برطانوی وزیراعظم رواں ماہ کے اختتام پر نئے وزیرخزانہ وسط مدتی مالیاتی پلان کا اعلان کریں گے
برطانیہ کے وزیرِ خزانہ کوازی کوارٹینگ نے تصدیق کی ہے کہ انھیں ان کی مرضی کے خلاف وزیرِ اعظم لز ٹرس نے اپنی کابینہ سے برطرف کر دیا ہے۔
انھوں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ تصدیق کی کہ انھیں یہ عہدے چھوڑنے کا کہا گیا۔
برطانیہ کی وزیراعظم لز ٹرس نے وزیراعظم آفس میں ایک مختصر پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے کہا کہ انھیں کوزی کواٹینگ کو بطور وزیرخزانہ کھو کر بہت دکھ ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ ان کے نئے نامزد کردہ جریمی ہنٹ ان کے وژن کے مطابق کام کرتے ہیں۔
وزیراعظم نے نے تصدیق کی کہ نئے وزیرخزانہ وسط مدتی فسکل پلان دیں گے، جس میں حکومت اس مہینے کے اختتام پر ٹیکس اور اخراجات سے متعلق مزید تفصیلات شیئر کرے گی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل جب جب یہ خبر سامنے آئی کہ اب کوازی چانسلر یعنی وزیرِ خزانہ نہیں رہے تو گزشتہ آدھے گھنٹے میں پاؤنڈ کی قدر میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
لز ٹرس نے اپنی پریس کانفرنس میں اعتماد بحالی کے اقدامات کے تحت منی بجٹ میں کارپوریشن ٹیکس منجمد کرنے کے حکومتی فیصلے واپس لینے کا اعلان کیا یعنی اپنے پہلے فیصلوں پر یوٹرن لے لیا۔
اس کا مطلب ہے کہ ٹیکس اب 19 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہو جائے گا۔۔۔ ایک ایسی پالیسی جس کا پہلے سابق چانسلر رشی سنک نے وعدہ کیا تھا۔ برطانیہ وزیراعظم لز ٹرس نے کہا کہ اس اقدام سے ہر سال ٹیکسوں میں 18بلین پاؤنڈز کا اضافہ ہوگا۔
وزیر اعظم کو صحافیوں کی طرف سے بار بار پوچھا گیا کہ وہ اس عہدے پر کیوں رہیں جب انھوں نے کوازی کوارٹینگ کو ان پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے چانسلر کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا جن کا وہ مسلسل مطالبہ کر رہے تھے۔
وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ معاشی استحکام اور معاشی پیدواری صلاحیت بڑھانے کے لیے کام کرتی رہیں گی۔
برطانوی وزیرِ اعظم لز ٹرس کے بہت اہم اور کلیدی کابینہ کے رکن اور اطلاعات کے مطابق گرینچ میں ان کے پڑوسی ہیں جو چند ہفتوں میں ہی ان کی ٹیم سے باہر ہو گئے ہیں۔
بی بی سی کے سیاسی امور کے ایڈیٹر کرس مورس کے تجزیے کے مطابق سیاسی رپورٹنگ میں برتری کا پہلو نمایاں ہوتا ہے لیکن یہ واقعی بہت حیران کن ہے۔
لز ٹرس اور کوازی کوارٹینگ پرانے دوست ہیں، اور کنزرویٹو پارٹی کے ایک ہی ونگ سے ہیں۔ انھوں نے پالیسی کے حوالے سے جو کوشش کی ہے وہ سیاست پر ان کے نقطہ نظر کا مرکز ہے۔
مگر اب وزیرخزانہ 40 دن کے کم عرصے میں ہی سارے منظر نامے سے باہر ہو گئے ہیں۔
ڈاؤننگ سٹریٹ میں ایک نیوز کانفرنس میں مالی عدم استحکام پر بات ہونے کے امکانات ہیں مگر اس وقت برطانیہ کے پاس خزانے کا چانسلر نہیں ہے۔
وزیر اعظم اس وقت تک سوالات کا سامنا نہیں کرنا چاہیں گے جب تک وہ اس بات کا جواب نہ دے دیں کہ وزارت خزانہ کون چلاتا ہے۔
پارٹی میں کچھ لوگ یہ بحث کر رہے ہیں کہ مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے اسے ایک نئے چانسلر میں جس چیز کی تلاش کرنی چاہیے وہ ان کی ساکھ ہے۔
کنزرویٹو بینچوں پر دو ارکان، رشی سونک اور ساجد جاوید ہیں جو وزیرِ خزانہ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔
کوازی کوارٹینگ کے سیاسی کرئیر کا ایک سرسری جائزہ یہ ہے:
لز ٹرس کی طرح ’کلاس آف 2010 کے ایک رکن، سپیلتھورن، سرے سے رکن منتخب ہوئے، جب اُس برس عام انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نے اقتدار حاصل کیا۔
کوازی نے سنہ 2016 میں یورپی یونین سے نکلنے کی تحریک کی حمایت کی۔
کوازی بورس جانسن کی حکومت میں بزنس سیکرٹری بنے، جسے بورس جانسن کی حمایت کے بدلے ملنے والی نوازشات کے طور پر دیکھا گیا۔
لز ٹرس کی سنہ 2022 کی اپنی لیڈرشپ مہم کی حمایت کی اور وزیر خزانہ بنائے جانے سے پہلے انھیں وزیر اعظم کی سیاسی روح کے طور پر بیان کیا گیا۔
23 ستمبر کو ایک منی بجٹ پیش کیا جس میں 45 بلین پاؤنڈز ٹیکس میں کٹوتیوں کا وعدہ کیا گیا، قرضوں کے ذریعے فنڈز فراہم کیے گئے، جس کے بعد مارکیٹ میں افراتفری اور بینک آف انگلینڈ کی مداخلت عمل میں آئی۔