سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا معاملہ بلوچستان عوامی پارٹی سے ووٹ لینے پر پی ڈی ایم کا پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے معاملے پر بلوچستان عوامی پارٹی سے ووٹ لینے کے معاملے پر پی ڈی ایم میں شامل دو جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نینشل پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کیے ہیں اور ان سے سات روز میں جواب طلب کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی حکمراں اتحاد میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی کے دو سینٹرز کی مدد سے سینیٹ میں قاید حزب اختلاف مقرر ہوئے ہیں۔
سینیٹ کے انتخابات کے دوران پی ڈی ایم کی جماعتوں میں یہ اتقاق رائے پایا گیا تھا کہ سینٹ کے چیئرمین کے لیے امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی سے ڈپٹی چیئرمین جمیعت علمائے اسلام سے جبکہ قائد حزب اختلاف پاکستان مسلم لیگ نواز سے ہو گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں چیئرمین کا انتخاب ہارنے کے بعد پی ڈی ایم کے فیصلے کے خلاف یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد کیا اور حکمراں اتحاد میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان کی مدد سے عددی برتری ثابت ہونے کے بعد سینٹ چیئرمین نے یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب احتلاف مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
پی ڈی ایم میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نینشل پارٹی کو اظہار وجوہ کے نوٹسز اس اتحاد کے جنرل سیکرٹری اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے جاری کیے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اظہار وجوہ جاری کرنے کا مقصد ان دونوں جماعتوں کی قیادت سے سینیٹ میں قائد حزب احتلاف کے معاملے پر وضاحت طلب کرنا ہے کہ انھوں نے پی ڈی ایم کے فیصلوں کو کیوں نظر انداز کیا۔
انھوں نے کہا کہ نوٹسز کا جواب موصول ہونے کے بعد یہ معاملہ پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ان دونوں جماعتوں کی طرف سے جواب ملنے کی صورت میں پی ڈی ایم کے سربراہ کوئی اپنا فیصلہ صادر کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی صحت یابی کے بعد ہی اجلاس طلب کیا جائے گا۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ ہاوس میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ انھیں پی ڈی ایم کی طرف سے بھیجا گیا اظہار وجوہ کا نوٹس موصول ہو گیا ہے تاہم اس کا جواب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہی دیں گے۔
سینٹ میں اپنی پہلی تقریر کے دوران یوسف رضا گیلانی نے دعویٰ کیا کہ وہ حزب مخالف کی تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر چلیں گے اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے کی جانے والی قانون سازی میں حکوت کا بھی ساتھ دیں گے۔
یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں قائد حزب احتلاف بننے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے ارکان پارلیمنٹ ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے یوسف رضا گیلانی کے انتخاب کے بعد ان کا نام لیے بغیر انھیں سرکاری اپوزیشن لیڈر قرر دیا۔
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں ہونے والی کارروائی کی کوریج کرنے والی صحافی نوشین یوسف کا کہنا ہے کہ ماضی میں سینٹ میں حکومت کو حزب محالف کی جماعتوں کی طرف سے کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا جیسے پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف حکومت وقت کو ٹف ٹائم دیتی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ پیر کے روز سینیٹ کے اجلاس کے دوران یوسف رضا گیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر پہلی تقریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے وہ اپوزیشن کا کم اور حکومت کا زیادہ ساتھ دیں گے۔
نوشین یوسف کا کہنا تھا کہ حکمراں اتحاد میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی کے کچھ ارکان اب اپوزیشن میں بھی بیٹھ گئے ہیں اس لیے حزب مخالف کے اراکین کا جب بھی اجلاس ہو گا تو اس بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی موجودگی سے اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ حکومت اب اپوزیشن میں بھی آ گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان مسلم نواز کے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی قیادت میں 27 سینٹرز پر مشتمل ایک اتحاد نے چیئرمین سینیٹ سے اپوزیشن میں الگ نشستیں آلاٹ کرنے کی درخواست دی ہے۔
سینیٹ میں اپنی پہلی تقریر کے دوران اعظم نذیر تارڑ نے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹرز کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ ارکان حکومت کی طرف سے ایک ’تحفہ‘ ہیں جس پر بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان نے احتجاج بھی کیا۔