جڑانوالہ میں گرجا گھروں اور مسیحی املاک پر حملے

جڑانوالہ میں گرجا گھروں اور مسیحی املاک پر حملے

جڑانوالہ میں گرجا گھروں اور مسیحی املاک پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ: ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ، 100 ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ

پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے کے بعد مشتعل مظاہرین کی جانب سے مسیحی آبادی پر دھاوا بول کر متعدد گرجا گھروں کو نذرِ آتش کر دیا ہے جبکہ کرسچین کالونی میں واقع مسیحی شہریوں کے گھروں کے علاوہ سرکاری عمارتوں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے۔

اس واقعے کے بعد مزید پرتشدد کارروائیوں کی روک تھام کے لیے ضلع فیصل آباد میں آئندہ سات روز کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا گیا ہے جس کے تحت ہر قسم کے احتجاج اور جلسے جلسوں پر پابندی ہو گی جبکہ انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق تحصیل جڑانوالہ میں آج (جمعرات) تمام سرکاری اور پرائیوٹ ادارے بند رہیں گے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز صورتحال پر قابو پانے کے لیے رینجرز کو طلب کر لیا گیا تھا جبکہ مقامی پولیس حکام نے اب تک توڑ پھوڑ میں ملوث 100 ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پنجاب حکومت نے بدھ کے روز پیش آئے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ پاکستان میں امن کی فضا کا خراب کرنے کی ’منظم سازش‘ تھا جس میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔

حکومت پنجاب کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق قرآن کی مبینہ بے حرمتی کی خبریں سامنے آنے کے بعد جڑانوالہ کے مختلف مقامات پر پانچ سے چھ ہزار افراد پر مشتمل بڑا ہجوم شہر کے مختلف مقامات پر جمع ہوا اور انھوں نے مسیحی برادری کے مختلف علاقوں اور عمارتوں پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیوز میں مظاہرین کو مسیحی املاک میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور اس دوران پولیس صرف خاموش تماشائی بنی دکھائی دیتی ہے۔

تصویر

ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ احتجاج کا یہ سلسلہ بدھ کی صبح اُس وقت شروع ہوا جب عیسیٰ نگری نامی علاقے میں چند نوجوانوں کی جانب سے قرآن کے اوراق کی مبینہ بےحرمتی کی اطلاعات شہر اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں جس کے نتیجے میں صبح نو بجے کے قریب مشتعل افراد سنیما چوک کے پاس اکٹھے ہونے لگے۔

بی بی سی کی حمیرا کنول کے مطابق اہلکار کا کہنا ہے کہ اس مشتعل ہجوم نے متعدد گرجا گھر تباہ کیے اور مسحیوں کے گھروں اور املاک میں شدید توڑ پھوڑ کی۔

جڑانوالہ ایک چھوٹا شہر سا ہے جہاں مسیحی آبادی کی تعداد مجموعی آبادی کے پانچ فیصد کے لگ بھگ ہے جن میں سے زیادہ تر لوگ عیسی نگری میں ہی آباد ہیں۔

اس واقعے کے بعد عہدے سے ہٹائے جانے والے اے سی جڑانوالہ شوکت مسیح نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ‘صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان ہمیں مشتعل مظاہرین کی جانب سے عیسیٰ نگری میں احتجاج اور آگ لگائے جانے کی اطلاعات ملیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مشتعل مظاہرین نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا رکھے ہیں اور ایسے ہی ایک گروہ کی جانب سے اے سی جڑانوالہ کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا۔’

جڑانوالہ کے رہائشی 31 سالہ یاسر بھٹی ان افراد میں سے ایک تھے جنھیں اس صورتحال کے باعث اپنا گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

انھوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’انھوں (مظاہرین) نے کھڑکیاں اور دروازے توڑے، ہمارے فریج، صوفے، کرسیاں اور دیگر گھریلو سامان بھی لے گئے اور پھر اسے گرجا گھر کے سامنے لے جا کر جلا دیا گیا۔‘

’انھوں نے مقدس کتاب کی بیحرمتی کی، وہ انتہائی بے رحم تھے۔‘

واقعہ کیا پیش آیا؟

تصویر

اس واقعے کے عینی شاہد اور جڑانوالہ کے مقامی صحافی حسام نے بی بی سی کے شہزاد ملک کو بتایا کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کرسچین کالونی میں عامر نامی نوجوان نے مبینہ طور پر چند توہین آمیز پمفلٹ لکھے اور مبینہ طور پر قران پاک کے چند اوراق کی بھی بےحرمتی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فجر کی نماز کے بعد اس واقعے کی اطلاع ملنے پر مشتعل افراد کی بڑی تعداد علاقے میں جمع ہو گئی اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔‘

حسان کے مطابق مظاہرین نے نہ صرف اس بستی میں موجود گرجا گھروں کو نذر آتش کیا بلکہ کالونی کے 15 مکانات کو بھی آگ لگا دی۔

انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے کرسچین کالونی کے مکینوں کو یہ علاقہ خالی کرنے کو بھی کہا۔ صحافی کے مطابق بھاری نفری تعینات ہونے کے باجود پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔

جڑانوالہ کے تھانہ سٹی کے ایک اہلکار نے بھی تصدیق کی کہ مظاہرین کی جانب سے مسیحی بستی میں موجود کچھ گھروں کو آگ لگائے گئی ہے جبکہ وہاں لوٹ مار کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ایک عینی شاہد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر کے متاثرہ علاقوں میں کرسچین کالونی، ناصر کالونی، عیسیٰ نگری، مہاراوالا، چک نمبر 120 گ ب شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کے شہر کے وسط میں قائم کرسچین کالونی کی آبادی گھروں کو چھوڑ کر جا چکی ہے۔

تصویر

جڑانوالہ کے گرجا گھروں کے انچارج فادر خالد مختار نے بی بی سی کے عماد خالق سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مجموعی طور پر شہر میں چھ گرجا گھر جلائے گئے جبکہ ان کی اپنی رہائش گاہ ’پیرش پاسٹر ہاؤس‘ کو بھی نذر آتش کر دیا گیا ہے۔

فادر خالد مختار کے مطابق ’کرسچین کالونی میں سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ کرسچین کالونی کا گرجا گھر نذر آتش کرنے کے بعد ایک گروہ نے ناصر کالونی میں واقع ان کی رہائش گاہ پیرش ہاؤس کا رخ کیا اور دو گھنٹے سے زیادہ وہ اس کے باہر جمع ہو کر احتجاج کرتے رہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ خود بھی مشتعل ہجوم کے نرغے میں آ گئے تھے اور تقریباً دو گھنٹے سے زائد وقت تک اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ناصر کالونی میں واقع گھر میں محصور رہنے کے بعد جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

فادر خالد مختار کے مطابق اس دوران انھوں نے متعدد مرتبہ پولیس کی ہیلپ لائن پر مدد کے لیے کال کی لیکن پولیس ان کی مدد کو نہیں آئی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ اس دوران مشتعل ہجوم ایک دوسری بستی میں قائم گرجا گھر کو نذر آتش کرنے کا ارادہ لیے ان کے گھر سے دور ہوا جس کے فوراً بعد وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تاہم ان کے وہاں سے نکلنے کے بعد ہجوم نے پیرش پاسٹر ہاؤس کو بھی جلا دیا۔

مقدمے کی ایف آئی آر میں کیا کہا گیا ہے؟

تصویر

جڑانوالہ پولیس کی جانب سے بدھ کو دو مسیحی نوجوانوں کے خلاف قرآن کی بےحرمتی اور توہینِ رسالت کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

مقدمے کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ جب موقع پر پہنچے تو انھیں وہاں سے قرآن کے اوراق ملے جن پر سرخ پنسل سے گستاخانہ الفاظ لکھے ہوئے تھے اور ایک کلینڈر بنایا ہوا تھا تاہم ملزمان موقع سے فرار ہو چکے تھے۔

فیصل آباد پولیس کی جانب سے بھی ٹوئٹر پر جاری پیغام میں جڑانوالہ کے شہریوں کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ’قرآن پاک کی بےحرمتی کرنے والوں کے خلاف سٹی تھانہ جڑانوالہ میں مقدمہ درج ہو چکا ہے اس لیے مظاہرین اشتعال انگیزی اور توڑ پھوڑ سے گریز کریں‘۔

پولیس کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے گئے ہیں تاہم وہ فرار ہو چکے ہیں۔

یہ پاکستان میں پہلا موقع نہیں ہے کہ توہین مذہب کے مبینہ الزامات لگائے جانے کے بعد مسیحی برادری کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

سنہ 2013 میں لاہور کے علاقے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی پر ایسے ہی ایک حملے اور آتشزنی کے نتیجے میں سینکڑوں مسیحی بے گھر ہو گئے تھے جبکہ علاقے میں امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا ہوا تھا۔

اس سے قبل اگست 2009 میں ضلع فیصل آباد کی ہی ایک اور تحصیل گوجرہ میں مسلم مسیحی فسادات کے نتیجے میں کم از کم چھ مسیحی ہلاک ہوئے تھے۔

گوجرہ کے ایک گاؤں میں یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے تھے جب مسیحی برادری کی ایک شادی کے دوران مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے الزام پر مشتعل ہو کر گاؤں کی مسلمان آبادی نے ایک مسیحی بستی پر دھاوا بول کر چالیس کے قریب مکانات کو آگ لگا دی تھی۔

سوشل میڈیا پر واقعے کی شدید مذمت

جڑانوالہ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے میسحی برادری کی عبادت گاہوں اور گھروں کو نشانہ بنانے سے متعلق سب سے پہلے بشپ چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل نے سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو لفظ کم پڑ رہے ہیں۔ ہم، بشپ، پادری اور عام لوگ پاکستان کے ضلع فیصل آباد میں جڑانوالہ کے واقعے پر گہرے دکھ اور غم میں مبتلا ہیں۔ جب میں یہ پیغام لکھ رہا ہوں تو اس وقت چرچ کی عمارت کو جلایا جا رہا ہے۔ بائبل کی بے حرمتی کی گئی ہے اور مسیحیوں کو اذیتیں دی گئی ہیں اور ان پر قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔

ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ یقین دلایا جا سکے کہ ہمارے لوگوں کی جان و مال ہمارے ملک کے لیے قیمتی ہیں جس نے ابھی ابھی جشن آزادی منایا ہے۔‘

جس کے بعد سوشل میڈیا پر مشتعل ہجوم کی جانب سے جڑانوالہ میں مسیحی آبادی کے گھروں میں توڑ پھوڑ اور گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کا واقعے پر سیاستدانوں، صحافیوں سمیت تمام مکتوب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے مذمت کی ہے۔

پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے سامنے آنے والے مناظر دیکھ کر میں پریشان ہوں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ یقین رکھیں کہ حکومت پاکستان برابری کی بنیاد پر ہمارے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔‘

اس واقعے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شریں مزاری نے لکھا کہ ’ یہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت فعل ہے۔ ہماری مسیحی برادری اور ان کے گرجا گھروں کو بچانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟

محمد تقی نامی ایک صارف نے پاکستان میں بشپ چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ’محترم بشپ، فیصل آباد میں پاکستانی مسیحیوں اور گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ہم اس بے لگام، منظم تعصب اور نفرت سے تحفظ نہیں، صرف دکھ اور تسلی دے سکتے ہیں۔

صحافی ماریہ میمن نے اس واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’ریاست بار بار اپنے شہریوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہی خاص طور پر کمزور اقلیتوں کے لیے اور اس میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔‘

ایکٹیوسٹ عمار علی جان نے لکھا کہ ’ہمیں افسوس ہے کہ آپ کو جبری طور پر اس اذیت کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ مذہبی تعصب کے خلاف احتجاج کا قومی دن ہونا چاہیے۔‘

جبکہ صحافی حامد میر نے بھی بشپ چرج آف پاکستان کی ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’میں بھی رو رہا ہوں، گرجا گھر پر حملہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔‘

سابق سنیٹر افراسیاب خٹک نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ قابل مذمت ہے۔ پاکستانی ریاست اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مذہب کے نام پر ہونے والے جرائم کو استثنیٰ نے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *