امریکی بحریہ کے جنگی بیڑے نے بحر ہند میں مشقوں کے لیے انڈیا سے اجازت کیوں نہیں لی؟
رواں ہفتے امریکی بحری جہاز جان پال جونز (ڈی ڈی جی 53) نے لکشدیپ جزائر کے مغرب میں تقریباً 130 ناٹیکل میل کے فاصلے پر انڈیا کے خصوصی اقتصادی زون میں ایک مشقوں کی مہم کی انجام دہی کا دعویٰ کیا ہے۔
یہ مشقیں سات اپریل کو ہوئی اور اہم بات یہ ہے کہ یہ انڈیا سے اجازت لیے بغیر ہوئیں۔
اس واقعے کی تصدیق امریکی بحریہ کے ساتویں بیڑے نے خود کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے اس کا حق بھی حاصل ہے اور آزادی بھی۔
ساتواں بیڑہ امریکی بحریہ کا سب سے آگے تعینات رہنے والا بیڑہ ہے اور اس کے دائرہ کار میں مغربی بحر الکاہل اور بحر ہند شامل ہیں۔
اپنے باضابطہ بیان میں ساتویں بیڑے نے اس کارروائی کی انجام دہی کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق قرار دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’فریڈم آف نیویگیشن آپریشن کے مطابق بین الاقوامی قانون کے تحت حقوق، آزادی اور سمندر کے قانونی استعمال کو برقرار رکھا گیا ہے اور انڈیا کے وسیع تر سمندری دعوؤں کو چیلنج کیا گیا ہے۔‘
ساتویں بیڑے نے یہ بھی کہا کہ تمام آپریشنز بین الاقوامی قانون کے مطابق انجام دیے گئے ہیں اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ جہاں بھی بین الاقوامی قانون کے تحت اجازت ہو گی وہاں امریکی جہاز پرواز کریں، بحری جہاز جائیں اور کارروائی کریں گے۔
بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ’امریکہ معمول کے مطابق اور عام طور پر فریڈم آف نیویگیشن آپریشنز کرتا ہے۔ ایسا انھوں نے پہلے بھی کیا ہے اور مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے۔ نیویگیشن کی آزادی نہ تو کسی خاص ملک کے بارے میں ہے اور نہ ہی صرف سیاسی بیانات دینے کے بارے میں۔’
کیا انڈیا کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے ملک کا جہاز آ سکتا ہے؟
نیویگیشن کی آزادی کو بین الاقوامی قانون میں تسلیم کیا گیا ہے لیکن اس قانون میں بہت سی شرائط بھی ہیں اور متنازع معاملہ یہ ہے کہ کیا کوئی دوسرا ملک انڈیا کی اجازت کے بغیر اس کے خصوصی اقتصادی زون میں جہاز بھیج سکتا ہے؟
امریکہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اسے یہ حق حاصل ہے لیکن انڈیا کا بحری قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔
انڈیا کا کہنا ہے کہ کوئی غیر ملکی جہاز اس کی اجازت کے بغیر انڈیا کے خصوصی اقتصادی زون سے نہیں گزر سکتا۔
انڈیا نے کیا کہا ہے؟
انڈیا کی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سمندر کے قانون سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کے بارے میں حکومت ہند کا مؤقف یہ ہے کہ کنونشن دوسری ریاستوں کو خصوصی معاشی زون میں اور براعظمی شیلف میں فوجی مشقیں یا جنگی مشق کرنے کی اجازت دینے کا اختیار نہیں دیتا، خاص طور پر وہ مشقیں جن میں ساحلی ریاست کی رضامندی کے بغیر ہتھیاروں یا دھماکہ خیز مواد کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘
وزارت خارجہ نے کہا: ’یو ایس ایس جان پال جونز پر خلیج فارس سے آبنائے ملاکا کی جانب مسلسل نگرانی کی جارہی تھی۔ ہم نے سفارتی چینلز کے ذریعہ اس واقعے پر امریکی حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔‘
انڈین بحریہ کے ریٹائرڈ کموڈور سی اُدے بھاسکر سوسائٹی فار پبلک سٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور امریکہ کی سمندروں کے قانون سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی مختلف تشریحات ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اگر امریکہ نے مشق کے دوران کوئی فائرنگ کی تھی یا نہیں کیونکہ پھر اس صورتحال میں نام نہاد مشق کی نوعیت بدل جاتی ہے۔‘
ادے بھاسکر کے مطابق ’ایک صورتحال ’انوسینٹ پیسیج‘ کی ہوتی ہے جس میں مشق کرنے سے پہلے اس ملک کو آگاہ کیا جاتا ہے جس کے مخصوص معاشی زون سے آپ گزرنے والے ہیں۔ جب آپ کو مشق کے دوران فائرنگ کرنی ہو تو آپ کو نوٹس ٹو میرینرز جاری کرنا ہوتا ہے۔‘
بھاسکر کے مطابق ’یہ کہنا مشکل ہے کہ وہاں کیا کچھ ہوا ہے کیونکہ اگر فائرنگ ہوئی تو اس مشق کی نوعیت بدل جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا: ’بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انڈیا اور امریکہ میں اقوام متحدہ کے سمندری قانون کی مختلف تشریحات کی گئی ہیں اور یہ امریکہ کے لیے ایک عجیب و غریب صورتحال ہے کیونکہ انھوں نے اقوام متحدہ کے اس کنونشن کی توثیق نہیں کی۔
’لیکن ان کا اصرار ہے کہ وہ تمام پروٹوکولز پر عمل کرتے ہیں، لہٰذا پوری بات قدرے مبہم معلوم ہوتی ہے۔‘
خصوصی اقتصادی زون کیا ہے؟
مخصوص معاشی زون 200 ناٹیکل میل یعنی کسی بھی ملک کے ساحل سے 370 کلومیٹر کے فاصلے تک ہوتا ہے۔
امریکی بحریہ کے ساتویں بیڑے نے سات اپریل کو مالدیپ کی سمندری حدود اور خصوصی معاشی زون سے گزرتے ہوئے اسی طرح کی کارروائی کی۔
یہ واقعات یقیناً انڈیا کے لیے چونکا دینے والے ہیں کیونکہ انڈیا اور امریکہ قریبی اتحادی ہیں اور بحر ہند کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔
دونوں ممالک کواڈ گروپ کے ممبر بھی ہیں، جن کا ایک بڑا مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا ہے۔ ایسے میں جس طرح سے یہ کارروائی کی گئی ہے اور جس انداز میں اس کا اعلان کیا گیا ہے انڈیا کے لیے اسے نظرانداز کرنا مشکل ہو گا۔
بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں
انڈین بحریہ کے سابق سربراہ ارون پرکاش نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ انڈیا نے 1995 میں اقوام متحدہ کے بحری قانون کی توثیق کی تھی جبکہ امریکہ اس میں ناکام رہا تھا۔
’یہ اپنے آپ میں برا ہے کہ ساتویں بحری بیڑے نے انڈیا کے اقتصادی علاقے میں فریڈم آف نیوی گیشن مشن کو ہمارے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرانجام دیا۔ انھوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ وہ اس کی تشہیر بھی کر رہے ہیں۔‘
ارون پرکاش نے یہ بھی کہا کہ بحیرہ جنوبی چین میں امریکی بحری جہازوں کے ذریعہ فریڈم آف نیوی گیشن آپریشن (چاہے وہ کتنے ہی غیر مؤثر ہوں) چین کو ایک پیغام دینے کے لیے ہوتے ہیں کہ بحیرہ جنوبی چین کے اردگرد خصوصی اقتصادی زون ’حد سے بڑا سمندری دعویٰ‘ ہے۔
پرکاش نے یہ بھی پوچھا کہ ساتویں بیڑے کا انڈیا کے لیے کیا پیغام ہے؟
ساتواں بیڑا کیا ہے؟
یہ امریکی بحریہ کی جانب سے سب سے آگے تعینات کیا جانے والا سب سے بڑا بیڑا ہے۔ کسی بھی وقت اس بیڑے پر 50 سے 70 جہاز اور سب میرینز، 150 طیارے اور 20 ہزار کے قریب بحری عملہ موجود ہوتا ہے۔
اس بیڑے کو بحریہ کے فلیگ آفیسر کی جانب سے تین سطحوں پر کمانڈ کیا جاتا ہے۔
ساتویں بیڑے کا دائرہ عمل 124 ملین مربع کلومیٹر سے زیادہ کا ہے جو کہ بین الاقوامی ڈیٹ لائن سے انڈو-پاک سرحد تک اور شمال میں جزیرہ کریل سے لیکر جنوب میں انٹارکٹک تک پھیلا ہوا ہے۔
ساتویں بیڑے کے کام کرنے کا رقبہ 36 ممالک پر مشتمل ہے جو کہ دنیا کی 50 فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔ ساتویں بیڑے نے 75 برسوں سے زیادہ عرصے کے لیے ہند، بحر الکاہل میں اپنی موجودگی برقرار رکھی ہے۔