نازیہ حسن وہ سکول یونیفارم پہنے مائیک پر کھڑی ہوئیں اور برصغیر میں موسیقی کی شکل بدل دی
یہ تحریر بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر پہلی مرتبہ گذشتہ برس اگست میں شائع کی گئی تھی، جسے آج قارئیں کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔
زینت امان سے اپنی بیٹی کا تعارف کرواتے ہوئے منیزہ بصیر حسن کے ذہن میں شاید یہ خیال بھی نہیں آیا ہو گا کہ ان کے ڈرائنگ روم میں رکھے گٹار میں اپنے وقت کی اس مشہور اداکارہ کی دلچسپی ان کی بیٹی کے مستقبل کا فیصلہ کر دے گی۔
زینت امان لندن میں منیزہ کے گھر آئیں تو گٹار دیکھ کر ان کا سوال تھا کہ ’یہ کون بجاتا ہے۔‘ منیزہ کے مطابق میں نے انھیں بتایا کہ میرے دونوں بچے نازیہ اور زوہیب موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ نازیہ گھر پر ہی تھیں، انھوں نے جب گانا سُنایا تو زینت بہت خوش ہوئیں اور کہا کہ ’نازیہ بہت عمدہ گاتی ہے، اِس کی آواز منفرد ہے۔‘
منیزہ کے مطابق ’اگلے دن زینت امان نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میرے پروڈیوسر فیروز خان ایک فلم بنا رہے ہیں جس کے لیے انھیں ایک نئی آواز کی تلاش ہے اور مجھے لگتا ہے کہ انھیں نازیہ جیسی آواز کی تلاش ہے۔ میرے انکار کے باوجود زینت امان نے اصرار کیا تو میں نے سوچا نازیہ کے والد سے بات کرتی ہوں۔ نازیہ کے والد اور ان کا خاندان روایت پسند ہے، مجھے انھیں راضی کرنے کے لیے تھوڑی بحث کرنا پڑی۔ ہمارے گھر کا ماحول ایسا رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ نازیہ سکول یونیفارم میں تھیں، آدھی چھٹی کے بعد بدو کے ریکارڈنگ سٹوڈیو میں گئی تھیں۔ اس نے اسی وقت گاناریکارڈ کرایا جس کے بول تھے ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے، تو بات بن جائے‘ اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔‘
یہ گیت نازیہ حسن نے انڈین اداکار اور ہدایتکار فیروز خان کی فلم ’قربانی‘ کے لیے گایا تھا جس کے میوزک ایرینجر بدو تھے جنھوں نے اس گیت کا آئیڈیا جزوی طور پر امریکی گلوکار لو راولس کے مشہور زمانہ گیت ’یو ول نیور فائنڈ‘ سے مستعار لیا تھا۔
اس فلم کے دیگر تمام گیت انڈیا کے مشہور موسیقار کلیان جی، آنند جی نے آشا بھوسلے، محمد رفیع اور دوسرے مشہور گلوکاروں سے گوائے تھے مگر سنہ 1980 میں بہترین گلوکارہ کا ایوارڈ نازیہ حسن کے حصے میں آیا۔
15 سال کی عمر میں فلم فیئر ایوارڈ
منیزہ بصیر حسن بتاتی ہیں کہ ’اس گانے کی ریکارڈنگ کے بعد نازیہ اپنی تعلیم میں مصروف ہو گئی تھیں اور انھیں یہ یاد بھی نہیں رہا تھا کہ اس نے کسی انڈین فلم میں کوئی گانا گایا ہے۔ فلم ریلیز ہوئی تو گانا مشہور ہو گیا تب ایک دن راج کپور کا فون آیا اور انھوں نے بتایا کہ فلم فیئر ایوارڈ کی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال بہترین گلوکارہ کا ایوارڈ نازیہ کو دیا جائے، کیا آپ لوگ یہ ایوارڈ وصول کرنے آ سکتے ہیں؟‘
نازیہ حسن نے جس عمر میں بہترین گلوکارہ کا فلم فیئر حاصل کیا تھا یہ اس ایوارڈ کی 66 سالہ تاریخ میں دوبارہ نہیں ہوا۔ نازیہ حسن ممبئی کے جس ہوٹل میں قیام پذیر تھیں وہاں انڈین میڈیا کے نمائندوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
یہ ایوارڈ نازیہ کو راج کپور کے ہاتھوں ہی ملا تھا اور پھر بالی وڈ میں ’شو مین‘ کہلانے والے راج کپور سمیت فلمی صنعت کے ہر کامیاب پروڈکشن ہاؤس نے نازیہ حسن کو ’بلینک چیک‘ کے ساتھ فلموں میں بطور ہیروئن کام کے لیے کئی آفرز بھی کیں لیکن جواب انکار کی شکل میں ملا۔
وجہ یہ تھی کہ نازیہ حسن کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جہاں شوبز اور گلیمر کو بُرا تو نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اسے تعلیم و تربیت سے بڑھ کر ’حتمی منزل‘ بھی خیال نہیں کیا جاتا تھا۔
سینیئر اداکارہ بے بی تبسم سے نازیہ حسن کا ٹی وی انٹرویو ان کی شخصیت کا بہترین ’ٹریلر‘ ہے۔
مذکورہ انٹرویو میں نازیہ حسن کے خاندانی پس منظر، تعلیم و تربیت اور ان کی شخصیت میں پائی جانے والی متانت اور اعتماد کا مکمل اظہار دکھائی دیتا ہے۔ میزبان کے شرارتی سوال سُن کر نازیہ شرما رہی تھیں، وہ سوال کا انتہائی مختصر لیکن صاف اور سیدھا جواب دے رہی تھیں۔
میزبان پوچھتی ہیں ’انٹرویو کی شروعات میں کیوں نہ ہم آپ کی خالص اور شدھ آواز میں وہ گانا سُن لیں، سازوں کے بغیر جس نے تہلکہ مچا دیا ہے۔‘ اس پر نازیہ کا روشن چہرہ ٹی وی سکرین پر نمودار ہوتا ہے، نازیہ کی بڑی بڑی آنکھوں میں سوال ہے اور وہ تصدیق کے لیے پوچھتی ہیں ’آپ جیسا کوئی‘ اور پھر پورے دھیان سے تھوڑا سا گاتی ہیں۔
اگلا سوال کچھ یوں تھا کہ ’نازیہ! آپ میں نسوانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، میں آپ کو دیکھ رہی تھی تو میرے ذہن میں خیال آ رہا تھا کہ جیسے آپ کی آواز میں لوچ ہے اور اپ کے انگ انگ میں ردہم پھوٹ رہا ہوتا ہے یوں لگتا ہے آپ نے ڈانس بھی سیکھا ہے؟ اس پر نازیہ کہتی ہیں، نہیں۔‘
میزبان شرارتی انداز میں پوچھتی ہیں ’تو یہ سب کارستانی بغیر سیکھے ہوئے آ گئی ہے؟‘ اس بات پر نازیہ ’کارستانی‘ کے لفظ کو دہراتے ہوئے انھیں احساس دلاتی ہیں کہ یہ ترکیب مناسب نہیں ہے۔
میزبان اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میرا مطلب یہ تھا کہ آپ یہ سب قیامت سیکھے بغیر ہی ڈھا رہی ہیں۔ اگر یہ فنون سیکھ لیں گی تو پھر اور بہتری ہو گی، جواب میں نازیہ کہتی ہیں ’ابھی تو میں نے سیکھا نہیں ہے کیونکہ سکول کی پڑھائی سے وقت نہیں ملتا ،سکول یا کالج سے فارغ ہونے کے بعد دیکھوں گی۔‘
بے سہارا بچوں کا خیال
نازیہ نے امریکن سکول سے گریجوئیشن کرنے کے بعد لندن سے بزنس قوانین میں ڈگری حاصل کی۔
نازیہ حسن کے چھوٹے بھائی اور میوزک پارٹنر زوہیب حسن اپنی بہن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد نازیہ اقوام متحدہ کے مختلف منصوبوں کے لیے کام کرتی رہیں جن میں انھوں نے خواتین کے عالمی سربراہی منصوبہ اور سیاسی امور کے شعبہ میں اہم خدمات سرانجام دیں۔ وہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے لیے بچوں کے حقوق اور تعلیم کی برانڈ ایمبسڈر بھی رہیں۔
’وہ انتہائی ذہین، حساس اور اعلیٰ انسان تھیں جسے انسانوں کی محرومیوں خاص طور پر بے سہارا بچوں کا ہر وقت خیال رہتا تھا۔‘
ان کے مطابق ’جب وہ بہت چھوٹی تھیں تو اپنی سالگرہ منایا کرتی تھی لیکن جب 14 برس کی ہوئیں اور ماں نے حسب روایت اس کی سالگرہ منانے کے لیے تیاریاں شروع کرتے ہوئے اس سے پوچھا کہ لندن میں کن سہیلیوں کو دعوت دینا چاہو گی تب نازیہ نے کہا کہ ماں میں اب بچی نہیں ہوں جو سالگرہ مناؤں۔‘
’ماں بہت حیران ہوئیں اور انھوں نے کہا کہ تم ابھی 14 سال کی ہوئی ہو ،اپنے آپ کو اتنی بڑی کیوں سمجھ رہی ہو؟ نازیہ نے ماں سے پوچھا کہ جس طرح میں کہوں گی آپ میری سالگرہ اس طرح منائیں گی، ماں نے حامی بھری تو نازیہ نے کہا کہ یہ کیک اور میرے تمام تحفے بے سہارا بچوں کو دے دیں۔ پھر ایسا ہی ہوا جب تک نازیہ اس دنیا میں رہیں تو اس نے اپنی سالگرہ اسی طرح منائی۔‘
زوہیب بتاتے ہیں کہ ’سنہ 2000 میں نازیہ اس دنیا سے چلی گئیں اور تب سے ہم لندن، کراچی اور دنیا کے دوسرے مقامات پر نازیہ کی سالگرہ اس کے بتائے ہوئے طریقے سے ہی منا رہے ہیں۔‘
وہ میری بڑی بہن نہیں ’ماں‘ تھیں
زوہیب کا کہنا ہے کہ ’یوں تو نازیہ مجھ سے صرف ڈیڑھ سال بڑی تھی لیکن کبھی کبھی مجھے لگتا تھاکہ وہ میری بڑی بہن نہیں میری ماں تھیں۔ ماں بتاتی ہیں کہ نازیہ جب ڈھائی سال کی تھی تو نانی نے اسے سرخ جوتوں کا تحفہ دیا۔ یہ سرخ جوتے نازیہ کو بہت پسند تھے اور وہ ان جوتوں کو پہننے کی بجائے گود میں اٹھائے رکھتی تھی۔‘
’میں اس وقت ایک سال کا تھا اور بستر پر لیٹا ہوا تھا تو نازیہ میرے بستر کے اردگرد چکر کاٹتے ہوئے یہ چاہ رہی تھی کہ میں اٹھوں اور اس کے ساتھ کھیلوں۔ ظاہر ہے میں اتنی چھوٹی عمر میں نازیہ کی فرمائش پوری نہیں کر سکتا تھا تو اس نے وہ سرخ جوتے میرے بستر پر رکھتے ہوئے یہ چاہا کہ میں اپنی سب سے قیمتی چیز تمہیں دے دیتی ہوں اب تو اٹھو!‘
بڑی بہن کو یاد کرتے ہوئے زوہیب نے ایک اور واقعہ بھی سُنایا۔
ان کا کہنا تھا ’ایک مرتبہ ہم لندن میں کسی شاپنگ سینٹر میں تھے۔ اس وقت میں پانچ سال کا تھا اور نازیہ ساڑھے چھ برس کی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت نے مجھے ایک طرف دھکیل دیا اور میں ڈر کے مارے سہم گیا تھا۔ تب نازیہ نے اس خاتون سے کہا کہ اگرچہ آپ بوڑھی ہیں لیکن آپ میرے بھائی کو یوں دھکیل نہیں سکتیں۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی تھی۔‘
چودہ ممالک کے ٹاپ ٹین چارٹس پر نازیہ، زوہیب چھائے رہے
نازیہ اور زوہیب کی جوڑی جنوبی ایشیا میں جدید موسیقی کے انقلاب کا باعث بنی۔
یہ دونوں اس خطے میں پاپ میوزک کے بانیان میں شمار کیے جاتے ہیں۔ بہن بھائی کی اس جوڑی نے خطے میں نصف صدی سے رائج موسیقی کی روایت بدلی تھی۔ سنہ 1931 میں پہلی بولتی فلم ’عالم آرا‘ سے لے کر سنہ 1980 تک جتنے بھی تجربات کیے گئے تھے نازیہ حسن کی آواز اور اس کے ساتھ ساز بجانے کا تجربہ ایک خوبصورت اور منفرد میوزک ثابت ہوا۔
گلوکار جواد احمد کہتے ہیں کہ انڈیا میں ایس ڈی برمن اور کشور کمار کا گیت ’میرے سپنوں کی رانی‘ اور پاکستان میں ’کو کو کورینا‘ جسے سہیل رعنا نے احمد رشدی سے گوایا تھا، خطے میں پاپ میوزک کی شروعات قرار دیے جا سکتے ہیں لیکن نازیہ، زوہیب اور بدو نے اس خطے میں جاری میوزک کی روایت کو بدلا۔ تینوں نے جس انداز کی موسیقی دی اسے پرستاروں اور میڈیا نے ’نازیہ زوہیب پاپ میوزک‘ کا نام دیا۔
نازیہ اور زوہیب نے ایک ساتھ پانچ البم کیے جن میں پہلا ’ڈسکو دیوانے‘ تھا جو سنہ 1981 میں سامنے آیا ور اس میں دس گیت شامل تھے جو سب سپرہٹ ہوئے۔ نازیہ اور زوہیب کے اس پہلے البم کی ریلیز کے پہلے دن صرف ممبئی میں اس کی ایک لاکھ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔
’ڈسکو دیوانے‘ نے اپنی ریلیز کے 15 دن میں پلاٹینم ٹائٹل جیتا اور اس کے بعد یہ اعزاز تیسرے ہفتے میں ڈبل پلاٹنیم میں بدل گیا تھا۔ یہ البم 14 ممالک جن میں پاکستان، انڈیا، برازیل، روس، جنوبی افریقہ، فلپائن، ملائیشیا، انڈونیشیا، لاطینی امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، ویسٹ انڈیز اور امریکہ شامل ہیں، ٹاپ ٹین چارٹس پر پہلے نمبر پر رہا اور دنیا بھر میں اس کی ایک کروڑ چالیس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں جو اس وقت ایک ریکارڈ تھا۔
دونوں کا دوسرا البم ’بوم بوم‘ تھا اور وہ بھی سپرہٹ ریا تھا۔ اس کے بعد تیسرا البم آیا ’ینگ ترنگ‘ جبکہ چوتھا البم ’ہاٹ لائن‘ اور پانچواں البم سنہ 1992 میں ’کیمرہ کیمرہ ‘ آیا تھا۔
نازیہ اور زوہیب کے گیتوں کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں تو مشرقی موسیقی کی دنیا میں میوزک البم کے ساتھ ویڈیو بنانے کا رواج لازم و ملزوم ہوا اور پاکستان اور انڈیا سمیت ایشیائی نژاد امریکی اور برطانوی باشندوں کی جوان نسلوں نے یہ رجحان اپناتے ہوئے میوزک بینڈز بنائے۔
شاعری نازیہ کی اور دُھن زوہیب کی
نازیہ اور زوہیب سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ آپ کا میوزک خالص مغربی نہیں ہے اور اسے مشرقی بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، کیا آپ نے فیوژن کیا، اس پر نازیہ نے کہا تھا کہ ’ہم تو معصومیت کے ساتھ اپنے دل کی بات مان رہے تھے، دل سے اٹھنے والی آواز کو لوگوں تک پہنچا رہے تھے جسے پذیرائی ملی۔‘
دونوں سے جب پوچھا جاتا کہ آپ کام کیسے کرتے ہیں تو وہ کہتے تھے کہ ہم بھائی بہن تو ہیں ساتھ دوست بھی ہیں۔ ہم بحث کرتے ہیں، لڑتے ہیں اور اس طرح میوزک تیار کرتے ہیں۔‘
نازیہ اور زوہیب کی جوڑی میں شاعری نازیہ کا کام تھا اور دھنیں بنانا زوہیب کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ نازیہ بھی دھنیں بناتی تھیں لیکن زوہیب کے پاس ’ویٹو پاور‘ تھی یعنی وہ دھن کو مسترد یا قبول کرنے کا مینڈیٹ رکھتے تھے۔
نازیہ حسن کے پہلے استاد ’سہیل انکل‘
نازیہ حسن اپنی زندگی میں موسیقی کی طرف راغب ہونے کا کریڈٹ موسیقار سہیل رعنا کو دیتی تھیں۔ وہ بتاتی تھیں کہ کراچی ٹی وی سے سہیل رعنا بچوں کے لیے موسیقی کا پروگرام ’سنگ سنگ چلتے رہنا‘ کرتے تھے اور انھوں نے زوہیب کے ساتھ اسی ٹی وی شو سے گانا شروع کیا تھا۔
’ہم دونوں ان کی مستقل ٹیم میں شامل نہیں تھے لیکن جب لندن سے کراچی آتے تھے تو اس شو میں شامل ہو جایا کرتے تھے۔ منیزہ بصیر بتاتی ہیں کہ پہلی مرتبہ پروڈیوسر سلطانہ صدیقی نے نازیہ کو اس پروگرام میں بٹھایا تھا اور اس کے بعد زوہیب بھی پروگرام میں شامل ہو گئے تھے۔‘
سہیل رعنا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے نازیہ حسن کو یاد کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے۔ نازیہ سے جب میری پہلی ملاقات ہوئی تو اس وقت وہ چھ یا سات سال کی ہو گی ۔ وہ بہت ہی ذہین اور خوبصورت بچی تھی، میں اسے جو بھی دھن یاد کرواتا وہ اسے فوراً یاد کر لیتی، وہ میرے پروگرام میں شریک ان دو، تین بچوں میں شامل تھے جنھیں مرکزیت حاصل تھی۔‘
سہیل رعنا نے بتایا کہ ’نازیہ اور زوہیب کو میرے گیت ازبر تھے، دونوں خاص طور پر میرے دو گیت ’آ جا چاند نہ جا‘ اور ’گائے جا کوئل کو کو،کو کو‘ شوق سے گاتے تھے۔
’ایک انتہائی حسین روح جو دنیا میں آئی تھی‘
سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر جاوید جبار کا، جن کے نازیہ کے والدین سے قریبی تعلقات ہیں، کہنا ہے کہ اگر میں نازیہ کو یاد کروں تو میں یہ کہوں گا کہ وہ چھوٹی سی لڑکی جس کا دل بہت بڑا تھا۔
’وہ ایک بہت بڑے دماغ کی بھی مالک تھیں۔ وہ ایک بڑی آرٹسٹ تو تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم انسان بھی تھیں۔ وہ ایک انتہائی حسین روح تھی جو دنیا میں آئی تھی۔ اس میں جاننے اور سیکھنے کی صلاحیت تھی، اسے عالمی حالات سے دلچسپی تھی۔‘
’سب سے بڑھ کر وہ انسانوں کی بھلائی کے لیے بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتی تھی۔ اس نے اپنی مختصر زندگی میں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اسے بھلانا نہیں چاہیے اور اسے یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے مشن کو آگے بڑھانا چاہیے۔‘
’گولڈن وائس‘ کے لیے میرے پاس بھی ایک نام ہے ’ماں‘
نازیہ حسن زندگی کے آخری دنوں میں پھیپھڑوں کے کینسر کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔
جب وہ دنیا سے گئیں ان کا اکلوتا بیٹا عریض حسن صرف دو، ڈھائی سال کا تھا۔ عریض کا کہنا ہے کہ ان کے دل و دماغ میں ماں کی مدھم سی اِکا دُکا یادیں ہیں۔ ’وہ مجھے چڑیا گھر لے گئی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میری والدہ کو ’گولڈن وائس‘ اور ’پائینیئر آف پاپ میوزک‘ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے لیے میرے پاس بھی ایک نام ہے ’ماں‘۔ وہ میری ماں تھیں، میری ماں جب تک اس دنیا میں رہی اس نے انسانوں کی بھلائی کے متعلق سوچا بھی اور ان کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے کوشش بھی کی۔ یہ کوشش میں بھی جاری رکھوں گا۔‘