قازقستان کے حکام نے حالیہ دنوں میں ملک کی جغرافیائی خودمختاری اور سالمیت کے بارے میں بیانات دینے کے سلسلے کو تیز کر دیا ہے اور وہ بڑے شد و مد سے شہریوں کے اپنے مادر وطن کے دفاع کے حق کو جتا رہے ہیں۔
ان ہی خطوط پر تازہ بیان ملک کے صدر قاسم جومارٹ ٹوکائیونے کی طرف سے پانچ جنوری کو اخبارات میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ قازقستان کے لوگوں کو اپنی مقدس زمین اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملی ہے اور وہ ہر طریقے سے اس کا تحفظ کریں گے۔
یہ بیانات قازقستان کی علاقائی سرحدوں کے بارے میں تسلسل کے ساتھ کیے جانے والے دعوؤں کے ردعمل میں دیے جا رہے ہیں۔ گذشتہ سال دسمبر میں روس کے دو منتخب نمائندوں کی طرف سے قازقستان سے متعلق بیان دیا گیا تھا اور اس سے قبل اپریل میں چین کی ایک ویب سائٹ پر بھی اسی بارے ایک مضمون شائع کیا گیا تھا۔
ان دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ قازقستان ماضی ان کا حصہ رہا ہے اور وہ اسے دوبارہ اپنا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔
ن دونوں مواقعوں پر قازقستان کی حکومت نے چین اور روس کی حکومتوں کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
ماضی میں بھی وسطی ایشیائی ملکوں میں شامل اس ریاست کی سرحدوں کے بارے میں دعوے کیے جاتے رہے ہیں لیکن اس سے قبل قازقستان کے حکام نے کبھی اتنی شدت سے ان کا جواب نہیں دیا ہے۔
قازقستان کی حکومت کا چین اور روس سے تعلقات کے بارے میں رویہ بڑا محتاط رہا ہے اور وہ علاقے کے دونوں بڑے ملکوں چین اور روس سے معاشی، دفاعی اور تجارتی رابطوں کی وجہ سے کسی سفارتی تنازع میں الجھنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔
قازقستان کی طرف سے اپنے بڑے ہمسایہ ملکوں کے سامنے سر اٹھانے کی بڑی وجہ ملک میں بڑھتے ہوئے قومی جذبات ہیں اور چین اور روس سے میل جول میں قومی مفادات کا خیال رکھنے کے بارے میں حکومت پر بڑھتا ہوا اندرونی دباؤ ہے۔
تاہم حکومت کی طرف سے دیے جانے والے قوم پرستانہ بیانات کا مقصد بیرونی طاقتوں کو جواب دینے سے زیادہ اندورنی عناصر کو مطمئن کرنا ہے۔
قازقستان کے ایک سرکاری اخبار کی ویب سائٹ پر چھپنے والے ایک طویل مضمون میں قازقستان کے صدر قاسم جومارٹ ٹوکائیونے نے کہا کہ قازقستان کو عوامی اور سرکاری سطح پر قازقستان کی جغرافیائی سلامتی کے بارے میں بیرونی عناصر کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات کا بھرپور جواب دینا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ’سچ یہ ہے کہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہماری سرزمین کبھی کسی غیر ملکی کے زیر تسلط نہیں ہو گی اور کبھی فروخت نہیں کی جائے گی۔‘
انھوں نے اپنے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ قازقستان کی زبان پڑھیں اور قازقستان کی سویت یونین کے دور کی تاریخ پر تحقیق کریں۔
صدر قاسم ٹوکائیونے کے ان الفاظ میں ملک کے سابق صدر اور قومی رہنما نور سلطان نذربائیوف کی اس تقریر کی گونج سنائی دی جو انھوں نے گذشتہ سال پندرہ دسمبر کو کی تھی جس میں انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ’قازقستان کے باسی ہی وسطی ایشیا کے وسیع و عریض لق و دق میدانوں کے جائز وارث ہیں۔‘
ٹوکائیونے نے اپنے مضمون میں روس کا نام نہیں لیا اور نہ ہی نورسلطان نذربایوف نے اپنی تقریر میں ایسا کیا تھا۔
لیکن ان دونوں رہنماؤں کے بیانات کے وقت اور مواد سے یہ واضح تھا کہ ان کا اشارہ روس کے ایوان نمائندگان کے اراکین کی طرف سے قازقستان کی سرحدوں کے بارے میں کیے جانے والے دعوؤں کی طرف ہے۔
روسی پارلیمان کے دو ارکان اویچے سلاو نیکانف اور یاوگنی فیدورف نے دسمبر میں ملکی ذرائع ابلاغ پر آ کر یہ بیان دیا تھا کہ ماضی میں قازقستان کا کوئی وجود نہیں تھا اور اسے روس میں شامل کر لیا جانا چاہیے۔
ان متنازع دعوؤں کے جواب میں بظاہر ایک سوچے سمجھے رد عمل میں قازقستان کے منتخب ارکان اور حکومتی اہلکاروں نے روسی قانون سازوں کے خلاف سخت بیانات دیے۔
حکومت اور منتخب ارکان کی طرف سے روسی ارکان پارلیمان کے بیانات کے خلاف سخت ردعمل کو مقامی ذرائع ابلاغ اور عوامی حلقوں میں خوب سراہا گیا تھا۔
ایک سال کے عرصے میں یہ دوسرا موقع ہے کہ صدر ٹوکائیونے کے قومی مفادات کے دفاع میں دیے گئے بیانات کو ملک کے اندر خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ گذشتہ سال مئی میں انھوں نے کھلے بندوں روس کی سربراہی میں بنائے جانے والے ’یوریشین اکانومی یونین‘ نامی اتحاد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ان تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ اس اتحاد کا مقصد قازقستان سمیت خطے کے ملکوں کی خودمختاری کو محدود کرنا ہے۔
صدر کی طرف سے روس کے خلاف اس جرات مندانہ بیان کو قازقستان میں خوب حمایت حاصل ہوئی۔