عجب خان آفریدی اور انگریز لڑکی کے اغوا کی کہانی

عجب خان آفریدی اور انگریز لڑکی کے اغوا کی کہانی

عجب خان آفریدی اور انگریز لڑکی کے اغوا کی کہانی

یہ ایک معمول کی گوریلا لیکن خودکش کارروائی تھی جس میں شامل تین آفریدی جوان اور ان کے ایک پنجابی دوست کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ انگریزوں کے اس حصار سے بچ کر زندہ واپس بھی جاسکیں گے یا نہیں۔ ان چاروں کے سردار مقامی عسکریت پسند عجب خان آفریدی تھے جو کوہاٹ چھاؤنی کے اس بنگلے میں اس لیے آئے تھے کہ چند روز قبل اپنے گھر پر مردوں کی غیرموجودگی میں پڑنے والے چھاپے اور بے پردگی کا بدلہ لے سکیں۔

یہ گوریلا کارروائی درہ آدم خیل بوستی خیل کے افسانوی کردار عجب خان آفریدی اور ان کے تین ساتھیوں نے اٹھانوے سال قبل یعنی 1923 میں 13 اپریل کو خیبرپختونخوا اور اس وقت کے ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں کی تھی جہاں پر انگریزوں کی حکومت قائم تھی۔

22فروری 1923 کی کارروائی اور انگریز کا رد عمل

انگریز کو ایک چھاپہ مار کارروائی کے الزام میں عجب خان آفریدی کی تلاش تھی جو آس پاس کے علاقے میں انگریز سرکار کے خلاف کارروائیوں کی بدولت مقامی لوگوں میں شہرت حاصل کرتے جا رہے تھے اور انگریز انھیں ڈاکو کہہ کر پکارتے تھے۔

وہ انگریزوں کا اسلحہ لوٹنے کی وجہ سے سرکار کو بہت دنوں سے مطلوب تھے لیکن 22 فروری کو ایک کارروائی نے تو کوہاٹ چھاؤنی میں موجود انگریز فوج کے افسروں کو شدید شرمندگی سے دوچار کر دیا۔ اس حملے میں حملہ آور انگریز سرکار کے سپاہیوں کی تھری ناٹ تھری (303) قسم کی تقریباً (64) بندوقیں ساتھ لے گئے تھے۔

یہ اسلحہ انھوں نے انگریز کی چوکی سے لوٹا تھا جس پر انگریز سرکار نے مقامی روایات کو روندتے ہوئے پکی سڑک سے پرے قبائلی علاقے میں گھس کر خود کارروائی کی، حالانکہ انگریز قبائلی علاقے میں کوئی بھی ایسی کاروائی مقامی جرگے کے ذریعے یا ان کی منظوری سے کرنے کے پابند تھے۔

ہنڈی سائڈ کمانڈر فرنٹیئر کانسٹیبلری کی قیادت میں ایک دستے نے عجب خان کے گھر کا محاصرہ کیا اور وہاں گھسے تو عجب خان وہاں موجود تھے نا ہی ان کے بھائی شہزادہ خان۔

عجب خان آفریدی کے بیٹے حاجی نیک محمد جنھوں نے اپنے والد پر ایک کتاب بھی لکھی ہے، کے مطابق مقامی مخبروں کی اطلاع پر اس چھاپے کے دوران انگریز سرکار کی ٹیم نے ان کے گھر کے تہہ خانے سے اسلحہ بھی برآمد کیا اور اس کی بنیاد پر انہوں نے عجب خان آفریدی کے خلاف ایف آئی آر درج کی اور قانونی کارروائی کر کے انھیں اشتہاری قرار دے دیا۔

ماں کی قسم

اپنے گھر پر چھاپے کے اگلے روز عجب خان اور ان کے بھائی شہزادہ خان معمول کے مطابق گھر آئے تو انھیں انگریز کی کارروائی کا پتہ چلا اور انھوں نے اسے اپنی عزت اور قومی وقار کا مسئلہ بنا لیا۔ دونوں بھائیوں نے گھر کی عورتوں کی تمام باتیں خاموشی سے سُنیں اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ اب وہ گھر میں بدلہ لینے کے بعد ہی داخل ہوں گے۔ جانے سے پہلے ان کی ماں نے ان کو قسم دی کہ جب تک وہ اپنے گھر کی بے عزتی کا بدلہ نہ لیں واپس گھر نہ آئیں۔

ماں کی قسم کے بعد دونوں بھائی قریبی پہاڑوں میں رہنے لگے۔ وہ ادھر ادھر پھرتے ہوئے دیکھے جاتے تھے لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے دل میں کیا ہے۔ اس دوران وہ اپنے دو تین دوستوں کے ساتھ مل کر انگریز سے بدلہ لینے کے لیے تڑپتے رہے اور انھوں نے بدلے کے طور پر انگریز ملٹری کے میجر ایلس کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا۔

ان کے غیر تربیت یافتہ ہونے کے باوجود یہ کوئی ایسا ناقص منصوبہ بھی نہیں تھا کہ جسے جلدی میں تیار کیا گیا ہو بلکہ ان لوگوں نے چھاؤنی میں میجر ایلس کے گھر کی نگرانی شروع کر دی۔ اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ میجر ایلس کا وہ کُتا تھا جسے رات کو گھر کی نگرانی کے لیے کُھلا چھوڑا جاتا تھا۔ انھوں نے سب سے پہلے اس کا بندوبست کیا اور اسے خود سے مانوس کرنے اور دوست بنانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر گوشت کھلانے لگے۔ یوں ان کے حملے کی رات کتے کی نگرانی بھی میجر ایلس کے اہل خانہ کی کوئی مدد نہ کرسکی۔

خود کش حملہ

عجب

کوہاٹ چھاؤنی میں عجب خان کے ساتھ گھسنے والے درہ آدم خیل بوستی خیل کے ان تین آفریدی جوانوں عجب خان کے بھائی شہزادہ خان، دوست سلطان میر، گل اکبر اور پنجاب کے تلہ گنگ یا میانوالی سے آئے ان کے ساتھی حیدرشاہ کو زندہ واپس جانے کا کوئی یقین نہیں تھا۔

وہ چھاؤنی میں میجر ایلس کے گھر میں داخل ہوئے تاہم میجر ایلس کی قسمت اچھی تھی کہ وہ اس رات گھر میں موجود نہیں تھے۔

عجب خان اور ان کے بھائی شہزادہ نے ان کے گھر کی دیوار پھلانگی اور ان کے بیڈ روم میں داخل ہوئے تو وہاں مسز ایلس سے ان کی مڈھ بھیڑ ہوگئی جنھوں نے مزاحمت شروع کر دی۔ اندھیرے میں شہزادہ خان یہ سمجھے کہ یہ میجر ایلس ہیں جو مسلسل ان کے نرغے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے جس پر شہزادہ خان نے خنجر کے وار سے انھیں مار ڈالا۔

اسی دوران ان کو احساس ہوا کہ مارے جانے والا جسم مرد کا نہیں بلکہ خاتون کا تھا، سیٹیاں بجنے کی آواز کی وجہ سے گھر کے باہر انگریز سپاہی اور افسر جمع ہوچکے تھے اور اب ان مقامی جوانوں کو نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا کہ اچانک ان پر قسمت کی دیوی مہربان ہوگئی۔

انھیں گھر کے اندر ایک سترہ سالہ نوجوان لڑکی (مس مولی ایلس) مل گئی جو اپنی ماں کو گرتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔ تاہم ابھی اسے اپنی والدہ کے مرنے کی خبر تو نہیں ہوئی تھی اور وہ شدید گھبرائی ہوئی تھی۔ عجب خان اور ان کے ساتھیوں نے مولی ایلس کو ڈھال کے طور پر ساتھ رکھا اور انھیں لے کر انگریز سپاہیوں کا حصار توڑ کر نکل گئے۔

درہ آدم خیل بوستی خیل کا محل وقوع

پشاور اور کوہاٹ کے درمیان واقع اس علاقے کا نام درہ آدم خیل ہے۔ اس کے گاؤں بوستی خیل اور کوہاٹ میں انگریز سرکارکی چھاؤنی کے بیچ صرف ایک پہاڑی حائل تھی۔ یہاں کے رہنے والے آفریدی قبائل انگریز کے لیے درد سر تھے جو وقتاً فوقتاً انگریز سرکار کی چوکیوں پر حملے کرتے رہتے تھے۔ یہاں کے لوگوں خصوصاً عجب خان آفریدی کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ چھاؤنی یا گرد و نواح میں وار کر کے جلدی سے واپس اپنے علاقے میں آ جائیں۔

مِس مولی ایلس کی کہانی

اپنے عمر کے آخری حصے میں میڈیا کے مختلف اداروں کو اپنے اغوا کی کہانی کی بابت مس مولی ایلس نے کچھ یوں بتایا کہ ’اس دن میں معمول کے مطابق دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے اور کتابیں پڑھنے کے بعد گھر آئی جہاں پر کچھ وقت تک اپنی ماں کے ساتھ رہنے کے بعد میں نے پھر کتاب پڑھی اور اس کے بعد ہم سونے چلے گئے۔‘

’اس دوران مجھے نہیں معلوم کہ رات کے کس پہر شور سے میری آنکھ کھلی۔ مجھے اپنے کمرے میں دو مرد کھڑے نظر آئے۔ میری ماں ان کے ساتھ نبردآزما تھی اور وہ چاہ رہی تھیں کہ اپنے ہاتھ میں موجود سیٹی بجا سکیں۔ اس دوران ان دونوں مردوں میں سے ایک نے میری ماں کو قابو کرلیا اور میری ماں نے سیٹی میری جانب پھینک دی لیکن میں اسے نہ بجاسکی، پتہ نہیں اس وقت مجھے کیا ہوا تھا۔ اسی دوران میری ماں نے مزاحمت بند کر دی تو مجھے احساس ہوا کہ شاید وہ ان مردوں کے ہاتھوں شدید زخمی ہوچکی ہیں۔‘

عجب خان کے دوستوں کی زبانی

خیبر پر بنی ایک دستاویزی فلم میں عجب خان کے ایک دوست اس وقت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جب عجب خان انگریز لڑکی کو کوہاٹ چھاؤنی سے اغوا کر کے دوسرے دن اپنے علاقے میں لائے تھے ’ہمیں پتہ چلا کہ اس کے ساتھ سترہ سالہ انگریز لڑکی موجود ہے، جس کے لیے ہم نے دودھ اور بسکٹ دیے۔۔۔ بعد میں معلوم ہونے کے بعد انگریز سرکار نے ہمارے گاؤں پر چڑھائی کر دی اور ہم سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی۔ ہمارے لیے تو یہ سب آسان نہیں تھا لیکن کیا کرتے عجب خان ہمارا دوست تھا۔‘

عجب خان آفریدی کے فرزند نیک محمد کے انکشافات

عجب

پشاور میں اپنے گھر پر بی بی سی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عجب خان آفریدی کے بیٹے نیک محمد نے بتایا کہ مِس ایلس کا واقعہ تو ان کی کارروائیوں میں آخری کارروائی تھی۔ یہ واقعہ 1923 میں پیش آیا جبکہ ان کے مطابق ان کے والد 1919 سے انگریزوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے۔

وہ بتاتے ہیں ’تاہم مس ایلس کا واقعہ ہونے کے بعد انگریزوں نے ان کو مارنے کی ہر کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ ہاں انھیں جتنا بھی تنگ کیا گیا وہ ہمارے اپنے لوگوں کے ذریعے کیا گیا۔ ان کے اپنے ہمسائیوں، گاؤں کے لوگوں اور آفریدیوں نے ان کو تنگ کیا۔ انھوں نے انگریز سے رشوت لے کر عجب خان کو تنگ کیا، ان کو مراعات اور نوابیاں ملیں، خان صاحب کے لقب ملے اور عجب خان کے ساتھ اپنوں کے اس رویے کے اس معاملے پر تو کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اس میں بہت سے لوگوں نے فائدے لیا انگریز سے۔‘

والد کی سواری اوربندوق

نیک محمد بتاتے ہیں کہ ’چونکہ ہمارا خود کا تعلق اسلحہ سازی کے قدیم ترین مرکز درہ آدم خیل سے تھا تو والد مرحوم بھی یہیں پر تیار ہونے والی بندوق جسے تھری ناٹ تھری اور علاقائی زبان میں سرپوخ ٹوپک کہا جاتا تھا، استعمال کرتے تھے۔ یہ ایک حملے تک محدود کارروائیاں نہیں تھیں، بلکہ ایک لامتناہی سلسلہ تھا جس کے بعد ان کے پاس اسلحہ جمع ہوا۔‘

’اب پاکستانی فوج نے درہ آدم خیل کے چوک میں میرے والد کا پیتل کا مجسمہ لگایا ہے۔ تاہم اس چوک کو ان کے نام سے منسوب نہیں کیا بلکہ اسے ’شہیدوں کا چوک‘ کے نام سے منسوب کیا ہے، حالانکہ میرے والد شہید تو نہیں ہوئے تھے وہ تو غازی تھے۔ پھر بھی چوک کا نام تو ان کے نام سے منسوب نہیں۔ لیکن وہ گھوڑے پر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں جن کے کاندھے پر اب بھی ان کی وہی اپنی والی بندوق لٹکی ہوئی ہے۔ پھر بھی ہم خوش ہیں، جو بھی تھے پنجاب کے فوجی تھے، لیکن اپنے پختونوں نے میرے والد کی کوئی قدر نہیں کی۔‘

انگریز گاڑیوں اور گھوڑوں پر پھرتا تھا۔ عجب خان اور ان کے ساتھی درہ آدم خیل کی پہاڑیوں میں پیدل پھرتے، وار کرتے اور غائب ہو جاتے تھے۔ درہ آدم خیل کے گاؤں بوستی خیل اور کوہاٹ میں انگریزوں کی چھاؤنی کے بیچ صرف ایک پہاڑ تھا اس لیے وہ اس علاقے میں پیدل پھرتے تھے اور زیادہ بھی ہو تو انھیں کبھی گدھا کبھی خچر مل جاتا تھا۔

عجب خان آفریدی افغانستان کے صوبہ پکتیا بھی آتے جاتے تھے اور وہاں آباد زدران اور مینگل قبائل سے بھی ان کا تعارف ہوچکا تھا، جن کے ساتھ ان کی اسلحے کی تجارت بھی شروع ہوئی اور یہی وہ وقت تھا جب افغانستان میں غازی امان اللہ خان نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی جدوجہد شروع کریں تو ان کو اس وقت کے ہندوستان اور آج کے پاکستان کے اس علاقے میں ایک مرد حُر اور علاقے سے واقف بندے کی ضرورت پڑی اور ان کے لوگوں نے انھیں بتایا کہ عجب خان ہی ایسا بندہ ہے جس کی انھیں ضرورت ہے۔ امان اللہ خان نے عجب خان کو بُلایا۔ اس وقت نادر خان پکتیا میں ملٹری کمانڈر تھے جو بعد میں افغانستان کے حکمران بنے۔

مِسز ایلس کی سیٹیاں اورعورت پر ہاتھ اٹھانے کا جُرم

کیا قبائلی روایات میں عورت کو چھونا جُرم نہیں ہے؟ اس سوال کے جواب میں نیک محمد عرف غازی زوئے (غازی کے بیٹے) نے کہا ’یہ آپ نے بہت اچھا نکتہ اٹھایا ہے۔ میرے والد نے جب میجر ایلس کے گھر پر رات کی تاریکی میں حملہ کیا تو ان کا ہدف میجر ایلس تھے لیکن وہ وہاں موجود نہیں تھے اور ان کے کمرے میں ان کی اہلیہ سوئی ہوئی تھیں۔ رات کی تاریکی میں جب عجب خان اپنے بھائی شہزادہ خان کے ہمراہ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے تو مسز ایلس کی آنکھ کھل گئی جس نے فوری طور پر سیٹیاں بجانا شروع کر دیں تو میرے والد نے اپنے بھائی کو کہا کہ اس انگریز کو کسی بھی حالت میں خاموش کراؤ کیونکہ ان کی سیٹیاں باہر موجود فوجیوں کو مطلع کر رہی تھی۔ میرے چچا نے خنجر نکالا اور سیٹیاں بجانے والے انگریز کے سینے میں اتار دیا، اس دوران اس کے لمبے بال ان کے ہاتھ میں آئے اور انھوں نے عجب خان کو کہا کہ یہ تو کوئی عورت لگتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’ہمارے پاس واضح ثبوت موجود ہیں کہ مسز ایلس کے قتل کا واقعہ تاریکی کی وجہ سے پیش آیا۔‘

دوران حراست مس مولی ایلس کی عجب خان سے محبت

میجر ایلس کی بیٹی مولی ایلس سال 1983 میں ایک بار پھر پاکستان آئیں جہاں پر انھوں نے کوہاٹ میں انگریزوں کے قبرستان میں اپنی ماں کی قبر پر حاضری دی۔ اسی دوران انگلینڈ اور دیگر ملکوں کی میڈیا نے کچھ ایسی خبریں شائع کیں جن سے پتہ چلا کہ مولی ایلس دوران حراست اغوا کے دنوں میں عجب خان آفریدی کی محبت میں گرفتار ہوئی تھیں۔

اس سارے معاملے پر مولی ایلس کی جانب سے اغواکاروں کے اس گروہ کے لیے نرم جذبات کو جواز بنایا گیا، تاہم خود عجب خان آفریدی کے بیٹے نیک محمد نے اس حوالے سے کچھ یوں کہا:

’میرے والد میں چند ایسی خوبیاں تھیں جو شاید باقی فریڈم فائٹرز میں سب میں نہیں ہوں گی جیسے کہ مغوی کو پورے احترام سے رکھنا، خود ہی دیکھ لیں کہ 35 سال کا جوان عجب خان، 16 سالہ مس ایلس کو لے کر کئی دن تک پہاڑوں میں گھومتا رہا لیکن اس کی عزت کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ اور مس ایلس نے خود اعتراف کیا کہ عجب خان نے انھیں بہنوں کی طرح رکھا تھا۔‘

بنگلہ نمبر 36 یا آئی ایس ایس بی ہاؤس

عجب

عجب خان آفریدی اور ان کے دوستوں نے مس ایلس کو جس بنگلے سے اغوا کیا وہ آج بھی موجود ہے جس کا نمبر بنگلہ نمبر 36 ہے اور اب یہ کوہاٹ چھاؤنی میں فوج میں کمشن حاصل کرنے والے افسروں کی سلیکیشن کا مرکز یعنی آئی ایس ایس بی ہاؤس ہے۔

نیک محمد کے مطابق مس ایلس کو لے جانے لگے تو ان کے گھر میں موجود ایک میٹر کا قالین کا ایک ٹکڑا بھی اٹھایا گیا تاکہ پہاڑؤں میں کہیں رکیں تو یہ ان کو بٹھانے کے کام آ سکے۔ ان کے مطابق اپنے اہل خانہ کو اس واقعے کی روداد سناتے ہوئے عجب خان آفریدی نے بتایا تھا کہ مس ایلس کے ساتھ انگریزوں کے نرغے سے نکلنے کے بعد انھوں نے سارا دن پہاڑ کی چوٹی پر گزارا، انگریز انھیں ڈھونڈتے رہے لیکن چوٹی کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا۔

’شام ہوئی تو ہم نے پھر سفر شروع کیا۔ کبھی مس ایلس کو ایک بندہ اٹھاتا کبھی دوسرا اور سفر طے کرتے رہے۔ دوسرے دن ہم اپنے گاؤں پہنچے، جہاں پر ایک عورت نے ہمیں بتایا کہ گاؤں کے ارد گرد تو انگریز پھیلے ہوئے ہیں، ہر طرف نگرانی جاری ہے، یہاں سے نکلو۔‘

’گھر سے نکل کر مس ایلس کو لے کر ہم تیراہ پہنچے اور انھیں ایک معروف روحانی شخصیت محمود اخونزادہ کے پاس لے گئے، اس کے بعد انگریز کی جانب سے لڑکی کی حوالگی کے لیے جرگوں کا سلسلہ شروع ہوا اور مقامی عمائدین اور انگریز کے ایجنٹ بھی بڑی تعداد میں وہاں آئے۔ تمام قبائلی شاخوں کے اپنے اپنے جرگے کرنے والے وہاں آئے، جن میں قُلی خان، سلیم سیف اللہ خان کے والد اور نواب زمان خان کوکی خیل بھی آئے کہ لڑکی ہمارے حوالے کرو۔ لیکن عجب خان نے مس ایلس کو محمود اخونزادہ کے حوالے کیا۔!‘

تیراہ میں مس ایلس کی حوالگی کے لیے ایک طرف جرگہ جاری تھا اور دوسری جانب تین ہزار انگریز فوجیوں نے بوستی خیل میں عجب خان کے گھر کا گھیراؤ کیا اور اسے آگ لگا دی۔ جرگے میں عجب خان کے نمائندوں نے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک طرف جرگہ چل رہا ہے اور دوسری طرف ہمارے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ اس دوران محمود اخونزادہ نے عجب خان آفریدی سے کہا کہ اب جبکہ انگریز کی تمہارے گھر پر کارروائی کا بدلہ تم نے لے لیا ہے اور آپ کو اپنی ماں کی جانب سے دیا گیا حلف بھی پورا ہوگیا ہے تو اب آپ بس اس معاملے کو ختم کریں۔

تیراہ میں جرگہ کے دوران محمود اخونزادہ نے عجب خان سے کہا کہ اب اور کیا چاہیے۔ جس پر مس ایلس کی واپسی کا فیصلہ ہوا۔

انھیں کہا گیا کہ اب جب یہ سب ’ننواتے‘ کی رسم بھی پوری کرچکے ہیں یعنی پختونولی کے کوڈ کے مطابق آپ کے گھر میں آئے ہیں تو اب تو بس اس معاملے کو ختم کریں۔ آپ کا انتقام بھی پورا ہوچکا ہے۔

عجب خان آفریدی کی جاسوسی اور خاندان کی ہجرت

عجب

تاہم مس ایلس کے واپس ملنے کے بعد انگریز نے عجب خان کی جاسوسی شروع کی اور بہت سارے لوگ ان کے پیچھے لگے رہے، اس دوران ان کا پورا خاندان یہاں سے نکل کر افغانستان کے شہر جلال آباد چلا گیا اور وہاں پرموریا پہاڑ پر رہنے لگے۔

اس پہاڑی کے دونوں طرف افغانستان اور پاکستان میں شنواری قبائل آباد ہیں جنہیں جب احساس ہوا کہ عجب خان اور ان کے خاندان کو خطرہ درپیش ہے تو انھوں نے اعلان کیا کہ جس شخص نے بھی عجب خان کی جاسوسی کی تو اسے کچھ لاکھ جرمانہ اور گھر جلانے کی سزا ملے گی۔

اس بات نے عجب خان کو شنواریوں کا بہت بڑا معتقد بنا دیا۔ انگریز نے بہت کوشش کی کہ عجب خان کو ہرصورت گرفتار کرے تاہم افغانستان کے حاکم غازی امان اللہ خان نے انکار کر دیا جس پر انگریز نے کہا اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دو، یا اس کی آنکھیں نکال لو یا مار ڈالو تاکہ ان کا کام پورا ہوسکے۔ لیکن شنواریوں نے ایک نہیں مانی۔

مس ایلس کے واقعے کے بعد افغانستان میں روپوشی کے دوران بھی عجب خان انگریز کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے جس پر انگریزوں نے غازی امان اللہ خان سے شکایت کی کہ اب وہ افغانستان سے آکر کارروائیاں کرتے ہیں۔

عجب خان کے بیٹے کے مطابق اس کے بعد امان اللہ خان نے ان کے والد صاحب کو بلایا اور کہا کہ آپ ترکستان چلے جائیں وہاں پر آپ کو مراعات اور گورنری دے دیں گے لیکن وہ نہ مانے اور کہا کہ اللہ نے آپ کو جو بادشاہی دی ہے افغانستان کی میں اسی میں رہوں گا۔ غازی امان اللہ خان نے انھیں کہا کہ آپ یہاں سے نہیں جائیں گے تو ہم آپ کو طاقت کے بل پر بھیج دیں گے جس پر ’میرے والد مسکرائے اور کہا کہ آپ کی طاقت کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا‘۔

عجب خان کے بیٹے نیک محمد کے مطابق غازی امان اللہ خان نے ان کے خاندان کو مزار شریف میں چار پانچ ہزار جریب زمین دی اور اس علاقے کا نام غازیانو قلعہ (غازیوں کا قلعہ) کے نام سے منسوب کیا۔ یہ علاقہ مزار شریف میں مشہور روحانی بزرگ سخی صاحب کے مزار سے ڈیڑھ کلومیٹر کی دوری پر ہے اور اب ’ہمارا سب کچھ وہاں ہے، پورا خاندان وہاں ہے صرف میں یہاں پاکستان آیا ہوں۔ غازی امان اللہ خان نے ہمیں نہ صرف زمین اور جائیداد دی بلکہ مواجب یعنی ماہانہ خرچے کے نام پر سات سو بیس افغانی بھی مقرر کیے‘۔

نیک محمد المعروف غازی زوئے یعنی غازی کا بیٹا کہتے ہیں کہ پاکستان بننے تک ’میرے والد کو یہاں نہیں آنے دیا گیا۔ سارا خاندان وہیں پر رہ گیا اور آخرکار سال 1961 میں عجب خان وہیں مزار شریف میں دفن ہوئے‘۔

عجب خان کے خاندان کا سب سے بڑا غم

نیک محمد کہتے ہیں کہ ’میں یہاں اپنے ہیرو والد کی وجہ سے آیا ہوں۔ میرے والد نے جدوجہد نہ کی ہوتی تو پاکستان آزاد نہ ہو پاتا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے آج یہاں آتا ہوں تو پاکستانی مجھے مہاجر کہہ کر بلاتے ہیں اور طورخم بارڈر پر لائن میں ہمارے سر پر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں اور وہاں افغانستان میں مجھے پاکستانی کہہ کر پکارا جاتا ہے یعنی ہم نہ یہاں کے رہے نہ وہاں کے۔‘

’میں نے افغانستان میں قانون کی تعلیم حاصل کی، میں نائب وزیر رہا ہوں۔ وہاں پر مزار شریف سے پارلیمان کے لیے امیدوار بنا لیکن بعد میں الیکشن کسی اور نے لڑا، سب نے مل کر اس کے لیے راستہ چھوڑا۔‘

’یہاں پر بے نظیرکا بیٹا، باچہ خان کا بیٹا، مولانا مودودی کا بیٹا اور نواز شریف کا بیٹا آج بھی سینہ تان کر چلتے ہیں لیکن میری جگہ کہیں نہیں۔ کسی نے ہمارے لیے آواز نہیں اٹھائی۔‘

’ڈاکٹر نجیب میرے کلاس فیلو تھے۔ مجھ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ میری بھی یہاں کوئی عزت اور حیثیت ہوگی لیکن ایسا کچھ نہیں۔ میرے والد کی جاسوسی کر کے انگریز کی مدد کرنے والوں کو آج پاکستان میں عزت ملی ہے، لیکن ہماری کوئی حیثیت نہیں۔ پی ٹی آئی نے بھی ہم سے نہیں پوچھا کہ آپ لوگوں کو کیا چاہیے۔‘

’مجھے اب بھی مہاجر کا نام دے کر بارڈر سے اس طرف چھوڑا جاتا ہے۔ میرے والد نے یہاں پر بچپن گزارا۔ شہریار آفریدی میرا رشتے دار ہے۔‘

’میرے والد عجب خان کا باب پانچویں جماعت کے سلیبس سے نکالا گیا ہے، اس کو واپس شامل کیا جائے اور ہمارے والد کی تاریخ کو جاننے کے لیے پاکستان میں ایک مرکز بنایا جائے، جہاں پر جنگ آزادی کے تمام ہیروز کی تاریخ تیار کر کے نئی نسل کو پڑھائی جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *