پی ڈی ایم لانگ مارچ ملتوی سوشل میڈیا پر زرداری-مریم مکالمہ، فضل الرحمان کا پریس کانفرنس ادھوری چھوڑنے اور پی ڈی ایم کے مستقبل پر تبصرے
گذشتہ چھ ماہ سے اگر آپ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر رکھے ہوئے ہیں تو ہر کچھ روز بعد آپ کی ٹی وی سکرینز پر حزب اختلاف کے اتحاد کے حوالے سے ‘پی ڈی ایم ناکام’ اور ‘پی ڈی ایم کامیاب’ جیسے دعوے سامنے آتے نظر آئے ہوں گے۔
اگر ماضی میں ہونے والے کچھ واقعات پر نظر ڈالیں تو نواز شریف اور مریم نواز کی سخت لحجے میں کی جانے والی تقاریر ہوں تو اسے پی ڈی ایم کی کامیابی تصور کیا جاتا ہے جبکہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات ہوں یا ان کے مشترکہ اجلاس کے دوران سامنے آنے والے اختلافات کو ان کی ناکامی۔
یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ انتخابات میں جیت نے پی ڈی ایم تحریک میں نئی روح پھونک دی جبکہ ان کی سینیٹ چیئرمین کے الیکشن میں ہار پی ڈی ایم کی شکست گردانی جاتی ہے۔
ایسا ہی کچھ گذشتہ روز ہونے والے پی ڈی ایم کے مشترکہ اجلاس کے بعد سے سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹ نے کسی کی موت کے وقت تعزیت کے طور پر ادا کیے جانے والی اصطلاح ‘آر آئی پی’ کو پی ڈی ایم سے جوڑ کر ٹوئٹر پر ٹرینڈ بنا دیا ہے۔
س ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وفاقی و صوبائی اراکین بھی ٹویٹ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن نے مریم نواز کے حق میں ایک ٹرینڈ چلایا ہے اور دونوں اطراف سے سے پی ڈی ایم کی ناکامی و کامیابی کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
س کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ روز پی ڈی ایم کی جانب سے لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے اور اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی قومی اسمبلی سے استعفوں کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف کی واپسی سے مشروط کیا جس پر مریم نواز کی جانب سے بھی ردِ عمل سامنے آیا۔
اس دلچسپ مکالمے کی خبریں اس مشترکہ اجلاس کے دوران ہی تمام ٹی وی چینلز پر چلائی جا چکی تھیں اور ساتھ ہی اس کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا اعلان کرنے کے بعد وہاں سے چلے جانا بھی زیرِ بحث ہے۔
س حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے خیبرپختونخواہ کے صوبائی وزیر تیمور خان جھگڑا نے امریکی ڈرامہ سیریز ہاؤس آف کارڈز کا ایک ڈائیلاگ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ‘دوست ہی بدترین دشمن بنتے ہیں۔’
اکثر صارفین مقامی چینل اے آر وائی کے پروگرام پاورپلے میں مریم نواز کا ایک کلپ شیئر کر رہے ہیں جس میں وہ ایک جلسے میں اپنی تقریر کے دوران طنزاً ہنستے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ ‘پی ڈی ایم میں لڑائی ہو گئی ہے۔’
استعفوں کی بحث کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پی پی پی کی رکنِ پارلیمان شازیہ مری نے ٹویٹ کیا کہ ‘لانگ مارچ اور استعفے دو الگ آپشنز ہیں۔ آج سے پہلےکبھی لانگ مارچ کو استعفوں سے نہیں جوڑا گیا۔
‘پی پی پی نے پارلیمانی آپشنز استعمال کرنے پر پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو قائل کیا اور حکومت کو شکست دی۔ سات ضمنی انتخابات میں شکست اور یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے سلیکٹڈ حکومت کی بنیاد ہلا دی۔’
مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز سے منسلک صحافی اور تجزیہ کا مظہر عباس نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘آج پی ڈی ایم تحریک کو جمہوری پروٹوکول کے ساتھ بالآخر سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ تمام رہنماؤں نے اس کی آخری رسومات میں شرکت کی اور کچھ نے ویڈیو لنک کے ذریعے بھی۔
‘میں نے خود حزب مخالف اتحاد کو اسلام آباد میں منہدم ہوتے دیکھا۔ پی ٹی آئی اب پی پی پی کی جانب سے نامزد کردہ دوستانہ رہنما حزبِ اختلاف کی حمایت کر سکتی ہے۔
کثر صارفین نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان ماضی میں ہونے والے اختلافات کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ اس بات کے امکانات تو بہت عرصے سے تھے کہ دونوں کے درمیان پھوٹ پڑ سکتی ہے۔
کچھ افراد پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کے اس اتحاد کے آغاز میں ہی دیے گئے بیان کی نشاندہی کرتے دکھائی دیے جس میں انھوں نے آصف علی زرداری سے شراکت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
دوسری جانب صحافی کامران یوسف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘زرداری کی جانب سے استعفوں کے حوالے ہچکچاہٹ کے حوالے سے جس جانب کسی کی بھی نظر نہیں جا رہی وہ یہ ہے کہ اس وقت امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ موجود ہے اور وہ افغانستان میں امن عمل سے متعلق کسی بھی ٹھوس معاہدے سے قبل یہ نہیں چاہے گی کہ یہاں حکومت میں تبدیلی آئے۔’
اس دوران سوشل میڈیا پر ‘ایک زرداری سب پر بھاری’ جیسی ٹویٹس بھی دیکھنے کو ملیں اور جہاں کچھ صارفین آصف زرداری کی سیاسی بصیرت کے مداح دکھائی دیے تو کچھ انھیں ‘اپنے مفاد پر سمجھوتا نہ کرنے والا سیاست دان’ کرتے نظر آئے۔
اس بارے میں صحافی ضیا الدین نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا ‘کیا آپ کو یاد ہے کہ زرداری نے ہی نواز شریف کو 2008 کے الیکشنز میں حصہ لینے پر آمادہ کیا تھا جب وہ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کا حصہ بن کر اس کے بائیکاٹ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اے پی ڈی ایم چوہدری نثار کا منصوبہ تھا اور آصف زرداری کے مشورے پر ہی نواز شریف نے الیکشنز میں حصہ لینے کے بارے میں سوچا تھا۔’
جہاں ہر کوئی گذشتہ روز پیش آنے والے واقعات کے بارے میں تبصرے کرتے دکھائی دیے وہیں اس بارے میں صحافی حسن زیدی نے کہا کہ ‘اس وقت پی ڈی ایم جماعتوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ ماضی سے سیکھ کر اپنے نظریے میں کیا تبدیلی لا سکتے ہیں اور انھیں کیا لگتا ہے کہ نظام میں کیا غلط ہے۔’
انھوں نے کہا کہ اگر آپ کا جواب عمران خان اور تحریک انصاف کے گرد گھومتا ہے تو آپ کا نظریہ مختلف ہو گا، لیکن اگر یہ اس سے کہیں وسیع ہے تو آپ کا جواب مختلف ہو گا۔’ انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کو سوچنا ہو گا کہ وہ اپنی پہچان کیا بنانا چاہتی ہیں اور وہ کیا چاہتی ہیں کہ تاریخ میں اس تحریک کو کیسے یاد کیا جائے