ناظم جوکھیو کا قتل پاکستان اپنی خارجہ پالیسی

ناظم جوکھیو کا قتل پاکستان اپنی خارجہ پالیسی

ناظم جوکھیو کا قتل پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں تلور کے شکار کو اتنی اہمیت کیوں دیتا ہے؟

معافی وہ مانگیں جن کی غلطی ہے۔ میری غلطی نہیں۔ میرا اللہ سائیں گواہ ہے۔ اگر مجھے کچھ ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے جو مجھے دھمکا رہے ہیں۔‘

یہ بیان 27 برس کے ناظم جوکھیو کا ہے جو انھوں نے اپنے مرنے سے ایک روز قبل ویڈیو پر ریکارڈ کر کے اپنے فیس بُک پر ڈالا تھا۔

اس بیان کو ریکارڈ کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے ناظم نے ویڈیو میں بتایا کے ان کا ایک غیر ملکی قافلے سے گاؤں کے اندر تلور کا شکار کرنے پر جھگڑا ہوا اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ ناظم نے اس واقعے کی ویڈیو بنائی جس پر بعد میں ان کے بقول انھیں اسے ڈیلیٹ کرنے کے لیے دھمکیاں دی گئیں۔

جن لوگوں سے ناظم کا جھگڑا ہوا وہ ایک عرب شیخ کے قافلے کا حصہ تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کے مہمان تھے۔

بات بگڑنے سے بچانے کے لیے ناظم کے بھائی افضل جوکھیو انھیں وڈیرے کے فارم ہاؤس پر لے گئے جہاں یہ غیر ملکی مہمان بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔

’میں نے اسے کہا کہ تمھیں ایک دو تھپڑ ماریں گے تو تم خاموشی سے کھا لینا اور معافی مانگ لینا۔‘

افضل نے کہا کہ فارم ہاؤس پہنچنے پر انھیں اپنے بھائی کو وہیں چھوڑنے اور صبح آنے کا کہا گیا۔ ’میں صبح پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ تمہارا بھائی ایکسپائر ہو گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘

کچھ دیر بعد پولیس نے اسی فارم ہاؤس سے ناظم کی تشدد زدہ لاش برآمد کی۔ اس وقت ناظم کے قتل کا معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے اور صوبہ سندھ کے بیشتر حصوں میں باعثِ احتجاج ہے۔

ناظم جوکھیو کے قتل کے بعد پاکستان کی تلور ڈپلومیسی ایک بار پھر زیرِ بحث ہے۔

صوبائی وزیر جام اویس
جن لوگوں سے ناظم کا جھگڑا ہوا وہ ایک عرب شیخ کے قافلے کا حصہ تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کے مہمان تھے

خارجہ پالیسی میں تلور کے شکار کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟

اسی اور نوے کی دہائی میں بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں تلور کے شکار کے لیے آئے شاہی خاندان کے قافلوں پر بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے حملے کیے گئے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے احتجاج ریکارڈ کرانے کے ساتھ ساتھ تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے اور اس دوران زیادہ تر سوالوں کا رُخ اسی طرف ہے کہ آخر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں تلور کے شکار کو اتنی اہمیت کیوں دیتا ہے؟

اس کے بارے میں متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سابق سفیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بات ایک کھیل یا شوق کو بطور خیر سگالی پاکستان پروموٹ کرتا ہے کیونکہ انڈیا کی طرح ہمارے پاس نائٹ کلب نہیں جہاں ہم ان خلیجی ممالک سے آئے شاہی خاندان کے ارکان کو لے جائیں۔‘

’اس لیے تلور کے شکار کو پروموٹ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ عرب ثقافت کا حصہ ہے اور پاکستان اور ان ممالک کے درمیان تعلقات بہتر رکھنے کا ایک طریقہ بھی ہے۔‘

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس سابق سفیر نے کہا کہ ’سندھ اور بلوچستان میں شکار کی جگہوں کو الاٹ کرنا ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے۔ بہت سوچ سمجھ کر اس کا تعین کرنا پڑتا ہے اور پاکستان کی کوشش رہی ہے کہ اپنے مہمانوں کے لیے بہتر سے بہتر انتظامات کیے جائیں۔‘

اس شکار کی اہمیت اور خارجہ پالیسی سے تعلق کا اندازہ ایک اور واقعے سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ صحافی سٹیو کول اپنی کتاب ’گھوسٹ وارز‘ میں لکھتے ہیں کہ فروری 1999 میں ایک اماراتی شیخ تلور کے شکار کے لیے اپنے قافلے سمیت جنوبی افغانستان پہنچے۔ اسی دوران امریکہ کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی یعنی سی آئی اے کو پتا چلا کے اماراتی شیخ کے اس قافلے میں امریکہ کو مطلوب القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن بھی شامل ہیں اور شیخ کے کیمپ میں قیام کر رہے ہیں۔

سٹیو کول لکھتے ہیں کہ ’ایجنسی نے اسی وقت کروُز میزائل کے ذریعے اسامہ بن لادن کو مارنے کا پلان تیار کیا لیکن اماراتی شیخ کی موجودگی کی وجہ سے یہ پلان روکنا پڑا یعنی سفارتی تعلقات خراب نہ کرنے کی خاطر امریکہ نے اپنے سب سے مطلوب ٹارگٹ کو بھی ہاتھ سے جانے دیا۔‘

’اس خیمے پر میزائل پھینکنے سے نہ صرف یہ کیمپ بلکہ امریکہ کی خلیجی ممالک کے ساتھ خارجہ پالیسی بھی تباہ ہو جاتی۔‘

تلور کا شکار، عربی

بظاہر معصوم سا لگنے والا یہ تلور خلیجی ممالک سے آنے والے عرب شیخوں کے لیے خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے شکار کو جہاں مشرق وسطیٰ کے شاہی خاندان ایک کھیل اور شوق کے طور پر دیکھتے ہیں، وہیں یہ تاثر بھی عام ہے کہ اس کا گوشت شہوت انگیز ہوتا ہے حالانکہ اس تاثر کا کسی سائنسی تحقیق سے تعلق نہیں۔

پاکستان عرب شیخوں کے اس شوق کو جاری رکھنے کے لیے ہر سال پرمِٹ جاری کرتا ہے جس میں قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین سے عرب شیخ پاکستان پہنچتے ہیں۔

رواں سال اکتوبر میں بھی وزارتِ خارجہ کی طرف سے صرف ابوظہبی سے شاہی خاندان کے 11 ارکان کو پاکستان کے سندھ، پنجاب اور بلوچستان صوبوں میں شکار کے لیے پرمٹ جاری کیے گئے۔ شاہی خاندان کے یہ رکن نومبر سے فروری کے دوران پاکستان میں تلور کے شکار کے لیے آئیں گے جیسا وہ ہر سال کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ شاہی خاندان کے ساتھ آنے والے باز کے پرمِٹ کی فیس بھی پہلے سے طے ہوتی ہے یعنی فی باز ایک ہزار ڈالر فیس طلب کی جاتی ہے۔ اسی باز کی ٹریننگ کے لیے کبوتر کو باز کے آگے اڑا کر اس باز کی تیزی کو پرکھا جاتا ہے کہ وہ کتنی جلدی کبوتر کو دبوچ سکتا ہے اور باز کی اس ٹریننگ کے لیے خاص طور سے مقامی لوگوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے۔

’شاہی خاندانوں کا شکار کے دوران سیاسی گفتگو سے اجتناب‘

محکمہ وائلڈ لائف سے منسلک ایک افسر نے بتایا کہ ’ہم چاہیں بھی تو یہ سلسلہ نہیں روکا جا سکتا کیونکہ یہ پاکستان کی جانب سے خلیج میں اپنے تعلقات بنائے رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔‘

’اس میں ایک فرق واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت دو طریقوں سے پاکستان میں تلور کے شکار پر شاہی خاندان کے رکن آتے ہیں۔ ایک حکومت کے ذریعے دیے جانے والے دعوت ناموں پر اور دوسرا ذاتی طریقے سے وڈیروں اور دوستوں کے ساتھ روابط ہونے کی بنیاد پر۔‘

تلور

ایک مشہور قصہ پاکستان کے سابق فوجی آمر ضیا الحق سے منسلک ہے جہاں انھوں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر چاغی میں آئے ایک سعودی وزیر سے ملاقات کے لیے وقت نکالا جبکہ اس سعودی وزیر نے تمام تر پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے ان سے سرد مہری کا سلوک روا رکھا۔

ضیا الحق سعودی وزیر سے مل کر ایک واقعے کے بعد آنے والے سعودی ردِ عمل کو سنبھالنا چاہ رہے تھے کیونکہ سعودی وزیر کے شکار پر آئے دورے کے دوران ڈیرہ بگٹی ضلع میں شکار پر آئے ہوئے ایک اور سعودی گروپ پر چند افراد نے حملہ کر دیا تھا لیکن سعودی وزیر صدر کے دفتر سے کی جانے والی متعدد فون کالز نہیں اٹھا رہے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق سیکریٹری بلوچستان احمد بخش لہڑی نے بتایا کہ ’اس سے ایک اندازہ یہ بھی ہوتا ہے کہ زیادہ تر خلیجی ممالک سے آنے والے شاہی خاندان کے ارکان ان دوروں کے دوران سیاسی گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ ایسا نہ کرنے کے پیچھے بنیادی وجہ کسی قسم کے تنازع کو جنم دینے سے روکنا ہے۔‘

انھوں نے یہ قصہ اپنی کتاب ’آن دی مڈ ٹریک‘ میں بھی لکھا ہے جو ان کی یادداشتوں پر مبنی ہے۔

تلور کے شکار کی تاریخ اور تنقید

اگر تاریخ دیکھیں تو زیادہ تر محققین پاکستان میں تلور کے شکار کی باقاعدہ شروعات سنہ 1973 سے گنتے ہیں۔

1970 کی دہائی سے باقاعدہ طور پر تلور کے شکار کے لیے خلیجی ممالک سے عرب شیخ اور حکمران خاندانوں کو بلانا شروع کر دیا تھا۔ ان دوروں کو نجی دورے کا نام دیا گیا، جسے پاکستان نے ان ممالک سے اپنے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے استعمال کیا۔

اسی دہائی میں خلیجی ممالک میں تیل کی پیداوار کے نتیجے میں دولت آئی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے عرب شیخ نجی دوروں کے لیے پاکستان آنے لگے۔

تو پھر پاکستان ان دوروں سے کیا حاصل کرتا ہے؟ خارجہ پالیسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ان دوروں کا صحیح طریقے سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہا ہے۔

ناظم جوکھیو کی اہلیہ
ناظم قتل کیس کے بعد اب تمام نظریں شکار کے اس پورے نظام پر جمی ہوئی ہیں

’صرف حکمرانوں کے ذاتی تعلقات استوار ہوتے ہیں‘

دفترِ خارجہ کے ایک سابق ترجمان نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’آپ دبئی اور پاکستان کا پچھلے 25 سال کا موازنہ کر لیں۔ سنہ 1994 میں دبئی میں ریت اور پانی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اوپر سے شدید گرمی رہتی تھی۔ اس وقت ہمیں فون پر خلیجی وزرا ہر ایک چیز کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے اور ان ذاتی تعلقات اور بہتر سفارتی پالیسی کی بنیاد پر دبئی کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور 25 سال بعد آپ دیکھ لیں کہ پاکستان کس نہج پر کھڑا ہے۔‘

سابق ترجمان نے بتایا کہ ’ہم نے کئی بار کوشش کی کہ اس پوری پریکٹس کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے کیونکہ اس سے ہماری خاصی تذلیل ہوتی ہے۔ عرب شہزادہ تمام وزرا کے سامنے اس کا خیال رکھنے والوں کو گھڑی دے جاتا ہے اور صرف ہر حکومت میں حکمرانوں کے ذاتی تعلقات استوار ہو جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو پاتا۔ ہماری مزاحمت بھی بیکار رہی اور کہا گیا کہ یہ سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا۔‘

’پاکستان شکار کی پالیسی سے فائدہ نہیں اٹھا رہا‘

بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق سربراہ ہارون شریف نے کہا کہ ‘یہ تمام دورے پاکستان کے سب سے پسماندہ علاقوں میں منعقد ہوتے ہیں۔ چاہے وہ سندھ ہو، پنجاب یا بلوچستان۔ تو اس اثر و رسوخ کو ان علاقوں کی ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو کہ پاکستان نہیں کر پا رہا ہے۔‘

اس کی ایک مثال رحیم یار خان میں شیخ زید ائیرپورٹ کی ہے جو وہاں کے لوگوں کے لیے شیخ زید نے تعمیر کروایا۔ لیکن اس واضح مثال کے علاوہ دیگر صوبوں میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ شکار کی یہ اجازت اس علاقے کی فلاح و بہود کے کام آ رہی ہے۔

مثال کے طور پر پسنی میں شیخ کی طرف سے تعمیر کروایا جانے والا سکول اب تک فعال نہیں ہو سکا ہے۔ جبکہ وہیں پاس میں لگایا گیا واٹر پمپ بھی ویسے کا ویسا ہی پڑا ہوا ہے۔ اسی طرح سندھ میں پوچھنے پر بھی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جہاں عوام کے لیے کوئی پانی کا پمپ، کوئی سڑک یا ہسپتال یا کلینک تعمیر کرایا گیا ہو۔

اس کے بارے میں جب عرب شاہی خاندان کے پاکستان میں منتظمین سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ‘شیخ سکول بنوا کر دے سکتے ہیں، اسے چلانا یا بند رکھنا یہاں کی حکومت کا کام ہے۔‘

دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان بھی ماضی میں تلور کے شکار پر پاکستان آنے والے عرب شیخ اور حکمران خاندانوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو
ناظم کے بھائی افضل جوکھیو کا کہنا ہے کہ ان پر زور ہے کہ وہ اس معاملے پر سمجھوتہ کر کے بات ختم کر دیں

سنہ 2016 میں تلور کے شکار پر پابندی اٹھائے جانے کے بعد اس کے بارے میں انھوں نے ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں کہا تھا کہ ’مجھے یقین نہیں آرہا کہ تلور کا شکار ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ستون بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ انڈیا اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘

لیکن اب انھی کے دورِ حکومت میں خلیجی ممالک کے رکن کا یہ چوتھا دورہ ہے۔

نومبر 2020 میں بھی وزیرِ اعظم نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ ’بحرین اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے زور دیا جا رہا ہے۔‘ تاہم انھوں نے بعد میں کئی بیانات میں اپنے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک فلسطین کے معاملے کا منصفانہ حل نہیں نکل جاتا۔‘

اسی سلسلے میں رواں سال فروری میں جب متحدہ عرب امارات اور ابوظہبی سے شاہی خاندان کے فرد شکار کے لیے پاکستان پہنچے تو پاکستان میں یہی چرچا رہا کہ شکار پر آئے شاہی خاندان کہ رکن پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کروانے کے بارے میں ضرور بات کریں گے لیکن ایسی کوئی بات منظرِ عام پر نہیں آئی۔

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے کئی بار رابطہ کرنے پر بھی حکومتی پالیسی کے بارے میں بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں مل سکا۔

جبکہ ناظم قتل کیس کے بعد اب جہاں تمام نظریں شکار کے اس پورے نظام پر جمی ہوئی ہیں اور لوگوں کے احتجاج میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں ناظم کے بھائی افضل جوکھیو کا کہنا ہے کہ ان پر زور ہے کہ وہ اس معاملے پر سمجھوتہ کر کے بات ختم کر دیں۔

تاہم اب یہ معاملہ تلور کے شکار سے بڑھ کر عام لوگوں کی زندگیوں تک پہنچ چکا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *