تحریک عدم اعتماد ملک کی غیر یقینی سیاسی صورتحال میں ڈیڑھ ارب ڈالر بیرونی سرمایہ کاری کا اخراج
اکستان کی سٹاک مارکیٹ گذشتہ کئی ہفتوں سے مندی کے رجحان کا شکار ہے۔ اس میں سرمایہ کاری کرنے والے مقامی اور بیرون ملک پاکستانی مزید سرمایہ کاری سے کترا رہے ہیں تو دوسری جانب غیر ملکی سرمایہ کار بھی مارکیٹ سے پیسہ نکال رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک پاکستانی جو پاکستان سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے باعث مزید سرمایہ کاری کے بارے میں فی الحال نہیں سوچ رہے۔
انھوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’گذشتہ کچھ مہینوں سے میں نے پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو روکا ہوا ہے۔ جو سرمایہ کاری کی تھی وہ سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان کی وجہ سے نقصان ظاہر کر رہی ہے جس کی وجہ سے میں اسے بیچ نہیں رہا۔
’تاہم مزید سرمایہ کاری کو میں نے فی الحال روکا ہوا ہے اور حالات کا جائزہ لے رہا ہوں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔‘
دوسری جانب پاکستان میں سٹاک مارکیٹ میں ملکی و غیر ملکی ریٹیلر سرمایہ کاروں کی ایک کمپنی میں پورٹ فولیو مینیجر شہریار بٹ کہتے ہیں کہ پاکستان کی مارکیٹ سے غیر ملکی سرمایہ کار نکل رہا ہے۔
انھوں نے کہا ویسے تو بیرونی یا غیر ملکی سرمایہ کار پہلے ہی پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں کم ہو گیا تھا جب پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹ سے فرنٹیر مارکیٹ میں ڈالا گیا اور اس کے بعد گذشتہ کئی ہفتوں سے یہ مزید پاکستان کی سٹاک مارکیٹ سے باہر جا رہا ہے۔
شہریار بٹ کے مطابق موجودہ غیر یقینی صورتحال جلد ختم ہوتی ہے تو اس کا اثر سٹاک مارکیٹ پر بھی پڑے گا اور یہاں غیر ملکی سرمایہ کار واپس آ سکتے ہیں۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق یکم مارچ سے 25 مارچ تک پاکستان کی سٹاک مارکیٹ سے تقریباً چالیس کروڑ روپے غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج ہوا ہے۔
مارچ کے مہینے میں پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں جب پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد ملک میں سیاسی غیر یقینی کی فضا میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے معیشت منفی اثرات کے دباؤ کا شکار ہے۔
پاکستان میں سٹاک مارکیٹ مارچ کے مہینے میں اکثر اوقات شدید مندی کے رجحان کا شکار رہی ہے تو دوسری جانب غیر ملکی سرمایہ کاروں کا بھی سٹاک مارکیٹ سے اخراج کافی نمایاں رہا جو مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے۔
پاکستان سے کتنی غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج ہوا؟
پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری سٹاک مارکیٹ اور حکومت کی جانب سے جاری کردہ بانڈز میں آتی ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس مالی سال میں اب تک ملک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج ہوا ہے جو سٹاک مارکیٹ اور حکومتی بانڈز میں کی گئی تھی جس میں سے ایک ارب ڈالر کا اخراج سٹاک مارکیٹ سے ہوا۔
صرف مارچ کے مہینے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے اخراج کا حجم چالیس کروڑ ڈالر کے لگ بھگ رہا۔ اس سال مارچ کے مہینے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا اتنا زیادہ اخراج دو سال کے بعد ریکارڈ کیا گیا ہے۔
مارچ 2020 میں ساٹھ کروڑ ڈالر کا اخراج ہوا تھا جب کورونا وائرس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی تھی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا بے تحاشا اخراج ریکارڈ کیا گیا تھا۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں صرف دو کروڑ ڈالر سے کچھ زائد کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کے اخراج کی کیا وجہ ہے؟
پاکستان کی سٹاک مارکیٹ اور حکومتی بانڈز سے غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب حکومتی بانڈز پر منافع کی شرح بھی پرکشش ہے اور اس کے ساتھ سٹاک مارکیٹ میں حصص کی قیمتیں بھی نچلی سطح پر موجود ہیں تاہم اس کے باوجود سرمایہ کار ان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں۔
شہریار بٹ نے بتایا کہ سٹاک مارکیٹ سے باہر کا سرمایہ کار تو نکل رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بڑے غیر ملکی سرمایہ کار ادارہ جاتی سرمایہ کاری کے طریقہ کار کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
تاہم وہ اب نہیں آ رہے اور جو موجود تھے وہ بھی پاکستان کی مارکیٹ سے نکل رہے ہیں۔
شہریار نے بتایا کہ ’بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے بہت سرمایہ کاری کی تاہم اب وہ بھی ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر کاربند ہیں۔‘
شہریار نے بتایا کہ ’جب پاکستان کی سٹاک مارکیٹ کا سٹیٹس ایمرجنگ سے فرنٹیئر مارکیٹ میں ہوا تو اس وقت بہت سارے بڑے غیر ملکی سرمایہ کار نکل گئے تھے اور اب حالیہ دنوں میں بھی ان کا اخراج دیکھا گیا۔‘
ایم سی بی عارف حبیب انویسٹمنٹس کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر محمد عاصم نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’پاکستان میں جو اس وقت روپے کی قدر کی اور مہنگائی کی صورتحال ہے اس کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر جو اس وقت اجناس کی قیمتیں ہیں اس کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں کا توازن مسئلہ بنا ہوا ہے۔
’اس صورتحال میں جب کوئی انوسٹر سرمایہ کاری کرے گا اور اسے پتا نہیں کہ کل کرنسی کی کیا ویلیو ہو گی تو اس کی وجہ سے وہ سرمایہ کاری کرنے سے گریز کر رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کی سیاسی صورتحال بھی اس میں کسی حد تک اپنا کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ اس وقت حکومت کی ساری توجہ تو سیاسی امور پر لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ معیشت پر توجہ دینے سے قاصر ہے۔ جس کا اثر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے پاکستان کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری پر پڑا۔‘
انھوں نے پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کو حتمی شکل دینا بہت ضروری ہے تاہم جو صورت حال بنی ہوئی ہے اس کی وجہ سے اس پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔
پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی میں شعبہ تحقیق کے سربراہ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ ’اس وقت دنیا بھر میں جو جیو پولیٹیکل صورتحال ہے اس کے ساتھ پاکستان کی صورت حال بھی پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر اثر ڈال رہی ہے۔‘
انھوں نے ایک جانب امریکہ کے فیڈرل ریزرو نے شرح سود میں اضافہ کر کے سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کیا ہے جس کا اثر پاکستان کی مارکیٹ پر بھی پڑا اور یہاں سے سرمائے کا اخراج ہوا۔ اسی طرح ہماری اندرونی سیاسی صورت حال کی وجہ سے بھی ایک غیر یقینی صورتحال نے سٹاک مارکیٹ کو اپنے زیر اثر لیا ہوا ہے۔
سیاسی بحران، روپے کی قدر میں کمی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج
پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کی وجہ سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
اس مہینے کے آغاز پر ایک امریکی ڈالر کی قیمت 177.47 روپے تھی جو اب 182.30 سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
روپے کی قدر میں مسلسل کمی پر سیکرٹری جنرل ایکسچینج کمپنیز اسوسی ایشن آف پاکستان ظفر پراچہ نے کہا کہ ’روپے کی قدر میں گراوٹ کی معاشی کے ساتھ ساتھ سیاسی وجوہات بھی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب ملک کا تجارتی و جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے روپے پر دباؤ ہے اور اس کے ساتھ آئی ایم ایف سے اگلی قسط کے حصول اور چین سے قرضے ری شیڈول کرنے کے لیے حکومت کی پوری توجہ درکار ہے تو اس وقت وہ سیاسی مسائل میں پھنسی ہوئی ہے جس کا اثر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت پر پڑ رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس ساری صورت حال نے روپے کے لیے ایک منفی فضا بنا دی ہے۔‘
عارف حبیب لمٹیڈ کے چیف ایگزیکٹو شاہد علی حبیب نے کہا کہ ’غیر ملکی سرمایہ کاری کے اخراج کی ایک وجہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی بھی ہے۔ تین چار مہینے سے ملک میں سیاسی بے یقینی کی فضا ہے جس کا اثر معیشت پر بھی پڑا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب ایک غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو ڈالر میں کرتا ہے لیکن یہاں روپے کی قدر میں اتنی تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے کہ اگر اسے سرمایہ کاری میں نفع بھی ہو تو جب وہ ڈالر میں پیسے لے جانا چاہے گا تو روپے کی گھٹتی قدر کی وجہ سے وہ منافع زائل ہو جاتا ہے۔‘
انھوں نے ایسی صورتحال میں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی سٹاک مارکیٹ اور حکومتی بانڈز میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔
شاہد نے کہا کہ ’ڈالر اور روپے کی درمیان قدر میں کچھ استحکام آئے تو غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی مارکیٹ میں آ سکتا ہے کہ جب اسے اس کا یقین ہو کہ اس کی ڈالر میں کی جانے والی سرمایہ کاری پر جب وہ نفع واپس لے گا تو وہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کم نہیں ہو گا۔‘