صورت میں ابھر رہی ہے جو بائیں بازو کو تو نہیں کہلاتی ہیں لیکن حقوق کی تحریکیں سمجھی جاتی ہیں، جن میں جبران ناصر یا عاصم سجاد جیسے کئی لوگ بھی ہیں۔’
خرم علی، کراچی میں عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما
خرم علی کہتے ہیں کہ چاویز سے لے کر بوِرک تک پارلیمانی فورمز پر دوبارہ بائیں بازو کی قوتوں کا ابھرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طبقاتی تضادات دوبارہ تیز ہو رہے ہیں جن کا پہلا اظہار نظام کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کی کوششوں کی صورت میں نظر آ رہا ہے۔
اس سوال پر کہ پاکستان میں گیبریئل بورِک جیسی نوجوان قیادت کیوں نظر نہیں آ رہی ہے، خرم علی کہتے ہیں کہ پاکستان کے تضادات کی نوعیت بہت مختلف ہے جہاں ابھی تک جاگیر دارانہ نظام کسی نہ کسی شکل میں سامراجی اثر کے تحت چل رہا ہے۔ دوسری طرف قومی سوال شدت اختیار کیے ہوئے ہے کیونکہ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے۔’
‘جس طرح جس ہیبت ناک انداز میں تحریکوں کو کچلا جاتا ہے اگر بورک یہاں پیدا بھی ہوتا ہے تو یا تو وہ غائب ہو جاتا ہے یا پہاڑوں کی طرف جانے پر مجبور ہو جاتا۔ اسی لیے ہمیں یہاں کے بورک منظور پشتین کی طرح پختونوں کے حقوق کے لیے لڑتے یا کریمہ بلوچ کی طرح بلوچوں کے حقوق کے لیے مرتے دکھائی دیتے ہیں۔’
کیا پاکستان میں ایسی قیادت کبھی بھی نہیں اُبھر سکے گی؟ اس پر خرم علی کہتے ہیں کہ نئی قیادت ابھر رہی ہے مگر جتنا جبر یہاں پر موجود ہے اور جس طرح سے محلے سے لے کر محلات تک کی سیاست کو کنٹرول کیا جاتا ہے پارلیمان تک کسی بائیں بازو کی قوت کو پہنچنے کے لئے بھی شاید کئی سروں کی قربانی دینا پڑے۔
مضبوط مذہبی رجحانات کو سیاسی پسماندگی کا ذمہ قرار دیتے ہوئے خرم علی کہتے ہیں کہ یہ خود رہاستی بیانیے اور ریاست کی حکمت عملی کے ساتھ جڑے ہیں جس کا مقصد پاکستان میں موجود مختلف قوموں کے استحصال کو ایک امہ کے نام پر جواز فراہم کرنا ہے۔
‘اسی لیے بائیں بازو کے ابھرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ قومی سوال کو نہ صرف سمجھے بلکہ اپنی سیاست کا ایک اہم حصہ تصور کرے تب ہی ان کی کامیابی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔’
تاہم خرم علی کہتے ہیں کہ حالات تبدیل ہو رہے ہیں، پچھلے 10 سال میں بائیں بازو کی تنظیمیں پھر سے سرگرم ہوئی ہیں اور ان میں نیا خون شامل ہوا ہے اور اب نوجوان قیادت بھی ابھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے لیکن یہ کس حد تک آگے جاتی ہے اس کے بارے میں قیاس آرائی مشکل ہے۔
‘اتنا ضرور ہے کہ جب ظلم ہو گا، استحصال ہو گا، غربت بھوک افلاس ہو گی تو آج نہیں تو کل مزاحمتی تحریک بھی ابھرے گی۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کا منتخب ہونا ہمیں یہ اشارہ دیتا ہے کہ ایسا ہو گا لیکن کس حد تک ہو گا اور اس کا کتنا فائدہ ہوگا یہ دیکھنا پڑے گا۔’
خرم علی کہتے ہیں کہ اس خطے کا معاشی ڈھانچہ ہی اب تک جاگیر دارانہ ہے اسی لیے سماجی ڈھانچے میں موروثیت بہت زیادہ گہری ہے اور اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی تبدیلی کی آواز جو معاشی نظام کو تبدیل کرنے کی بات نہیں کرتی وہ کھوکھلی اور بے اثر ہی رہ جاتی ہے۔’
ڈاکٹر عالیہ حیدر، سوشلسٹ انوائرومینٹلسٹ
لاہور میں مقیم بائیں بازو کی سابق طلبہ رہنما ڈاکٹر عالیہ حیدر نے بائیں بازو کے نظریات کے فروغ میڈیکل کالجوں کے طلبہ اور خواتین کے حقوق کی کئی تحریکیں منظم کی ہیں۔ اس وقت وہ حقوق خلق موومنٹ سے وابستہ ہیں۔ وہ صحت عامہ اور ماحولیات جیسے مسائل کے حل کے لیے متحرک ہیں۔
پاکستان میں گیبریئل بورِک جیسے رہنما کے نہ ابھرنے کی وجہ وہ پاکستان میں جنرل ضیاالحق کے زمانے کے حالات بیان کرتی ہیں۔ ‘پاکستان میں بورِک جیسا سٹوڈنٹس لیڈر اس لیے پیدا نہیں ہو سکا کیونکہ جنرل ضیاء کے دور سے سٹوڈنٹ یونین پہ پابندی عائد ہے۔’
اپنی اس بات کی وضاحت میں وہ کہتی ہیں کہ یونینز پر پابندی کی وجہ سے طلبا کو اپنی تحریکوں کو منظم کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ طلبا کو ذہنوں کو ایک باقاعدہ ذہن سازی کے ذریعے مذہبی انتہا پسندی اور فسطائیت کا شکار بنایا گیا۔’
وہ کہتی ہیں کہ اس مقصد کے لیے اسلامی جمیعت طلبہ جیسی پرتشدد تنظیم کو استعمال کیا گیا جس نے آج کے دور کے طلبا کو تنقیدی فکر کی صلاحیت سے محروم کر کے انھیں ذہنی طور پر مفلوج بنا دیا۔ لیکن ہم کبھی بھی نا امید نہیں ہوئے ہیں۔ پچھلے تین برسوں سے ہم سٹوڈنٹس کولیکٹِو کے نام سے طلبا کو منظم کر رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب ان طلبا میں سے کوئی لیڈر ابھرے گا جو ایک متبادل قیادت دے گا۔
ورثہ پیرزادو، پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو کی سیکریٹری جنرل
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی ورثہ پیرزادو کہتی ہیں کہ نوجوان قائدانہ صلاحیت سیکھتے ہیں اور ہمارا نصاب بھی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے جس میں قائد اعظم کے الفاظ پڑھائے جاتے ہیں کہ ‘شاگرد سیاست سے دور رہیں اور اپنی پڑھائی پر توجہ دیں۔ اس سوچ کی وجہ سے وہ شعور شاگردوں میں موجود ہی نہیں جس سے وہ لیڈرشپ کے خواب بھی دیکھ سکیں۔’
‘یہاں نوجوان اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لئے دن رات مشین کی طرح کام کرتے ہیں اور پورا نظام ایک فیکٹری کی طرح ہو گیا ہے جس میں بند ذہن مشینیں بنائی جا رہی ہیں۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں چیزوں کو سرے سے تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔’
ورثہ پیرزادو کہتی ہیں کہ اگر عوام میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں تو وہ کسی وڈیرے کے خوف سے سیاست سے دوری اختیار نہیں کریں گے۔ ‘پورے پاکستان میں ابھی تک چودھری، وڈیرے اور ملک کی صورت میں جاگیردار موجود ہیں۔ خاص کر سندھ کے عوام جاگیرداروں کے ماتحت ہیں۔’
ورثہ پیرزادو کہتی ہیں کہ ‘یہ جاگیردار کسی نوجوان کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیتے جو قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں خاموش کرا دیا جاتا ہے، مار دیا جاتا ہے یا انھیں مختلف طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے عوام میں سے کوئی جرات ہی نہیں کرتا کہ قائدانہ ذمہ داریاں سنبھالنے کی کوشش کرے۔’
وہ کہتی ہیں کہ حال ہی میں ناظم جوکھیو جو صحافی اور سماجی کارکن تھا، اُس نے اپنے علاقے کے وڈیروں کے غلط کام کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کی تو قتل ہو گیا۔ ‘جب تک جاگیرداروں کا اثر و رسوخ ختم نہیں ہو گا تب تک مشکل ہے کہ کوئی عوامی لیڈر ابھر کر سامنے آئے۔’
ڈاکٹر تیمور رحمان، جنرل سیکریٹری پاکستان مزدور کسان پارٹی
ڈاکٹر تیمور رحمان بائیں بازو کے دانشور رہنما ہیں بلکہ اپنے نظریات پھیلانے کے لیے موسیقی کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ داری کے تضادات نے لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کو دوبارہ جنم دیا ہے۔ گیبریئل بورِک کی یہ فتح لاطینی امریکہ اور مغرب میں نیو لبرل ازم کے خلاف مزاحمت کی لہر کا حصہ ہے۔
تیمور رحمان کہتے ہیں کہ بورِک کی دیگر سوشلسٹ تحریکوں پر تنقید بائیں بازو کا فروغ ہے۔
‘کسی بھی بائیں بازو کی تحریک کے لیے مرکزی مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ حکمران اشرافیہ کی تبدیلی کے خلاف مزاحمت پر کیسے قابو پایا جائے۔ یہ تناؤ بائیں بازو کی حکومتوں کو ایسے اقدامات کا سہارا لینے پر مجبور کرتا ہے جنہیں آمرانہ سمجھا جاتا ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ کے برعکس چلی کے بائیں بازو کو دو منفرد عوامل سے سمجھنے کی ضرورت ہے: پنوشے کے جبر کی میراث اور نیو لبرل ازم کے خلاف اس کی قومی اقتصادی خودمختاری کا دعویٰ۔
مزدور کسان پارٹی کے رہنما کہتے لہیں کہ گیبریل بورک طلبہ کی تحریک کی وجہ سے مرکزی دھارے کے سیاست دان کے طور پر تیار ہوئے تھے۔ پاکستان میں طلبہ سیاست اور یونینوں پر مکمل پابندی پاکستان میں اس طرح کے رجحان کو شروع ہی سے روکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘اگرچہ پاکستانی بائیں بازو کے رہنماؤں نے ماضی میں کچھ غلطیاں کی ہیں، لیکن پاکستان میں بائیں بازو کی کمزوری بنیادی طور پر سامراج کی جنگ سے خطے میں اُٹھائی گئی تاریخی قوتوں کا نتیجہ ہے۔ افغان انقلاب کے خلاف فوجی اور اسلامی بنیادوں کے اتحاد نے پورے خطے کو کئی دہائیاں ماضی کی جانب دھکیل دیا ہے۔’
اسی وجہ سے ڈاکٹر رحمان کہتے ہیں کہ ‘مذہبی سیاسی قوتیں سرمایہ داری اور سامراج کے معاشی تضادات کو حل نہیں کر سکتیں۔ اس وجہ سے بائیں بازو پاکستان میں دوبارہ ابھرے گا جس طرح چلی میں دوبارہ ابھرا ہے۔’
حال ہی میں مزدور کسان پارٹی کے ایک مقامی لیڈر صوبہ پختون خواہ کے ضلع چارسدہ کی تحصیل تنگی کے میئر منتخب ہوئے ہیں۔ فیاض علی کی عمر بھی 30 کی دہائی میں ہے اور ان کا ایک غریب کسان گھرانے سے تعلق ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائیں بازو اور نوجوان پاکستان میں فتح یاب ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر تیمور رحمان کا مطالبہ ہے کہ طلباء کی نمائندگی کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں رکھی جا سکتی ہیں۔ تاہم، یہ مقصد صرف اس وقت بامعنی طور پر پورا ہو سکتا ہے اگر طلبہ یونینز بحال ہو جائیں۔
پاکستان کی طلبا تحریکوں کا پس منظر
چلی کی سیاسی تاریخ کا اپنا پس منظر ہے، جغرافیہ بھی مختلف ہے اور نوآبادیاتی تاریخ بھی پاکستان سے مختلف ہے۔ لیکن کچھ مماثلتیں بھی ہیں۔
پاکستان میں سنہ 1950 کی دہائی میں جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی تو اسی کی ذیلی طلبا تنظیم، ‘ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن’ (ڈی ایس ایف) پر بھی پابندی کر دی گئی تھی۔
لیکن کیونکہ آزاد منڈی کے نظام کے حامیوں کو مضبوط اشتراکی تحریکوں کا بھی سامنا تھا اس لیے انھوں نے کبھی بھی وہ لبرل اقتصادی پالیسوں کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جو سویت یونین کے ڈھہ جانے کے بعد سنہ نوے کی دہائی اور اس کے بعد کے ادوار میں ‘نیو لبرل ازم’ کے نام سے پاکستان میں متعارف کی گئیں۔
لیکن پھر بھی آنے والی دہائیوں میں سرکاری سکول یا پبلک سیکٹر کے کئی ایسے سکول اور کالج تھے جن کی کارکردگی کافی اعلیٰ سطح کی تھی۔
لیکن تمام سرکاری سکولوں کی اچھی حالت نہیں تھی۔ انگلش میڈیم اور اردو میڈیم سکولوں کا ایک طبقاتی فرق ہمیشہ سے موجود تھا جو مجموعی معاشرتی عدم مساوات کی وجہ سے شدید ہوتا جا رہا تھا کیونکہ اردو میڈیم کے طلبا کے لیے سماجی اور اقتصادی ترقی کے وہ مواقع نہیں تھے جو انگلش میڈیم کے طلبا کے لیے موجود تھے۔
یہ وہ سماجی تضاد تھا جس نے ایوب خان کی حکومت کے خلاف طلبا کی تحریک کی صورت میں سنہ 1967 میں ایک دبے ہوئے غصے کے بارود کو آگ لگائی۔ ایوب خان کے خلاف تحریک راولپنڈی کے پولی ٹیکنیک انسٹیٹوٹ کے طلبا نے شروع کی تھی جس نے انھیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا۔
وہ طلبا تحریک جس نے ایوب خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا، اب اُس طلبا طاقت سے فوجی حکمران اور سویلین دونوں ہی خائف تھے۔
عمر ریاض کی طلبا یونین پر ایک تحقیق کے مطابق، جنرل ضیاء کے عہد سے پہلے تک پاکستان میں طلبہ یونینز طلبہ کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے ایک ترقی پسند کردار ادا کر رہی تھیں۔ طلبہ کی اکثریت بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں سے منسلک تھیں اور فیسوں سے لے کر بسوں کے کرائے تک کے مسائل ان یونینوں نے حل کروائے تھے۔
بائیں بازو کی طلبا تنظیموں کو سنہ 1950 کی دہائی کے بعد دوسرا بڑا مہلک جھٹکا جنرل ضیا کے زمانے میں پہنچا جب پاکستان سویت فوج کی مداخلت کے خلاف امریکی جہاد کا حصہ بن گیا اور سیاسی حلقوں میں مذہبی جماعتیں اس کی حامی تھیں۔ اسلامی جمیعت طلبا نے افغان جہاد میں جنرل ضیا کا ساتھ دیا جس نے اسے مزید طاقت دی۔
حکومت نے طلبا کی سیاست اور سٹوڈنٹ یونینز پر تو پابندی عائد کی ہی تھی، لیکن نجی شعبے میں کھلنے والے تعلیمی اداروں نے بھی طلبا یونینز یا ان جیسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی۔ اس طرح مستبقل کی قیادت پیدا کرنے کے ادارے سنہ 80 سے لے کر آج تک غیر فعال رہے۔
پاکستان کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت ملک بھر میں کل 232 یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں جن میں زیادہ تر اب بھی سرکاری شعبے (141) میں ہیں اور 91 کا تعلق نجی شعبے سے ہے۔
شماریات جمع کرنے کے ایک معروف ادارے، سی ای آئی سی کے مطابق، سنہ 2016 تک پاکستان میں کالجوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔اور ان میں زیادہ تر طلبا سرکاری اداروں میں جا رہے تھے۔
ورلڈ ایجوکیشن نیوز اینڈ رویوز کے مطابق، اعلیٰ تعلیم کے نجی ادارے فیسوں کے لحاظ سے بہت زیادہ مہنگے ہیں اگرچہ ان کی ایک دوسرے کے مقابلے میں فیسوں میں فرق بھی بہت زیادہ ہے۔ بعض مہنگی یونیورسٹیوں میں فی سمیسٹر فی طالب علم فیس پانچ لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں (میڈیکل یا انجینیئرنگ تعلیم کی فیسیں اس سے بھی زیادہ ہیں)۔
اس کے مقابلے میں سرکاری یونیورسٹیوں میں سمیسٹر کی فیس نسبتاً کافی کم ہے، اوسطاً 60,000 روپے سے 90,000 روپے۔
اِس لحاظ سے، مہنگے نجی اداروں کی یہ فیس (3,106$) سنہ 2018 میں پاکستان کی فی کس مجموعی قومی آمدنی سے دوگنی سے بھی زیادہ تھی۔ اور یہ عدم مساوات اور مہنگے اداروں کا بہتر میعارِ تعلیم جہاں بہتر ملازمت کا سبب بنتا ہے وہیں طلبا برادری میں شدید بے چینی کا سبب بھی بنتا ہے۔
معاشرے میں دیگر تضادات کو اگر ایک لمحے کے لیے نظر انداز بھی کر دیا جائے، جو کہ عملاً ممکن نہیں ہے، صرف تعلیمی اداروں میں اتنے بڑی تفاوت کا ہونا ہی طلبا کے احتجاج کا بہت بڑا سبب بنتا ہے جو کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے بشرطیکہ چلی کی طرح طلبا کو سیاسی بصیرت اور رہنمائی دینے والا کوئی گروہ بھی ہو۔
ماضی میں طلبا تحریکیں صرف سنہ 1969 میں ایک حکومت میں تبدیلی کا سبب بنی تھی، بعد میں طلبا تحریکیں محدود مقاصد ہی حاصل کر پائی ہیں۔ سنہ 1977 میں بھٹو کے خلاف تحریک میں طلبا بحیثیت ایک کمیونٹی شریک نہیں تھے، اور نہ ہی جنرل ضیا کے خلاف کوئی بڑی طلبا تحریک چلی۔
چند ایک طلبا تحریکیں یا نوجوانوں کی تحریکیں جن میں طلبا کی بڑی تعداد بھی شامل تھی، وہ سیاسی طور پر کمزور رہیں۔ اگرچہ انھوں نے محدود مقاصد حاصل کیے، مثلاً، اسلامی جمیعت طلبا، ایم کیو ایم کی اے پی ایم ایس او، بلوچ تحریکیں، پشتون تحریکیں، مذہب اور فرقے کی بنیاد پر بننے والی طلبا تنظیمیں۔
اس کے علاوہ عورت مارچ، میڈیکل کالجوں کے گریجویٹس کے لائسنس کے امتحانات کے خلاف طلبا احتجاج، فیسوں پر بڑھتی ہوئی بے چینی، نجی یونیورسٹیوں میں امتیازی اور غیر جمہوری انتظامی پالیسیاں اور کئی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں غیر میعاری تعلیم اب طلبا برادری کے اہم موضوعات بن رہے ہیں۔
پاکستان میں بائیں بازو کے گروہ یا تنظیمیں اتنی زیادہ منظم نہیں ہیں جتنی کہ دائیں بازو سے وابستہ تنظیمیں ہیں جو ان معاملات پر سیاست کر سکیں۔ تاہم تعلیم، فیس اور امتحانات کے بارے میں بائیں بازو کی تنظیمیں طبقاتی اور جینڈر تقیسم کی حساسیت پر زیادہ فعال ہیں۔