پنجاب کے ضمنی انتخابات 20 حلقوں میں ہونے والے یہ انتخابات مستقبل کی سیاست پر کس طرح اثر انداز ہوں گے؟
17 جولائی کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے 14 اضلاع کے 20 صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات تین زاویوں سے سیاسی اہمیت کے حامل بن چکے ہیں۔ اول تو یہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا فیصلہ کریں گے جبکہ دوئم ان انتخابات کے نتائج پنجاب کی حد تک دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریکِ انصاف کی عوامی مقبولیت کو واضح کریں گے۔
ان انتخابات کی تیسری اہمیت یہ ہے کہ ان کے نتائج آئندہ ہونے والے عام انتخابات کی سمت کا بھی تعین کریں گے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتیں زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
ہم یہاں اِن 20 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کا جائزہ اِس تناظر میں لیں گے کہ پنجاب کی مستقبل کی سیاست پر ان کے نتائج کے نقوش کس حد تک اَنمٹ ہوں گے؟
نیز اِن حلقوں میں کن نعروں اور وعدوں پر انتخابات لڑا جا رہا ہے؟ یعنی دونوں سیاسی جماعتوں کے پاس ووٹرز کو دینے کے لیے کیا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلزپارٹی کا سیاسی کردار کیا ہے اور اگلے عام انتخابات میں یہ ضمنی الیکشن پیپلز پارٹی کی سیاست پر کوئی اثرات مرتب کر سکتا ہے یا نہیں؟
20 حلقوں میں سے کس پارٹی کے لیے کتنی نشستیں لینا ضروری؟
سب سے پہلے تو پارٹی پوزیشن پر نظر ڈالتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کی کُل نشستیں 163 ہیں جبکہ 10 نشستیں ق لیگ کی ہیں۔ یوں ان دونوں جماعتوں کے ارکان کی کل تعداد 173 بنتی ہے۔
دوسری جانب حکومتی اتحاد یعنی پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، چار آزاد ارکان اور پاکستان راہ حق پارٹی کے کل ارکان کی تعداد 177 بنتی ہے۔ 371 اراکین کے مکمل ایوان میں وزیرِ اعلیٰ کو 186 ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔
یوں موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ نون کو 9 جبکہ پی ٹی آئی کو 13 نشستیں جیتنا ہوں گی۔
اگر حکومتی اتحاد میں سے چار آزاد اور راہِ حق پارٹی کی ایک نشست نکال دیں تو یہ تعداد 173 بنتی ہے۔ اس طرح مسلم لیگ ن کے لیے بھی 13 سیٹیں جیتنا ضروری ہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی کے آزاد رکن چودھری نثار علی خان کی جانب سے فی الحال کسی بھی اتحاد کی اعلانیہ حمایت نہیں کی گئی۔
سینئیر تجزیہ کار اور صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’چودھری نثار علی خان نے حلف اُٹھانے کے بعد اعلان کیا تھا کہ یہ میرا اسمبلی کا آخری وزٹ ہے، تب سے وہ اسمبلی نہیں آئے اور اُنھوں نے اس لڑائی میں فریق نہ بننے کا اعلان کر رکھا ہے۔‘
سنہ 2018 کے انتخابات میں اِن حلقوں کے نتائج کیا تھے؟
ان 20 صوبائی حلقوں میں گذشتہ الیکشن کا جائزہ موجودہ صورتحال کی جان کاری کے لیے ضروری ہے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں پنجاب کے اِن 20 حلقوں میں آزاد اُمیدواروں نے 32 فیصد، پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی 32 فیصد، پاکستان مسلم لیگ ن نے 25 فیصد اور دیگر جماعتوں نے 5 فیصد ووٹ لیا تھا۔
اِن 20 حلقوں میں سے 10 پر آزاد جبکہ 10 پر پی ٹی آئی کے اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ اب ان امیدواروں میں سے لاہور کے حلقہ پی پی 158 میں علیم خان الیکشن نہیں لڑ رہے جہاں سے نون لیگ کے 2018 کے اُمیدوار رانا احسن شرافت میدان میں ہیں۔
ڈیرہ غازی خان کے حلقہ پی پی 288 میں محسن عطا کھوسہ الیکشن نہیں لڑ رہے جہاں سے عبدالقادر کھوسہ میدان میں ہیں۔ خوشاب کی سیٹ پی پی 83 میں ملک غلام رسول سنگھا کی جگہ اُن کے بھائی امیر حیدر سنگھا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ باقی تمام امیدوار وہی ہیں لیکن اس بار وہ پاکستان مسلم لیگ نون کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
جن 10 حلقوں میں آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے، اُن میں راولپنڈی کے حلقہ پی پی 7 پر نون لیگ کے اُمیدوار دوسرے جبکہ پی ٹی آئی کے تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ خوشاب کے حلقہ پی پی 83 پر نون لیگ کے اُمیدوار دوسرے جبکہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار پانچویں نمبر پر رہے۔
بھکر کے حلقہ پی پی 90 پر نون لیگ دوسرے جبکہ پی ٹی آئی کا تیسرا نمبر رہا تھا۔ فیصل آباد کے حلقہ پی پی 97 پر پی ٹی آئی اُمیدوار دوسرے جبکہ نون لیگ کے امیدوار تیسرے نمبر پر تھے۔
جھنگ کے حلقہ پی پی 125 میں پی ٹی آئی کا دوسرا جبکہ نون لیگ کا کوئی اُمیدوار نہیں تھا۔ جھنگ کے حلقہ پی پی 127 میں پی ٹی آئی اُمیدوار دوسرے جبکہ ن لیگ کا بارھواں نمبر رہا تھا۔
ملتان کے حلقہ پی پی217 پر پی ٹی آئی اُمیدوار دوسرے جبکہ ن لیگ تیسرے نمبر پر تھی۔ بہاولنگر کے حلقہ پی پی 237 پر پی ٹی آئی دوسرے جبکہ نون لیگ کا کوئی اُمیدوار نہیں تھا۔ لیہ کے حلقہ پی پی 282 پر پی ٹی آئی کا اُمیدوار دوسرے جبکہ نون لیگ کا تیسرے نمبر پر رہا اور ڈیرہ غازی خان کے حلقہ پی پی 288 پر پی ٹی آئی کا اُمیدوار دوسرے جبکہ ن لیگ کا اُمیدوار کوئی نہیں تھا۔
باقی 10 حلقوں میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے۔
20 حلقوں پر پنجاب کی سیاست کا دارومدار کیوں؟
یہ 20 حلقے ایک طرح سے پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ حلقے لاہور، شیخوپورہ، فیصل آباد، ساہیوال، راولپنڈی، خوشاب، جھنگ، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، لودھراں، بہاولنگر اور ڈی جی خان کے ہیں۔
ایک لحاظ سے پنجاب کے ہر حصہ میں الیکشن ہوں گے اور اگر دونوں جماعتیں اپنا طے کردہ ہدف حاصل نہ کر سکیں تو دونوں کے لیے بڑا سیاسی دھچکہ برداشت کرنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔
اگر نون لیگ 9 سیٹیں حاصل نہیں کرتی تو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ برقرار نہیں رہ پائے گی، ساتھ ہی اگلے انتخابات میں پنجاب کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا۔
اسی طرح اگر پی ٹی آئی اپنے دعوؤں کے مطابق نتائج سے محروم رہتی ہے تو عمران خان کے بیانیے کو نقصان پہنچنے کے ساتھ جلد انتخابات کے انعقاد کی سعی بھی لاحاصل ٹھہرے گی اور پنجاب پر گرفت بھی کمزور پڑ جائے گی۔
دَرحقیقت ان ضمنی انتخابات کے ذریعے پنجاب پر سیاسی تسلط کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز اِن حلقوں میں زور و شور سے جلسے کر رہے ہیں۔
اسی طرح ان حلقوں کے اضلاع کی دونوں طرف کی مقامی قیادت اپنی پارٹی کے اُمیدوار کی انتخابی مہم میں بھرپور شمولیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ حتیٰ کہ نون لیگ کی جانب سے سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سمیت خواجہ سلمان رفیق اور اویس لغاری اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر انتخابی مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔
معروف سیاسی تجزیہ کار اور سینئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’ان حلقوں کے نتائج دونوں پارٹیوں کی مستقبل کی سیاست پر ضرور اثرانداز ہوں گے۔ دونوں پارٹیوں کی مقبولیت کا اندازہ بھی ان ضمنی انتخابات میں ہو جائے گا۔‘
سینئرصحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی بھی اسی طرح کی رائے رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لاہور کے چاروں حلقوں سمیت پنجاب کے 20 حلقے دونوں پارٹیوں کے لیے زندگی موت کا درجہ اختیار کر چکے ہیں اور زیادہ بڑا مقابلہ لاہور کی سیٹوں پر ہو گا۔‘
ان حلقوں میں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نون مختلف دعوے اور وعدے کر رہی ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے اُمیدوار، سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کی بیرونی و اندرونی ’سازش‘ کے ساتھ ساتھ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور پیٹرول و ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کو موضوع بنائے ہوئے ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کے اُمیدوار ’سابق حکومت کی نااہلی‘ اور ’سخت فیصلے کر رہے ہیں مگر جلد اچھے دِن آئیں گے‘ کا موضوع اپنائے ہوئے ہیں۔
حلقوں کی سطح پر دونوں جماعتوں کے لیے چیلنجز کیا ہیں؟
دونوں جماعتوں کو ٹکٹوں کی تقسیم پر پہلا چیلنج درپیش ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے لیے منحرف ارکان کو ٹکٹ دینا مشکل فیصلہ تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعض جگہوں پر اس جماعت کے پلیٹ فارم سے سنہ 2018 کا الیکشن لڑنے والے اُمیدوار یا تو ناراض ہو کر سائیڈ پر ہو گئے یا آزاد حیثیت میں کھڑے ہو گئے۔
اس کی مثال خوشاب اور لیہ کے حلقوں سے دی جا سکتی ہے نیز بعض ارکان پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے اور اس وقت پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں جس کی مثال بھکر اور لودھراں کے ایک حلقہ کی دی جا سکتی ہے۔
ادھر پی ٹی آئی میں مسلم لیگ نون کے شامل ہونے والے ارکان کی وجہ سے پی ٹی آئی کے ارکان کا ردِعمل بھی سامنے آیا ہے۔
شہری حلقوں میں منحرف ارکان کے خلاف نفرت اور غصے کا عنصر بھی ووٹرز کے اندر محسوس کیا گیا جبکہ دیہی حلقوں میں ووٹرز کی جانب سے برادری اور دھڑے کی مخالفت بھی محسوس کی جا رہی ہے۔ دونوں پارٹیوں کے اُمیدواروں کو ناراض اور مایوس ووٹرز کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن کے لیے منحرف ارکان کو ٹکٹ دینا ایک مشکل فیصلہ تھا، جو اس کو بہرحال کرنا تھا۔ دوسری طرف شہری حلقوں میں اِن منحرف ارکان کو ووٹرز کی جانب سے نفرت آمیز مسائل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔‘
پیپلزپارٹی کے لیے اس الیکشن میں کیا ہے؟
گذشتہ انتخابات کی روشنی میں دیکھا جائے تو پنجاب کے اِن 20 حلقوں میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک زیادہ نہیں البتہ مظفر گڑھ اور ملتان میں پیپلزپارٹی کی موجودگی محسوس ہوتی ہے۔
چونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ایک پلیٹ فارم پر ہیں تو ہر حلقے میں پیپلز پارٹی اپنی سطح پر مسلم لیگ ن کے اُمیدوار کو سپورٹ کر رہی ہے۔
بعض استثنائی مثالیں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر لیہ میں پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت مسلم لیگ نون کے ناراض رُکن، جو اس وقت آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں، کو سپورٹ کر رہی ہے۔ بعض حلقوں میں پیپلزپارٹی کی قیادت کہیں نظر نہیں آتی۔
ملتان میں یوسف رضا گیلانی اور اُن کے فرزند مکمل طورپر مسلم لیگ نون کے اُمیدوار کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
ملتان سمیت جنوبی پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی شاکر حسین شاکر کہتے ہیں کہ ’ملتان کے حلقہ پی پی 217 میں یوسف رضا گیلانی اپنے بیٹوں سمیت مسلم لیگ نون کے اُمیدوار کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اسی طرح مظفر گڑھ کی پیپلز پارٹی کی قیادت بھی مسلم لیگ ن کے اُمیدواروں کو سپورٹ کر رہی ہے مگر اُن حلقوں میں شخصیت کا ووٹ زیادہ ہوتا ہے۔‘