غزہ میں غلطی سے ہلاک کیے جانے والے اسرائیلی یرغمالی سفید کپڑا تھامے، مدد کے لیے پُکار رہے تھے: اسرائیلی فوج
اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق غزہ میں آئی ڈی ایف نے غلطی سے جن تین اسرائیلی یرغمالیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا وہ اس دوران سفید کپڑے کا ٹکڑا لہرا رہے تھے۔
اسرائیلی عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ’ہمارے ضابطوں کے خلاف ہے‘ اور اس کی ’اعلیٰ سطح‘ پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
یرغمالیوں کی شناخت 28 سالہ یوتم ہیم، 22 سالہ سمیر تالکا اور 26 سالہ ایلون شمرز کے نام سے ہوئی ہے۔
غزہ شہر کے قریبی علاقے میں اسرائیلی فوجیوں کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
اس معاملے نے اسرائیلی حکام پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ غزہ میں موجود 120 سے زائد قیدیوں کی رہائی کے لیے جلد کسی معاہدے تک پہنچیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینیامن نیتن یاہو نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حماس کے خلاف جاری کارروائیوں میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہیں آئے گی۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’یرغمالیوں کی واپسی اور اس جنگ میں کامیابی دونوں کے لیے فوجی دباؤ نہایت ضروری ہے۔ اس فوجی دباؤ کے علاوہ۔۔۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘
تاہم حماس کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے لیے کوشش کرنے والے ثالثوں کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ ’اب یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اس وقت تک کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے جب تک غزہ کے لوگوں کے خلاف جاری یہ جارحیت ہمیشہ کے لیے بند نہیں ہو جاتی۔‘
اسرائیلی فوج کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ تینوں یرغمالی ایک عمارت سے بغیر شرٹ کے نکلے تھے اور ان میں سے ایک کے پاس ایسی چھڑی تھی کہ جس پر ایک سفید کپڑا بندھا ہوا تھا۔
افسر نے مزید بتایا کہ فوجیوں میں سے ایک نے خطرہ محسوس کیا، کیونکہ یہ افراد کافی فاصلے پر تھے، انھوں نے انھیں ’دہشت گرد‘ قرار دیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ ان تینوں میں سے دو تو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ تیسرا گولیاں لگنے سے زخمی ہو کر واپس عمارت میں چلا گیا۔
عبرانی زبان میں مدد کے لیے ایک پکار سُنی گئی جس پر بٹالین کمانڈر نے آئی ڈی ایف کے اہلکاروں کو گولی نہ چلانے کا حکم دیا۔ عہدیدار نے بتایا کہ زخمی حالت میں یرغمالی ایک مرتبہ پھر عمارت سے باہر نکلا جس پر دوبارہ گولیاں برسا دی گئیں، اور اسے ہلاک کر دیا گیا۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ یرغمالیوں کو یا تو ان کے اغوا کاروں نے چھوڑ دیا تھا یا وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
مارے جانے والے تین شہریوں کی لاشیں اسرائیل پہنچا دی گئی ہیں جہاں ان کی شناخت کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔
یوتم حمیم کو کبوتز کفار عزہ سے سات اکتوبر کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ وہ موسیقار تھے، جنھیں جانوروں سے پیار تھا اور اطالوی کھانے بنانا پسند تھے۔
حماس کے حملے والی صبح انھوں نے اپنے گھر والوں کو فون پر بتایا کہ ان کا گھر جل رہا ہے۔ جب یوتم نے تازہ ہوا کے لیے اپنے گھر کی کھڑکی کھولی تو انھیں حماس نے اغوا کر لیا۔
اپنے بیٹے کی موت سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یوتم حمیم کی ماں نے کہا تھا کہ رابطہ منقطع ہونے سے قبل انھوں نے ایک دوسرے سے فون پر پیغامات کا بھی تبادلہ کیا کیونکہ وہ گھر میں ہی چھپے ہوئے تھے۔
سمیر تلاکا جو کہ بدو ہیں کو کبوتز نیر ایم کے مقام سے اغوا کیا گیا تھا۔ وہ اسرائیلی قصبے ہرہ میں رہتے تھے جبکہ کبوتز میں مرغیوں کے فارم پر کام کرتے تھے۔ سات اکتوبر کی صبح وہ کام پر ہی تھے۔ حماس کے حملے کے بعد انھوں نے اپنی بہن کو فون کر کے بتایا کہ وہ گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے ہیں۔
ان کے والد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ان کا اپنے بیٹے سے مقامی وقت کے مطابقن حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے کی صبح سات بجے رابطہ منقطح ہو گیا۔
انھیں غزہ سے لے جانے کی ایک تصویر بھی ٹیلیگرام پر بھی شیئر کی گئی۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے ان کی موت کو ایک ’ناقابل برداشت سانحہ‘ قرار دیا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ ہلاکتیں ایک ’افسوسناک غلطی‘ تھیں اور یہ کہ امریکہ کے پاس ’اس کارروائی کے بارے میں بالکل واضح معلومات نہیں ہیں۔‘
علاقے میں ایس او ایس پیغام والی ایک عمارت ملی ہے اور حکام اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اس کا تعلق ہلاک ہونے والے یرغمالیوں سے ہے یا نہیں۔
دریں اثناء رہائی پانے والے تھائی یرغمالی ویچیان ٹیمتھونگ نے ان کے ساتھ گزارے گئے اپنے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ان کے پاس کوئی مشترکہ زبان نہیں تھی اس لیے وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرنے اور ایک دوسرے کی اخلاقی حمایت کرنے کے لیے اشاروں کی زبان کا استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ان افراد کی موت کے بارے میں جان کر ’صدمے کی حالت‘ اور ’افسردہ‘ ہیں، جن کے ساتھ انھوں نے تقریبا 50 دن حماس کی قید میں گزارے۔
رواں ماہ کے اوائل میں اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے ان کے اہل خانہ نے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈال رکھا ہے کہ وہ کم از کم کچھ قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک نئی جنگ بندی کا اعلان کریں۔ ابتدائی معاہدے کے نتیجے میں اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے بدلے 100 سے زائد یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔
تل ابیب میں ہزاروں افراد شہر کے میوزیم آف آرٹ کے باہر جمع ہوئے، جسے اب ہوسٹلز سکوائر کے نام سے جانا جاتا ہے، اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور ’انھیں اب گھر لے آؤ‘ کے نعرے لگائے۔
ناما وینبرگ، جن کے کزن ایٹائی سویرسکی یرغمال ہیں، نے کہا ’جو کچھ ہوا اُس نے ہمیں خوف کی ایک نا ختم ہونے والی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے، یرغمالی جو زندہ تھے اب مر چکے ہیں۔ ’ہمیں لاشوں یا بیگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت تک جنگ بندی کریں جب تک تمام یرغمالی زندہ واپس نہیں لوٹ آتے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمیں اُن یرغمالیوں کی تلاش رہتی ہے کہ جو یہاں سے گئے تو زندہ تھے مگر اب وہ مردہ واپس آ رہے ہیں۔
مقامی صحت حکام کے مطابق غزہ میں حماس کے حملوں کے جواب میں شروع کی جانے والی جنگ، جس میں اسرائیل میں تقریبا بارہ سو افراد ہلاک ہوئے تھے، 18 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، اور لاکھوں افراد کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔
علاقے میں ہر جانب تباہی کے مناظر ہیں اور اقوام متحدہ نے بنیادی اشیائے ضروریہ کی وسیع پیمانے پر قلت کے باعث ایک بڑے انسانی بحران کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد حماس کو تباہ کرنا اور یرغمالیوں کو رہا کرنا ہے۔
فلسطینی شہریوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے پیش نظر اسرائیلی حکام پر ملک کے اہم اتحادی امریکہ سمیت بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن انھوں نے جنگ بندی کے مطالبے کی مزاحمت کی ہے۔
اس کے برعکس نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’اپنے لوگوں کی ہلاکت کے شدید صدمے اور بین الاقوامی دباؤ کے باوجود، حماس کے خاتمے تک ہم یہ جنگ جاری رکھیں گے اور ایسا کرنے سے ہمیں دُنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔