وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے مذہبی، سیاسی جماعتیں فیض آباد کا ہی انتخاب کیوں کرتی ہیں؟
گزشتہ کچھ عرصے، بالخصوص سنہ 2017 کے دوران، جب بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کو پاکستان کی وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والے فیض آباد پُل کا رخ کرتی ہیں۔
سنہ 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے اس وقت کی حکومت، یعنی پاکستان مسلم لیگ نواز، کے خلاف ارکان پارلیمان کے حلف میں مبینہ تبدیلی پر فیض آباد انٹر چینج کے مقام پر دیا جانے والا دھرنا تقریبا ایک ہفتے سے زیادہ تک جاری رہا جس کے دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں اور وفاقی دارالحکومت مفلوج ہو کر رہ گیا۔
حکومت ان مظاہرین کے سامنے نہ صرف گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی بلکہ اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو اپنے عہدے سے مستعفی بھی ہونا پڑا تھا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ بعد ازاں دھرنا دینے، کار سرکار میں مداخلت اور توڑ پھوڑ کرنے کے واقعات میں ملوث گرفتار کارکنوں کو رہا بھی کرنا پڑا تھا۔
تو سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور مذہبی پارٹیوں کو فیض آباد اتنا کیوں بھاتا ہے، یہ کہاں واقع ہے اور یہاں احتجاج کرنے کی کیا اہمیت ہے؟
فیض آباد کہاں واقع ہے؟
فیض آباد کا محل وقوع ہی اس مقام کی اہمیت کی وجہ ہے جو ناصرف اسلام آباد اور راولپنڈی کو جوڑتا ہے بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ پھیلتے ہوئے وفاقی دارالحکومت کے اہم سنگم پر واقع ہے۔
اگرچہ اب یہاں ایک بڑا انٹرچینج ہے مگر نوے کی دہائی کے دوران راولپنڈی اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو ملانے کے لیے یہاں فقط ایک چھوٹی سی شاہراہ ہوا کرتی تھی۔
پشاور اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں سے آنے والی گاڑیاں آئی جے پی روڈ استعمال کرتے ہوئے فیض آباد اور پھر اسلام آباد ہائی وے سے ہوتی ہوئی روات میں جی ٹی روڈ سے لنک ہو جاتی تھیں۔
چونکہ دونوں شہروں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی تو یہ چھوٹی سی شاہراہ ضرورت پوری کر رہی تھی۔ مگر جوں جوں آبادی بڑھتی گئی اور ٹریفک کے مسائل بڑھتے گئے تو پھر اس مقام پر انٹرچینج بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں اس پر کام شروع ہوا اور یہ منصوبہ سنہ 1998 میں مکمل ہوا۔
فیض آباد انٹرچینج کا کچھ حصہ راولپنڈی میں جبکہ اس کا زیادہ تر حصہ اسلام آباد میں واقع ہے۔ اس انٹر چینج کی تعمیر کے بعد یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں اس انٹرچینج کو یومیہ استعمال کریں گی۔
تاہم اسلام آباد پولیس کے مطابق موجودہ دور میں تقریبا دو لاکھ کے قریب گاڑیاں اس انٹرچینج کا استعمال کرتی ہیں۔ ان میں ایک قابل ذکر تعداد ان مال بردار ٹرکوں کی ہوتی ہے جو کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں سے پنجاب کی طرف اور پنجاب کے مختلف شہروں سے مختلف اشیا لے کر واپس صوبہ خیبر پختونخوا جانے کے لیے اسی انٹرچینج کا استعمال کرتے ہیں۔
فیض آباد اتنا اہم کیوں ہے؟
گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جی روڈ کو ملانے کے لیے فیض آباد انٹرچینج کو ہی استعمال کیا جاتا ہے اور پھر جی ٹی روڈ سے ہی ملک کے دیگر شہروں کے لیے آمدو رفت جاری رہتی ہے۔
راولپنڈی کے وسط سے گزرنے والی گرینڈ ٹرنک روڈ ایک مصروف شاہراہ ہے جہاں دن کے اوقات میں رش ہوتا ہے۔ پاکستان فوج کا جنرل ہیڈ کوارٹر بھی یہیں واقع ہے۔ اور اسی لیے وہاں سے بھاڑی ٹریفک، یعنی ٹرکوں، کو رات کے ایک مخصوص وقت میں ہی گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اسی لیے ہیوی ٹریفک کا دباؤ آئی جے پی روڈ سے فیض آباد انٹرچینج پر ہی پڑتا ہے۔
فیض آباد کے اردگرد حساس عمارتیں بھی موجود ہیں جن میں سرفہرست اوجڑی کیمپ ہے، جسے اب حمزہ کیمپ کا نام دیا گیا ہے۔ اس جگہ فوج کے حساس ادارے آئی ایس آئی کے افسران رہائش پذیر ہیں۔
سنہ 1988 میں اوجڑی کیمپ میں واقع اسلحہ ڈپو میں دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
حمزہ کیمپ کے ساتھ ہی راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم ہے۔
فیض آباد ہی کے مقام سے دیگر شہروں کا سفر کرنے والی بسوں کا ایک بڑا اڈہ بھی موجود ہے جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر چلنے والی میٹرو بس کی گزر گاہ بھی ہے۔ تحریک انصاف کے جلسے کے پیش نظر یہ اڈہ اور میٹرو بس سروس آج کے دن کے لیے معطل کر دی گئی ہے۔
فیض آباد دھرنا کیس
فیض آباد کو اصل شہرت سنہ 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے فیض آباد پر دیے گئے دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ملی جس میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے وزارت دفاع سے کہا تھا کہ ان فوجی افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں حصہ لیا۔
واضح رہے کہ اس دھرنے کے اختتام پر مظاہرین میں پیسے بانٹتے ایک اعلی عسکری عہدیدار کی ویڈیو بھی مظر عام پر آئی تھی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف وزارت دفاع نے نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے جو تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔
اب سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ فیض آباد دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
تحریک لبیک کے دھرنے کے دوران ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔ دونوں شہروں کے مکینوں کو نہ صرف آنے جانے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا بلکہ اقتصادی اور کاروباری سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہوئیں۔
شاہراوں کی بندش کی وجہ سے کم از کم تین افراد ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے جن کا مقدمہ اس وقت کی ٹی ایل پی کی قیادت کے خلاف درج کیا گیا۔
فیض آباد دھرنے میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں، کار سرکار میں مداخلت اور امن میں خلل ڈالنے کے خلاف ٹی ایل پی کی قیادت کے خلاف مقدمات انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیے گئے۔
لیکن اس وقت کی پنجاب حکومت، جو کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی تھی، نے اس جماعت کی قیادت کے خلاف اس بنیاد پر عدالتی کارروائی رکوا دی کہ اس معاملے کی مذید تحقیقات درکار ہیں، لہذا جب چالان مکمل ہوگا تو پھر اس کو عدالت میں جمع کروا دیں گے۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ان مقدمات میں ملوث ملزمان کو سزائیں دی گئی ہیں۔
تحریک انصاف کا دھرنا
سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے سنہ 2014 میں اسلام آباد میں جو دھرنا دیا تھا اس سے پہلے تجویز یہ تھی کہ فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا جائے اور حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ان کے مطالبات کو پورا کرے۔
ان مطالبات میں سنہ 2014 میں ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کمیشن بنانے اور دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ تاہم پی ٹی آئی کی قیادت اس پر متفق نہ ہوئی اور انھوں نے پہلے آبپارہ اور پھر ڈی چوک پر دھرنا دے دیا تاہم پی ٹی آئی حکومت گرانے اور اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
رواں سال اپریل میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے پی ٹی آئی ایک مرتبہ پھر حکومت کے خلاف سڑکوں پر موجود ہے۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے تازہ ترین مارچ کے لیے اسلام آباد کی انتظامیہ کی طرف سے اجازت نہ ملنے کے بعد فیض آباد کے مقام پر دھرنا دینے کے لیے راولپنڈی میں سڑک بند کر دی ہے جس کے بعد وفاقی دارالحکومت کے داخلی اور خارجی راستے بند ہو چکے ہیں۔
پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی ہی حکومت ہونے کے باوجود ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کی قیادت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ جلسے یا دھرنے کے لیے کسی اور جگہ کا تعین کریں۔
اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نےابھی تک پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے ہیلی کاپٹر کو بھی پریڈ گراؤنڈ میں لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
’مطالبات منوانے کا آسان طریقہ‘
صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ ’سیاسی جماعتوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے آسان طریقہ ڈھونڈ لیا ہے کہ اور وہ یہ ہے کہ فیض آباد انٹرچینج کو بند کر دو تو اس سے جڑواں شہروں کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں آمدورفت رک جائے گی جس کا اقتصادی طور پر ملک کو نقصان ہوتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب فیض آباد انٹرچینج بند ہو جائے تو گاڑیوں کی لمبی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید احتجاج کرنے والی جماعت کو عوام کی بڑی حمایت حاصل ہے۔‘
سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ ’دو ہفتے قبل پی ٹی آئی کے کارکنوں نے عمران خان پر حملے کا مقدمہ درج نہ ہونے کی بنا پر موٹر وے سمیت متعدد شاہراوں کو مختلف مقامات پر بند کیا تھا تو عوام کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا جس کے بعد ان شاہراوں سے دھرنا ختم کر دیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کا فیض آباد یا راولپنڈی میں دھرنا دینے کا مقصد فوج کی اہم تعیناتیوں سے قبل حکومت کو دباؤ میں لانا تھا جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔‘