سینیٹ الیکشن ’آپ کو فلمیں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، پاکستان کی سیاست ہی کافی ہے
سینیٹ الیکشن میں حکمراں جماعت کو ہونے والے اپ سیٹ کے بعد اب تمام تر نظریں جمعرات یعنی آج ہونے والے قومی اسمبلی کے سیشن پر مرکوز تھیں۔ لیکن قومی اسمبلی کا 25 نکاتی ایجنڈے پر مشتمل سیشن بغیر کسی کارروائی کے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے پر سوئے ہوئے ایوان میں جیسے جان پڑ گئی۔ ایک طرف سے ’بھاگ گئے‘ کے نعرے لگنے شروع ہو گئے، وہیں اس شور شرابے میں ایک صحافی نے ایوان سے نکلتے ہوئے دوسرے سے کہا کہ ’ٹھاکر تو گیو۔‘
واضح رہے کہ اس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سنیچر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔
موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات کی۔ سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’حکومت اب بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے۔‘ جبکہ دوسرے سابق وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ’چوہوں کی سیاست نہیں کرنی تو شیر کی طرح میدان میں آئیں۔‘
میدان اب 12 مارچ کو دیکھنے والا ہو گا کیونکہ اب مقابلہ چیئرمین سینیٹ کی نشست پر ہو گا۔ حکومت نے پہلے سے ہی صادق سنجرانی کو اس الیکشن کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ جبکہ ایک روز پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس کے دوران یوسف رضا گیلانی کا نام بطور چیئرمین سینیٹ امیدوار کے طور پر لیا تھا۔ لیکن اب تک پی ڈی ایم کا اس بارے میں کوئی مشترکہ بیان سامنے نہیں آیا ہے
اب صادق سنجرانی کی نامزدگی سے پاکستان تحریک انصاف کے چند اراکین خوش نہیں ہیں۔ اور آج بھی قومی اسمبلی کی راہداری میں پی ٹی آئی کے ایک وقافی وزیر کہتے ہوئے سنائی دیے کہ ’کل کے الیکشن کے بعد اب پارٹی کو کسی جیالے ٹائپ یا سماجی کارکن کا انتخاب کرنا ہو گا۔ اس بار ایک ہی امیدوار کو چُن کر اس پر بضد ہونے سے کام نہیں چلے گا۔‘
لیکن اس کے باوجود صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جبکہ قومی اسمبلی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی ایم بی سومرو نے کہا کہ اس وقت حکومت نہیں چاہتی کہ اس کے ہاتھ سے چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کی نشستیں جائیں۔ ’جوڑ توڑ ابھی سے شروع ہو چکی ہے۔ اور خیال یہی ہے کہ حکومت ایک امیدوار تو اپنا لے کر آئے گی۔‘
چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب سیکریٹ بیلٹ کے ذریعے ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی اس وقت سینیٹ میں حزبِ اختلاف کے پاس 50 اراکین ہیں۔ جبکہ حکومتی اتحاد جس میں حکمراں جماعت پی ٹی آئی، ق لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر اتحادی شامل ہیں ان کو ملا کر 43 اراکین بنتے ہیں۔ حکومت کے پاس سابق فاٹا سے چار اور بلوچستان سے ایک آزاد امیدوار ملا کر بھی اراکین کی تعداد کم بنتی ہے۔
لیکن اگر تھوڑا پیچھے جائیں اور 2019 میں صادق سنجرانی کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے ہونے والے عدم اعتماد کی مہم کا جائزہ لیں، تو اس وقت حکومت کے پاس 36 اراکین تھے۔ اور حزبِ اختلاف کے پاس 68۔ اور اس کے باوجود صادق سنجرانی ’کرشماتی طور پر‘ جیت گئے تھے۔
لیکن پی ٹی آئی سے منسلک ایک وفاقی وزیر نے کہا کہ صادق سنجرانی کی حمایت بلوچستان عوامی پارٹی کو خوش رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کو اپنی جماعت اور دیگر اتحادیوں کی مدد بھی چاہیے ہوگی جو اس وقت تھوڑی سی ڈگمگاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
اس کے پیچھے وجہ ہے سینیٹ الیکشن سے پہلے ہونے والے ایک واقعے کی۔ پی ٹی آئی کے ایک رکن نے بتایا کہ جب ایک وزیر کی ملاقات وزیرِ اعظم عمران خان سے کرائی گئی تو ’خان صاحب نے بھرے مجمعے میں وزیر سے پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ میرے امیدوار کو سینیٹ انتخابات میں ووٹ نہیں دے رہے۔ سب خاموش ہو گئے۔ وزیر نے جواب دیا کہ جب آپ کے ذہن میں شک آگیا ہے تو اب اگر میں ووٹ دوں گا بھی تب بھی آپ کو لگے گا میں نے نہیں دیا۔‘
ایک اور بات بتاتے ہوئے رکن نے کہا کہ ’اسلام آباد میں سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد باہر آکر پی ٹی آئی کی ایک خاتون رکن نے ایک دو لوگوں کو بتایا کہ شاید ان سے ووٹ کاسٹ کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ بات فوراً وزیرِ اعظم تک پہنچا دی گئی۔ اور ان کو بھی بھرے مجمعے میں صفائی دینے کا کہا گیا۔‘
لیکن اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے ممبران اب بھی پرامید ہیں۔ اور آج ایوان سے باہر نکلتے ہوئے ایک وزیر نے کہا کہ ’خان صاحب عوام کا اعتماد حاصل کر لیں گے۔‘ جبکہ ان کے ساتھ موجود ایک اور وزیر نے اس پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
اب قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتے کے روز یعنی 6 مارچ کو بلایا گیا ہے۔ جس میں قومی اسمبلی کے دونوں جانب اراکین ’ہاں‘ یا ’نہ‘ میں وزیرِ اعظم پر اعتماد کا جواب دیں گے۔
ہفتے کو ہاں ہو یا نہ لیکن تجزیہ کار ان سبھی پہلوؤں کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں اور جیسا کہ اسمبلی سے باہر آتے ایک صحافی نے کہا کہ ‘آپ کو فلمیں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، پاکستان کی سیاست ہی کافی ہے۔