سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر مشتبہ قرار دیا گیا شخص جو مبینہ پولیس تشدد سے مارا گیا
دو فروری 2023 کی شام گجولا سدیشوری کو مقامی تھانے سے ایک فون کال موصول ہوئی۔ دوسری جانب موجود پولیس اہلکار نے گجولا کو کہا کہ وہ اپنے شوہر محمد قدیر خان کو تھانے سے واپس لے جائیں۔
تھانے سے فون کال موصول ہونے اور اپنے شوہر کا نام سُننے پر گجولا حیران ہوئیں۔ محض چند روز پہلے ہی قدیر سے اُن کی نوک جھونک ہوئی تھی جس کے بعد وہ ناراض ہو کر اپنے میکے چلی گئی تھیں جبکہ قدیر روزگار کے سلسلے میں قریبی شہر حیدر آباد چلے گئے تھے۔
تاہم تھانے سے آنے والی کال میں گجولا کو بتایا گیا کہ اُن کے شوہر حیدر آباد نہیں بلکہ ریاست تلنگانہ کے ضلع میدک کے مقامی تھانے میں ہیں۔
صبح ہوتے ہی جب وہ تھانے پہنچیں تو انھوں نے دیکھا کہ قدیر کے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں جبکہ وہ بمشکل اپنے جسم کو حرکت دے پا رہے تھے۔
تھانے میں موجود پولیس والوں نے دعویٰ کیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر قدیر کو 27 جنوری کی شام میدک ٹاؤن میں ’چین سنیچنگ‘ کے ایک معاملے میں پوچھ گچھ کی خاطر تھانے بلایا گیا تھا۔‘
پولیس والوں نے کہا کہ تفتیش کے بعد اب وہ مطمئن ہیں کہ قدیر اس جرم میں ملوث نہیں تاہم اس کے بعد دو ہفتے کے اندر قدیر کی موت ہو گئی۔
گجولا نے قدیر سے شادی کے وقت اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا اور نیا اسلامی نام فرزانہ رکھا تھا تاہم ان کے شناختی اور سرکاری دستاویزات میں ان کا نام بدستور گجولا سدیشوری رہا۔
پولیس حراست میں مبینہ تشدد سے قدیر کی موت نے ریاست میں ہنگامہ کھڑا کر دیا جبکہ دوران حراست ان پر مبینہ تشدد کرنے کے الزام میں چار پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا تھا تاہم عدالت کے روبرو محکمہ پولیس نے تشدد اور غیر قانونی حراست جیسے الزامات کو چیلنچ کیا تھا۔
بی بی سی نے رواں برس اپریل میں مقامی تھانے کا دورہ کیا تھا تاہم وہاں موجود افسران نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پولیس نے تلنگانہ ہائیکورٹ کو بتایا تھا کہ انھیں جائے واردات کے قریب سے ملنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر قدیر کے واردات میں ملوث ہونے کا شبہ تھا۔
قدیر اپنے لمبے بالوں کی وجہ سے اُس نقاب پوش سے مشابہت رکھتے تھے جس نے 28 جنوری کی شام میدک شہر میں ایک عورت کو گھیرا، اس کی آنکھوں میں مرچیں جھونکیں اور ان کے گلے سے سونے کی چین لے کر فرار ہو گیا۔
عدالتی سماعتوں کے بعد آخر کار قدیر کو معصوم قرار دیا گیا لیکن تب تک اس معاملے نے ان کے اہلخانہ کو مشکلات کے ایک ایسے بھنور میں ڈال دیا جس سے نکلنا ان کے لیے آسان نہیں۔
’پولیس نے مجھے الٹا لٹکایا اور تشدد کیا‘
قدیر کے اہلخانہ نے تھانے سے گھر واپسی پر ایک ویڈیو ریکارڈ کی تھی جس میں نظر آ رہا تھا کہ قدیر کے کندھے جھکے ہوئے ہیں اور وہ ہاتھ ہلانے سے قاصر ہیں۔
ان کی اہلیہ گجولا سدیشوری کا دعویٰ ہے کہ قدیر کو رہا کرتے وقت پولیس والوں نے انھیں منع کیا تھا کہ وہ اگلے 10 دن تک قدیر کو ہسپتال نہ لے جائیں۔
ان کا یہ بھی الزام ہے کہ پولیس اہلکار اس واقعے کے بعد سے گجولا سدیشوری پر نظر رکھے ہوئے تھے اور وہ باقاعدگی سے ان کے گھر کے دورے کرتے تھے تاکہ قدیر کو باہر نہ لے جایا جا سکے۔
تاہم اہلخانہ پر جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ قدیر پیشاب نہیں کر پا رہے اور جو کچھ بھی کھا رہے ہیں وہ اس کی قے کر دیتے ہیں۔ اہلیہ نے دعویٰ کیا کہ پولیس والوں نے درد کم کرنے والی چند ادویات بھی لا کر دیں لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
گجولا کہتی ہیں کہ ’میں نے چھوٹے بچے کی طرح ان کی دیکھ بھال کی لیکن ان کی حالت بہتر نہیں ہوئی۔‘
قدیر کے ایک دوست رضوان جسم کی مالش کے لیے زیتون کا تیل بھی لے کر آئے لیکن اس سے بھی کوئی افاقہ نہ ہوا کیونکہ انھیں اندرونی چوٹیں پہنچی تھیں۔
سدیشوری کہتی ہیں کہ جب قدیر کی حالت بگڑتی گئی تب پولیس والوں کے منع کرنے کے باوجود وہ انھیں آٹھ فروری کو یعنی ان کی رہائی کے پانچ دن بعد ہسپتال لے گئیں۔
مقامی سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ قدیر کو کسی بڑے ہسپتال میں لے جائیں کیونکہ ان کے گردے خراب ہو چکے ہیں۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں گجولا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’پولیس نے علاج کے عمل میں مداخلت کرنے اور ہسپتال سے ٹیسٹ کے نتائج کو ضبط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔‘
جب وہ اس ہسپتال میں داخل تھے تو ایک مقامی صحافی نے قدیر کا ویڈیو بیان ریکارڈ کر لیا جس میں بھی انھوں نے پولیس حراست میں تشدد کا الزام لگایا۔
قدیر نے صحافی کو بتایا کہ ’انھوں نے مجھے دو گھنٹے تک الٹا لٹکایا اور مجھے پر تشدد کیا۔ انھوں نے مجھے میری ٹانگوں، ہاتھوں اور میرے پورے جسم پر مارا۔ اب میرے ہاتھ پیر کام نہیں کر رہے ہیں۔‘
یہ ویڈیو کلپ وائرل ہو گیا اور ریاستی ہائیکورٹ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا۔
بعدازاں ڈاکٹروں نے قدیر کے گردے کا چار مرتبہ ڈائیلیسیز کیا لیکن ان کی زندگی بچانے کے لیے وہ ناکافی ثابت ہوا اور آخر کار 16 فروری 2023 کو رات دیر گئے ان کی موت ہو گئی۔
’قدیر پر تھانے میں تشدد نہیں ہوا‘
پولیس نے قدیر پر تشدد کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ 30 جنوری کو پولیس تفتیش کے لیے حیدر آباد سے میدک اپنی رضامندی سے آئے تھے۔
پولیس کے مطابق قدیر چند گھنٹے جاری رہنے والی پولیس پوچھ گچھ کے بعد اپنے بہنوئی کے ساتھ تھانے سے چلے گئے تھے جس کے بعد انھیں تھانہ نہیں بلایا گیا۔
جبکہ قدیر کے اہلخانہ کا الزام ہے کہ وہ 29 جنوری سے دو فروری تک پولیس حراست میں تھے لیکن پولیس اس کی تردید کرتی ہے۔
لیکن اگر تھانے میں قدیر سے صرف چند گھنٹوں کے لیے تفتیش ہوئی تو ان کے جسم پر تشدد کے نشانات کیسے آئے؟
پولیس کا دعویٰ ہے کہ قدیر پر کسی نے آٹھ فروری کو حملہ کیا تھا اور اسی دن انھیں پہلی بار ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔
سدیشوری اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’انھیں چوٹیں تھانے کے اندر آئیں اور رہا ہونے کے بعد وہ بمشکل ہی حرکت کرنے کے قابل تھے۔‘
پولیس نے اس معاملے میں اپنے دفاع میں 2018 اور 2019 میں معمولی جرائم کے دو زیر سماعت مقدموں کی نشاندہی بھی کی، جس میں قدیر پر چوری کے جرم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔
سدیشوری ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ قدیر ان چوری کے واقعات میں ملوث نہیں تھے بلکہ انھوں نے نیک نیتی سے کسی کی مدد کی تھی جو ان کی مشکل کا باعث بنی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کسی نے انھیں دھوکے سے چوری کا زیور یہ کہہ کر بیچ دیا تھا کہ اس کی بیوی حاملہ ہیں اور اسے پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ قدیر ایک ایماندار اور نیک آدمی تھے۔ ’اگر وہ چین چوری کے جرم میں ملوث بھی تھے تب بھی انھیں 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے تھا، نہ کہ ان پر تشدد کرنا چاہیے تھا۔‘
’ہم چرچ میں رہے، بھیک مانگی لیکن چوری نہیں کی‘
سدیشوری بتاتی ہیں کہ وہ اور قدیر بچپن میں پڑوسی تھے۔ قدیر انھیں بچپن سے ہی پسند کرتے تھے لیکن 12 سال کی عمر میں سدیشوری کی شادی کر دی گئی۔
سدیشوری کے سابقہ شوہر کو شراب نوشی کی لت تھی اور اسی لت کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔ جس کے بعد قدیر نے ان سے شادی کر لی۔
سدیشوری سنہ 2014 میں اپنے تین بچوں کے ساتھ قدیر کے ساتھ رہنے لگیں۔ وہ قدیر کے کردار کے دفاع میں کہتی ہیں کہ انھوں نے کبھی ان کے یا بچوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا۔
قدیر دیہاڑی دار مزدور تھے جبکہ سدیشوری کپڑوں کی سلائی کا کام کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ہماری آمدن سے پانچ افراد کے خاندان کا پیٹ بھرنا مشکل ہو جاتا تھا۔
’قدیر ایسے نہیں تھے۔ اگر وہ ایسے ہوتے تو بہت پہلے یہ سب کچھ کر چکے ہوتے۔ ہمیں 20 دن تک کسی چرچ میں نہیں رہنا پڑتا۔ ہمارے پاس اپنا گھر ہوتا۔‘
وہ مزید کہتی ہیں ’ہم نے بھیک مانگی لیکن چوری نہیں کی۔‘
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کیا کہتی ہے؟
سدیشوری اور فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق قدیر کے دوست رضوان نے بھی پولیس کی جانب سے دکھائی جانے والی فوٹیج میں قدیر کی شناخت نہیں کی تھی۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق رضوان نے پولیس کو بتایا تھا کہ ’انھیں 100 فیصد یقین ہے کہ فوٹیج میں موجود شخص قدیر نہیں‘ لیکن پولیس اہلکاروں نے پھر بھی یہ دعویٰ کیا کہ رضوان نے فوٹیج میں نظر آنے والے شخص کی شناخت قدیر کے طور پر کی۔‘
رپورٹ کے مطابق رضوان کو قدیر سے سپیکر فون پر بات کرنے کو کہا گیا اور پولیس اہلکاروں نے فون کالز کے ذریعے قدیر کے سیل فون ٹاور کی لوکیشن کا پتا لگایا تاہم پولیس نے عدالت کو یہ بتایا کہ قدیر کا فون بند تھا اور جس کہ وجہ سے ان پر شک میں اضافہ ہوا۔
جبکہ عدالت میں جمع کروائے گئے دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیر نے حیدرآباد سے میدک آ کر پولیس کو بتایا تھا کہ انھوں نے اپنا پرانا سِم کارڈ اور فون ایک ناریل فروش کو فروخت کر دیا تھا اور وہ ایک مختلف فون نمبر استعمال کر رہے تھے۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق پولیس نے اعتراف کیا کہ قدیر کے دعوے سچ ثابت ہوئے تھے اور ان کی کال ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ وہ جرم والے دن جائے واردات سے 100 کلومیٹر دور حیدرآباد میں تھے۔
رپورٹ میں پولیس نے یہ بھی اعتراف کیا کہ شکایت کنندہ کو بھی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی لیکن وہ بھی قدیر کو بطور ملزم شناخت نہیں کر سکے۔
کیا سی سی ٹی وی کی وجہ سے جرم میں کمی آتی ہے؟
قدیر کو سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کی بنیاد پر مشتبہ گردانا گیا تھا۔
انڈین ریاست تلنگانہ میں ٹیکنالوجی کے ذریعے سب سے زیادہ نگرانی کی جاتی ہے جبکہ حیدرآباد نگرانی کے لیے نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست تین انڈین شہروں میں سے ایک ہے۔
انڈیا میں پولیس اور انتظامیہ کے پاس شہریوں کی نگرانی کے متعدد طریقے دستیاب ہیں، سی سی ٹی وی ان میں سب سے زیادہ عام ہے۔ اسے اکثر جرائم کے واقعات کو کم کرنے کے ایک مؤثر طریقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن اس بات کے واضح ثبوت موجود نہیں کہ یہ واقعی جرائم کے واقعات میں کمی لاتا ہے۔
برطانیہ میں قائم سائبر سکیورٹی اور پرائیویسی ریسرچ فرم ’کمپیریٹیک‘ کی تحقیق کے مطابق کیمروں کی تعداد اور جرائم کی شرح کا تعلق کافی کم ہے۔
لیکن کامن کاز اور لوکنیتی سی ایس ڈی ایس نامی گروپس کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں 12 ریاستوں سے 9700 لوگوں سے لی گئی رائے پر مشتمل ایک سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں چار میں سے تین افراد کو یقین ہے کہ سی سی ٹی وی کی وجہ سے جرائم کی نگرانی اور اسے کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اس مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا خیال ہے کہ سی سی ٹی وی بڑے پیمانے پر نگرانی کے ٹول سے زیادہ جرائم میں کمی اور عوامی تحفظ کے لیے کام کرتا ہے۔
لیکن غریب طبقوں میں سی سی ٹی وی کی حمایت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ کسی معاملے میں اس سی سی ٹی وی یا دیگر نگرانی کے طریقوں میں پھنستے ہیں تو ان کے لیے قوانین پر کمزور عملدرآمد کے باعث پولیس کو اپنی بے گناہی ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ قدیر کے ساتھ ہوا۔
حالانکہ مبینہ طور پر سی سی ٹی وی فوٹیج میں قدیر کی موجودگی واضح نہیں تھی لیکن پھر بھی ان کی بے گناہی ثابت ہونے سے قبل انھیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔
اسی وجہ سے ایسے معاملات کو شہریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن انتباہ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ انڈیا میں نگرانی کے ان طریقوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مناسب قواعد و ضوابط نہیں۔
حیدرآباد میں مقیم ڈیجیٹل حقوق کے محقق سری نواس کوڈالی کا کہنا ہے کہ ’اگر مغربی ممالک میں کوئی پولیس اہلکار قوانین سے تجاوز کرتا ہے، تو آپ اسے عدالت میں لے جا سکتے ہیں۔ انڈیا کے پولیس نظام میں اس طرح کی نگرانی اور جوابدہی کی کمی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پولیس پر منحصر ہے، وہ جو کہتے ہیں وہی قانون ہے۔‘
قدیر کی مثال دیتے ہوئے اس معاملے کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی سول سوسائٹی کمیٹی کے ایک رکن ایس کیو مقصود کہتے ہیں کہ اس کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر لگائے گئے الزام کے خلاف اپنی بے گناہی انھیں خود ثابت کرنی تھی، نہ کہ پولیس ان پر لگائے اپنے الزامات ثابت کرے۔
مقصود نے تلنگانہ میں فیشیئل ریکاگنیشن ٹیکنالوجی (ایف آر ٹی) کے استعمال کو بھی ریاستی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر میں کسی جگہ پر موجود ہوں، وہاں جھگڑا ہو جاتا ہے اور میں سی سی ٹی وی میں آ جاتا ہوں تو مجھے اپنی بے گناہی ثابت کرنی پڑے گی کہ میں وہاں کیا کر رہا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ قدیر کا معاملہ پہلا ہے جو سامنے آیا ہے لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس طرح کے کئی معاملات ہوئے ہیں جس میں لوگوں کا ’غلط وقت‘ پر ’غلط جگہ‘ ہونا ان کے لیے ہراسانی کا سبب بنا ہے۔
انصاف کی لڑائی میں قانونی پیچیدگیاں
سدیشوری کی انصاف کی لڑائی جاری ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ قدیر پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کو سزا دی جائے ورنہ وہ خودکشی کر لیں گی لیکن انصاف کے حصول کی یہ لڑائی اب قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکی ہے۔
پولیس نے سدیشوری اور قدیر کی شادی پر سوال اٹھا دیے ہیں جبکہ میدک میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی کی طرح ایک ساتھ رہ رہے تھے۔
پولیس نے اس مقدمے سے متعلق سے اپنے حلف نامے میں کہا کہ ’یہ ’رٹ پیٹیشن‘ ایک گجولا سدیشوری نامی خاتون نے دائر کی، جس کا دعویٰ ہے کہ وہ محمد قدیر خان کی بیوی ہیں۔‘
سدیشوری کے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ قدیر اور ان کی شادی پر سوالیہ نشان نے انصاف کی اس لڑائی کو کمزور کر دیا ہے۔
سدیشوری اپنے شادی کے کارڈ دکھاتے ہوئے اصرار کرتی ہیں کہ ان کا نکاح عوامی طور پر ہوا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’اللہ سب دیکھتا ہے۔ میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔ میدک میں ہر کوئی جانتا ہے کہ میری شادی قدیر سے ہوئی تھی۔‘
وہ کہتی ہیں ’میں اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھوں گی جب تک ملوث پولیس افسران کو سزا نہیں ملتی۔ یہ لڑائی تب ہی ختم ہو گی جب میں مر جاؤں گی۔ یا تو انھیں سزا ملے، یا میں خود کشی کر لوں گی۔‘