عاصمہ شیرازی کا کالم آخری واردات؟
بے چہرہ لڑائی میں ہاتھ تو استعمال ہو رہے ہیں مگر چہروں سے نقاب اُترنا ابھی باقی ہے۔
گویا لڑائی اب فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جبکہ حالات کے اُونٹ کو کسی بھی کروٹ بٹھانے کے لیے دروازوں اور دہلیزوں کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
ہر روز لگتا ہے کہ شاید تغیر کو کسی طور استحکام ملے مگر ہر روز نئے کردار کہانی کو اُلجھاتے چلے جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہم کسی پُراسرار ناول کی کسی جادوئی کہانی کے اُس موڑ پر پہنچ چُکے ہیں جہاں ’جن‘ کی جان جس طوطے میں ہے، اُسے یا تو گردن سے دبوچا جائے گا یا کہانی کے کردار اپنی بقا کی آخری لڑائی میں چند آخری ہتھکنڈے استعمال کریں گے۔
بہر کیف کہانی اس جگہ پر ہے جہاں کردار جانتا ہے کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
عمران خان ’آخری واردات‘ کی بات کر رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس آخری واردات کا کُھرا جہاں بھی پہنچے گا نقصان ضرور پہنچائے گا، اب ہار بھی جائیں تو بازی مات نہیں۔ اب جنھیں آخری واردات کا احساس ہے وہ آخری لڑائی میں جان کی بازی بھی لگا سکتے ہیں اور مدمقابل کو حیران بھی کر سکتے ہیں۔
آڈیو سیزن میں شاید یہ آخری سیزن ہو مگر اس سیزن کا کلائمیکس چونکا دینے والا ضرور ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل آنے والی آڈیوز اور اس آڈیو میں فرق یہ ہے کہ اس میں وزیراعظم آفس سمیت تمام اہم افسران کو غیر محفوظ دکھا کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم طاقت کا اصل مرکز ہیں۔ اب یہ پیغام کون دے سکتا ہے اس پر کسی قیاس آرائی سے بہتر ہے کہ چند سوالات اُٹھا دیے جائیں۔
وزیراعظم کے آفس، گھر، سیکریٹری یا اُن کی کابینہ کے فون غیر محفوظ اور سائبر حملوں کی لپیٹ میں ہیں تو اس کا فائدہ کس کو ہے اور نقصان کس کا ہو سکتا ہے؟
ان دفاتر کی سکیورٹی کن کن کے ہاتھ رہی ہے یا تاحال ہے؟
اگر ہیکرز کے پاس گھنٹوں کی ریکارڈنگ موجود ہے تو کون کون سا مواد ہیکرز کے ہاتھ لگا ہے جس کی وہ بولی لگا رہے ہیں؟
ہم ایک نیوکلیئر ریاست ہیں، اگر وزیراعظم ہاؤس محفوظ نہیں تو۔۔۔؟ دُنیا بھر میں اس پر بھی سوال اُٹھائے جا سکتے ہیں۔
خطرہ اب اندر سے ہے باہر سے نہیں، دشمن کہیں یہیں آستینوں میں ہیں جبکہ ہم اُنھیں سرحد پار ڈھونڈ رہے ہیں؟
اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، لیکن۔۔۔ یہ سب الفاظ اس سارے کھیل میں بے معنی ہیں۔ اصل جواب ’کیونکر‘ میں چُھپا ہو گا جس کی تلاش جاری ہے اور کھُرا کسی جگہ پہنچ رہا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ آڈیو لیکس میں وہ آڈیو خان صاحب کے علم میں ہے جو ابھی تک منظر عام پر آئی ہی نہیں۔ آخر وہ کون سے ذرائع ہیں جو ڈارک ویب پر آڈیو ڈالنے سے پہلے خان صاحب کو آگاہ کر رہے ہیں کہ اُنھیں توشہ خانہ کیس میں نااہل کیا جا رہا ہے؟
وہ کون ہے جو اس اندھے جال میں ڈالی گئی آوازوں کو جان دے سکتا ہے، جو بروقت یا وقت سے پہلے اُنھیں خبردار کرتا ہے۔۔۔ کیا یہ سب محض اتفاق ہے؟ کیا اسی کی بُنیاد پر عمران خان کو بھی شامل تحقیقات کیا جا سکتا ہے؟
عمران خان صاحب آخری واردات میں تین وکٹیں گرانے کی بات بھی کر رہے ہیں، آصف زرداری، شہباز شریف کی وکٹیں جبکہ تیسری ’نامعلوم وکٹ‘ جو اُنھیں معلوم ہے تاہم وہ نام لینا نہیں چاہتے۔
اب یہ نامعلوم وکٹ وہ کیسے گرائیں گے یہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اگر تیسری وکٹ سے مراد آرمی چیف ہیں تو وہ کس بل بوتے پر گرانے کا دعویٰ کر رہے ہیں، اُن کے پاس ایسا کون سا آئینی اختیار ہے جس کو وہ استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا اُنھیں اس سلسلے میں کہیں سے کوئی امید اب بھی باقی ہے؟
’آخری واردات‘ کا ایک مطلب یہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ یا تو واردات کامیاب ہو جائے گی یا وارداتیا پکڑا جائے گا۔
واردات چونکہ ہمیشہ چھپ کر ہوتی ہے لہذا وارداتیا اب تک سامنے نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے سکیورٹی کمیٹی وارداتیے کا کھوج لگا لے اور اس معاملے کو کسی منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائے۔
بہرحال اب اس تجسس بھری سیریز کو کسی نہ کسی انجام تک تو جلد پہنچانا ہو گا ورنہ طاقت کے مرکز پر تو سوالات اُٹھ ہی چُکے ہیں۔