ملالہ یوسفزئی کا برطانوی فیشن میگزین ووگ کو انٹروی شادی اور پارٹنرشپ سے متعلق بیان پر گرما گرم بحث کیوں؟
نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کی جانب سے دیا گیا لگ بھگ ہر بیان ہی پاکستان میں موضوع بحث بن جاتا ہے مگر اُن کی جانب سے ووگ میگزین کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں شادی اور پارٹنرشپ سے متعلق بات چیت نے تو جیسے سوشل میڈیا پر ہنگامہ ہی برپا کر دیا۔
یہ خبر تو ہم آپ کو کل ہی دے چکے ہیں کہ ملالہ یوسفزئی برطانوی فیشن میگزین ووگ کے رواں برس جولائی میں آنے والے شمارے کے سرورق پر نظر آئیں گی۔
تاہم اب سوشل میڈیا پر صارفین جس بیان کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ ملالہ کی جانب سے شادی سے متعلق اُن کی ہچکچاہٹ کے بارے میں ہے۔
ووگ میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی زندگی کا ساتھی چاہیے تو آپ شادی کے کاغذات پر دستخط کیوں کرتے ہیں، یہ ایک پارٹنرشپ کیوں نہیں ہو سکتی؟‘
ملالہ کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر صارفین نے اپنی آرا کا اظہار کیا۔ بہت سے صارفین ایسے تھے جو اس گفتگو کے پس منظر اور اصل مطلب سے نا آشنائی کی بنا پر شدید تنقید کرتے نظر آئے اور یہ تنقید اتنی بڑھی کہ ملالہ کے والد ضیاالدین یوسفزئی کو بتانا پڑا کہ ان کی بیٹی کے انٹرویو کو سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا جا رہا ہے۔
کچھ صارفین نے تو اس بیان کو ’غیر اسلامی‘ تک قرار دے دیا تو دوسری جانب کچھ لوگ ملالہ کو ایک پیچیدہ موضوع پر اپنے دل کی بات کرنے پر سراہتے بھی دکھائی دیے۔ یہاں ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے شادی کے بغیر پارٹنر کے ساتھ رہنے سے متعلق قانونی نقطے بیان کیے اور بغیر کانٹریکٹ کے رشتوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے پر بھی بات کی گئی۔
اس موضوع پر صارفین معاشرے میں نکاح کی اہمیت اور اس کے باعث خواتین کو ملنے والے حقوق پر بھی بات کرتے دکھائی دیے تاہم دوسری جانب متعدد صارفین یہ وضاحت کرتے دکھائی دیے کہ ملالہ کے بیان کو صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں گیا۔
اس بیان کے حوالے سے ہونے والی بحث کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے خطیب مفتی پوپلزئی کی جانب سے بھی ایک ٹویٹ میں ملالہ کے والد ضیاالدین یوسفزئی سے اس بیان پر وضاحت مانگی گئی ہے۔
انھوں نے لکھا: ’کل سے سوشل میڈیا پرایک خبر زیر گردش ہے کہ آپ کی بیٹی ملالہ یوسفزئی نے رشتہ ازدواج کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شادی کرنے سے بہتر ہے کہ پارٹنرشپ کی جائے نہ کہ نکاح۔ اس بیان سے ہم سب شدید اضطراب میں مبتلا ہیں۔ آپ وضاحت فرمائیں۔‘
جس کے جواب میں ملالہ کے والد نے لکھا کہ ’محترم مفتی پو پلزئی صاحب، ایسی کوئی بات نہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے ان کے انٹرویو کے اقتباس کو سیاق و سباق سے نکال کر اور تبدیل کر کے اپنی تاویلات کے ساتھ شئیر کیا ہے۔ اور بس۔‘
ملالہ نے انٹرویو میں کیا کہا؟
تو سب سے پہلے ہم یہ جانتے ہیں کہ ملالہ نے اس انٹرویو میں ایسا کیا کہا تھا جو اتنا متنازع بن چکا ہے۔
یقیناً آپ بھی سوشل میڈیا پر ملالہ کی جانب سے انٹرویو میں دیا گیا ’متنازع بیان‘ تو پڑھ چکے ہوں گے لیکن شاید اس سے پہلے اور بعد میں کی گئی باتیں آپ کی نظر سے نہ گزری ہوں۔ اس لیے ہم آپ کو پہلے ملالہ کی جانب سے رومانوی رشتوں سے متعلق کی گئی باتوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔
ملالہ کی جانب سے ووگ میگزین کی سیرین کیل کو دیے گئے انٹرویو میں رومانوی رشتوں کے حوالے سے ابتدائی سوالات پر ملالہ شرما سی گئی تھیں اور کیل کے مطابق وہ انھیں مزید اذیت میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھیں، اس لیے انھوں نے گفتگو کا رُخ موڑ دیا۔
تاہم اس انٹرویو کے اختتام پر ملالہ نے خود سے ہی محبت اور رشتوں سے متعلق بات کرنا شروع کی۔ ملالہ نے بتایا کہ ’ان کے تمام دوستوں کو پارٹنرز مل رہے ہیں لیکن وہ اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر ہر کوئی اپنے رومانوی رشتوں کے بارے میں لکھتا ہے تو آپ پریشان ہو جاتے ہیں۔ آیا آپ کسی پر اعتبار بھی کر سکتے ہیں، اور یہ بات آپ کیسے یقینی بنا سکتے ہیں؟‘
ملالہ اپنے والدین کی شادی کو ارینجڈ محبت کا نام دیتی ہیں یعنی وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن اُن کے والدین کی مرضی کے مطابق یہ شادی ہوئی تاہم ملالہ خود یہ نہیں جانتیں کہ وہ کبھی شادی کریں گی بھی یا نہیں۔
’مجھے اب یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی زندگی کا ساتھی چاہیے تو آپ کو شادی کے کاغذات پر دستخط کیوں کرنے ہیں یہ ایک پارٹنرشپ کیوں نہیں ہو سکتی؟‘
ملالہ نے یہ بھی بتایا کہ اُن کی والدہ اُن کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتیں اور کہتی ہیں کہ ’تم آئندہ کبھی ایسی بات نہیں کرو گی، تم نے شادی کرنی ہے، شادی انتہائی خوبصورت رشتہ ہے۔‘
ادھر ان کے والد کو پاکستان سے لڑکے ای میل کے ذریعے ملالہ سے شادی کرنے کی پیشکش کرتے ہیں۔
ملالہ کہتی ہیں کہ ’یونیورسٹی کے دوسرے سال تک میں یہی سوچتی تھی کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گی، بچے پیدا نہیں کروں گی، صرف کام کروں گی۔ میں خوش رہوں گی اور ہمیشہ کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ رہوں گی لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ آپ ہر وقت ایک جیسے انسان نہیں رہتے۔ آپ میں تبدیلی آتی ہے اور آپ کی سوچ تبدیل ہوتی ہے۔‘
’بہترین شادی دراصل پارٹنرشپ ہوتی ہے‘
صحافی صباحت زکریا نے اس موضوع پر ملالہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’ملالہ ان منجمد ذہنوں کو ہلانے میں کامیاب ہوئی ہیں جو وہ سب کچھ مان لیتے ہیں جو انھیں یہ معاشرہ بتاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا: ’رشتے کیسے ہونے چاہییں یہ اپنے آپ میں ایک انتہائی دلچسپ موضوع ہے اور اس حوالے سے ملالہ کی تازگی سے بھرپور رائے جان کر بہت خوشی ہوئی۔ تمام اچھی شادیاں دراصل شراکت داریاں ہی ہوتی ہیں۔‘
شہباز تاثیر نے لکھا کہ آپ ایک طرف ’فلسطین آزاد کرو‘ کا نعرہ اور دوسری جانب طالبان کے ہاتھوں زخمی ہونے والی لڑکی کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتے۔
انھوں نے کہا ’ملالہ کی جانب سے نوجوانی میں شادی کے رشتے پر سوال کرنا اور یہ کہنا کہ وہ اپنے خاندان کو نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں ایک بیٹی کی جانب سے کی گئی انتہائی خوبصورت بات ہے۔‘
تاہم بانو نامی صارف نے ایک قانونی نقطہ اٹھاتے ہوئے ملالہ کے بیان کو ناقص قرار دیا۔
انھوں نے اس بارے میں ایک تھریڈ لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ میں خود شادی کے بغیر ساتھ رہنے والے رشتے کی جتنی حمایت کرتی ہوں، وہ اپنی جگہ لیکن میں پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ شادی ضروری نہیں کیونکہ اس کی قانونی اہمیت اپنی جگہ ہے۔
انھوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’زیادہ تر ممالک جیسے پاکستان میں پارٹنر کی کوئی اہمیت نہیں۔ شادی آپ کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے ایک قانونی راستہ دیتی ہے۔ برطانیہ میں بھی آپ کو ایک کانٹریکٹ پر دستخط کرنے ہوتے ہیں۔ ہمیں یہاں شادی کو دو افراد کے درمیان کانٹریکٹ کے طور پر دیکھنا ہو گا۔‘
’جہاں خواتین کو شادی کے دوران اور اس کے بعد حقوق نہیں دیے جاتے وہاں ایک بغیر کانٹریکٹ کے رشتے میں مرد کتنے ناجائز فائدے اٹھائیں گے۔‘
اس ضمن میں معراج حسن نے لکھا کہ بغیر شادی کے پارٹنرشپ کرنے کا فائدہ ان مردوں کو ہوتا ہے جو خواتین کے جسموں کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور کوئی ذمہ داری لیے بغیر یہ رشتے ختم کر دیتے ہیں۔
’شادی کو ڈیزائن ہی اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ان چیزوں کی روک تھام ہو سکے اور اس میں طلاق کے بعد خرچہ دینے اور حق مہر جیسی شرائط شامل ہوتی ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ مغرب میں عورت کو یہ سکیورٹی میسر نہیں۔‘
اکثر صارفین اس حوالے سے ملالہ کے بیان کو غیر اسلامی کہتے ہوئے بھی دکھائی دیے تاہم اس بارے میں ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر نے ملالہ کی حمایت میں ٹویٹ کرتے ہوئے ان افراد کو جواب دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’آج بھی بلوچستان و قبائلی علاقہ جات میں نکاح کی دعا پڑھائی جاتی ہے اور ہمارے بزرگوں کی زبان ہوتی ہے جو نکاح کی گواہی ہوتی ہے، کاغذ نہیں۔‘
اس حوالے سے اداکارہ متھیرا کے ایک بیان کا خوب چرچا ہوا جس میں انھوں نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ مجھے سرورق پر ان کی تصویر بہت پسند آئی ہے لیکن ہمیں اس نسل کو نکاح کی اہمیت اور سنت کے مطابق اس پر عمل کرنے کے بارے میں بتانا ہے۔
’یہ کوئی پلاٹ کی خریداری نہیں جس کے لیے آپ دستاویزات پر دستخط کر رہے ہیں بلکہ اس کا مطلب دعاؤں کے سائے میں نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’زبردستی کی شادی غلط ہے، کم عمری میں شادی غلط ہے اور پرتشدد رشتوں کی بھی مذمت کرنی چاہیے لیکن اللہ کی عافیت میں یہ رشتہ استوار کرنا بھی بہترین ہے۔‘
یہ بحث تو خیر شاید کبھی ختم نہ ہو لیکن اکثر صارفین اس میں مزاح اور طنز کا پہلو ڈھونڈتے بھی نظر آئے۔
صحافی ماریہ میمن نے لکھا کہ جتنی توانائی ہم ملالہ سے نفرت کرنے میں لگا دیتے ہیں اگر یہ توانائی بنانے میں صرف ہو تو پاکستان بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے خود کفیل ملک بن جائے۔
ایک صارف ارہم نے طنزاً لکھا کہ ملالہ نے ہمارے معاشرے کے سب سے محترم رشتے یعنی شادی کی تذلیل کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے (اپنی رائے کا اظہار کر کے) ہمارے ملک، ثقافت اور مذہب کی تذلیل کی ہے۔ ہم اس سے کیسے صحت یاب ہو سکیں گے؟ میرے والدین کے درمیان طلاق ہونے والی ہے۔
ووگ کے سرورق پر ردعمل
اس سے قبل ٹوئٹر پر ووگ میگزین کے جولائی میں آنے والے شمارے کے سرورق کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ملالہ نے لکھا: ’میں جانتی ہوں کہ ایک نوجوان لڑکی جس کا کوئی مشن، کوئی نظریہ ہو اس کے دل میں کتنی طاقت ہوتی ہے اور میں اُمید کرتی ہوں کہ جو بھی لڑکی یہ سرورق دیکھے گی اسے پتا ہو گا کہ وہ بھی دنیا کو بدل سکتی ہے۔‘
واضح رہے کہ یہ الفاظ ملالہ کے ووگ کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں سے ہیں جس میں انھوں نے اپنی فیملی، اپنے مستقبل اور ثقافتی طور پر اپنے لباس کی اہمیت پر بھی بات کی۔
ملالہ نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ’یہ لباس نمائندگی کرتا ہے کہ میں کہاں سے آئی ہوں۔‘
انھوں نے کہا ’مسلمان لڑکیاں یا پشتون لڑکیاں یا پاکستانی لڑکیاں، ہم جب اپنے روایتی لباس پہنتی ہیں تو ہمیں مظلوم یا بے آواز یا مردوں کی سرپرستی کے تحت زندگی گزارنے والا سمجھا جاتا ہے۔‘
’میں ہر ایک کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ اپنی ثقافت کے اندر اپنی آواز بن سکتے ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے ووگ کے سرورق کو پذیرائی بھی مل رہی ہے۔
بینا شاہ نے لکھا: ’زیادہ تر لوگ ووگ کے سرورق پر آنا اعزاز سمجھتے ہیں لیکن ملالہ کے معاملے میں، یہ ووگ کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔‘
برطانوی صحافی سیرین کالے نے لکھا: ’یہ ایک خواب تھا جو سچ ہو گیا۔ میں کبھی بھی ملالہ جیسی کسی اور شخصیت سے نہیں ملی۔‘
ایک اور صارف نے لکھا: ’ملالہ ہمیشہ کی طرح شلوار قمیض پہنے اور سر ڈھانپے ہوئے۔ یہ شاید ووگ کا اپنی نوعیت کا پہلا سر ورق ہے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا: ’ووگ کے سرورق پر ملالہ، یہ میری طرح کا گلیمر ہے۔‘
عمران منیر نے لکھا: ’یہ پاکستان کے لیے فخر کا لمحہ ہے۔ وہ اپنے ملک کی ثقافت کو پیش کر رہی ہیں۔‘
لیکن بات ملالہ کی ہو اور ان پر تنقید نہ کی جائے یہ کیسے ممکن ہے۔ کچھ صارفین جو بظاہر ملالہ کو پسند نہیں کرتے، نے ووگ کے سرورق پر ان کی تصویر پر سوال بھی اٹھائے۔
ایک صارف نے ملالہ کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا: ’آپ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے لیے آواز اٹھا سکتی تھیں لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ میری خواہش ہے کہ ہر وہ لڑکی جو اس سرورق کو دیکھے، وہ یہ جانتی ہو کہ آپ کے پاس تبدیلی لانے کا ایک موقع تھا لیکن آپ نے اپنے مقاصد کے لیے ایسا نہیں کیا۔‘
یاد رہے کہ ملالہ یوسفزئی کو اکتوبر 2012 میں طالبان کے قاتلانہ حملے کے بعد علاج کے لیے انگلینڈ منتقل کیا گیا تھا اور وہ صحت یاب ہونے کے بعد حصولِ تعلیم کے لیے وہیں مقیم ہیں۔
ملالہ نے گذشتہ برس آکسفرڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، سیاست اور معاشیات کی ڈگری مکمل کی ہے اور سنہ 2014 میں انھیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ وہ دنیا بھر میں اب تک کی سب سے کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ہیں۔
ملالہ تقریباً ایک دہائی سے لڑکیوں کی تعلیم کے مشن پر کام کر رہی ہیں۔