برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں اسلاموفوبیا اور یہود مخالف واقعات میں اضافہ کیوں؟
برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں غزہ میں جاری جنگ کے دوران مسلمانوں سے نفرت (اسلاموفوبیا) اور یہود مخالف واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد سے مغربی ممالک میں مسلمانوں کو تعصب اور نفرت کا سامنا کرنا پڑا، اب مشرق وسطیٰ میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، اُس نے حالات کو اور بھی خراب کر دیا ہے۔
قارئین میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے واٹس ایپ، فیس بک، ایکس وغیرہ پر کوئی ایسی ویڈیو نہ دیکھی ہو جس میں مغربی ممالک میں کسی مسلمان کو اس کے مذہب، حجاب وغیرہ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہو۔
برطانوی معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے واقعات پر نظر رکھنے والی تنظیم ٹیل ماما نے عام شہریوں کی ہراسانی اور تعصب کا نشانہ بننے کے بہت سے واقعات ریکارڈ کیے ہیں۔
ایک مسلمان سکول ٹیچر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر اپنے طالب علموں کے ساتھ سفر کر رہی تھیں کہ اس دوران ایک بڑی عمر کی خاتون نے اُنھیں تعصب کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’آپ کو تو ٹیچر ہونا ہی نہیں چاہیے‘ اور پھر بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کو زہر دیں گی، ہوشیار رہنا!‘
مگر اس نوعیت کے کئی واقعات معمول کا حصہ ہیں، جیسے مسلمان خواتین کے سر سے حجاب کھینچنا یا کہیں مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو ’واپس اپنے ملک جانے‘ کا کہنا۔
مگر مغربی دنیا میں یہ نفرت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک مثال غزہ میں جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد امریکہ میں ایک مسلمان خاندان پر انتہائی وحشیانہ حملہ ہے۔
اس حملے میں چھ برس کے ودی الفیوم کا قتل انتہائی بے رحمی سے کیا گیا۔ فٹبال کے شوقین ودی اپنی والدہ کے ساتھ امریکی ریاست الینوائے میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ اس حملے میں ودی کی والدہ بُری طرح زخمی ہوگئیں۔ ودی کے 71 سالہ مکان مالک جوزف زوبا نے انھیں ان کے مذہب اور غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا۔ جوزف زوبا پر نفرت کی بنیاد پر قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔
نفرت پر مبنی جرائم یا ہیٹ کرائم کی بنیاد نسلی، مذہبی یا جنسی تعصب ہو سکتی ہے۔ چاہے زبانی ہو یا جسمانی، دھمکی آمیز رویہ ہو، آن لائن بلیئنگ ہو یا کسی کی املاک کو نقصان پہنچانا۔ یہ سب ہیٹ کرائم کی مختلف شکلیں ہیں۔ اور غزہ کی جنگ کے بعد سے برطانیہ اور امریکہ جیسے ملکوں میں ایسے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
’مسلمان مخالف واقعات میں سات گنا اضافہ‘
برطانوی ادارے ٹیل ماما کے مطابق ملک میں سات اکتوبر سے 13 دسمبر تک مسلمان مخالف واقعات میں سات گنا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب کمیونٹی سیفٹی ٹرسٹ کے مطابق حماس کے حملے کے بعد تقریباً دو مہینوں میں برطانیہ میں یہود مخالف واقعات میں چھ گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
یہ انتہائی خطرناک اعداد و شمار ہیں اور یونیورسٹی آف لیورپول سے وابستہ ڈاکٹر ایاز ملک کے مطابق دنیا میں جو حالات پیدا ہوگئے ہیں اور جو معاشی بحران ہے، اُس میں دائیں بازو کی قوتیں حاوی ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے منقسم ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر ملک مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں حکمران طبقے کا بھی ایک کردار ہے کیونکہ وہ براہ راست اور بالواسطہ طریقوں سے ان گروہوں کو تقویت دیتے ہیں اور اس وجہ سے تقسیم بڑھ رہی ہے۔
یہودیوں کے لیے آواز اُٹھانے والے ادارے اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کے مطابق امریکہ میں اسرائیل حماس کی لڑائی شروع ہونے کے بعد یہود مخالف واقعات میں 400 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کاؤنسل فار امریکن اسلامک ریلیشنز کے مطابق اس ہی عرصے میں اسلاموفوبیا اور عرب مخالف واقعات میں 200 فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اعداد و شمار چاہے جتنے خوفناک ہی کیوں نہ ہوں پڑھنے والے اکثر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ صرف نمبرز نہیں ان کے پیچھے انسانی زندگیاں ہوتی ہیں۔
ایسے واقعات کے بعد متاثرین کی زندگیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل جاتی ہیں۔
نفرت کا شکار ہونے والے افراد کا تنازعے سے خود تعلق بھی نہیں ہوتا مگر وہ ایک محضوص گروہ کے لیے نفرت کی وجہ سے نشانے پر آجاتے ہیں۔
ایلیٹ برکس آرتھوڈوکس یہودی ہیں اور برطانیہ کی ایک معروف یونیورسٹی میں طالبعلم ہیں۔ اسرائیل اور حماس کی لڑائی کے بعد انھیں نفرت اور تعصب کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر کپاہ پہننے کی وجہ سے جو ایک مخصوص ٹوپی ہے جو یہودی پہنتے ہیں۔
ایلیٹ کہتے ہیں کہ ’جب میں اپنی ٹوپی پہن کر گھومتا ہوں تو بعض لوگ نفرت انگیز لہجے میں مجھ سے میرے عقیدے کے بارے میں پوچھتے ہیں یا حقارت بھرے لہجے میں میرے مذہب کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ میرے دوستوں کو تو جان لینے کی دھمکیاں بھی ملی ہیں۔‘
نفرت کی یہ جو لہر چل رہی ہے اس کے پیچھے مذہب کی بنیاد بنا کر لوگوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے واقعات کا شمار ہیٹ کرائمز یا نفرت پر مبنی جرائم میں کیا جاتا ہے مگر برطانیہ جیسے ملک میں اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔
برطانوی پارلیمان کی رکن سارہ اونز کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’جہاں اسلاموفوبیا کے واقعات بڑھ رہے ہیں وزرا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
’پارلیمان میں سیاسی جماعتیں اسلاموفوبیا کی تعریف کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہیں۔‘
پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے سارہ اونز نے اسلاموفوبیا کے بارے میں اعداد و شمار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اصل تعداد کا بہت ہی معمولی سا حصہ ہیں کیونکہ اس بارے میں رپورٹنگ پوری طرح نہیں کروائی جاتی اور غلط رپورٹنگ ہوتی ہے۔ ’یہ بہت ہی ضروری ہے کہ حکومت سب جماعتوں کی تجویز کردہ اسلاموفوبیا کی تعریف کو تسلیم کریں تاکہ اس مسئلے کا سامنا کیا جاسکے۔‘
سارہ اونز برطانوی حکومت کے سامنے یہ سوال بھی اُٹھاتی ہیں کہ جب تک حکومت اسلافوبیا کی تعریف کو تسلیم نہیں کرتی تو وہ اس مسئلے کو کیسے حل کرے گی۔
برطانیہ میں حزب اختلاف کی رکن پارلیمان ڈان بٹلر کہتی ہیں کہ حکومت میں اسلاموفوبیا کے بارے میں مشیر کی پوزیشن ایک سال سے خالی ہے اور یہ مسلم کمیونٹی کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو اس پوزیشن کو پُر کرنا چاہیے اور اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے مزید وقت اور پیسے خرچ کرنے چاہییں۔