اسرائیل میں رعام پارٹی کے منصور عباس، جو کنگ میکر کے طور پر سامنے آئے
حال ہی میں جب اسرائیل اپنے بدترین فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں تھا تو کسی کو بھی یہ امید نہیں تھی کہ کچھ دنوں میں قومی اتحاد کی ایک انوکھی حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے جس میں دائیں بازو، سینٹرسٹ اور بائیں بازو یعنی مختلف مکتبہِ فکر کی جماعتیں تو شامل ہوں گی ہی ساتھ میں ایک عرب پارٹی بھی اس میں اہم کردار ادا کرے گی۔
یہ اسرائیل میں پیدا ہونے والا ایک ایسا نادر موقع ہے جو سنہ 1948 میں اس کی تشکیل کے بعد سے اب تک ناقابل تصور تھا۔
سیاسی عدم استحکام سے گزرنے والے اسرائیل میں کچھ عرصے سے اس بات کے امکانات نظر آرہے تھے لیکن حالیہ تناؤ ایک بڑی رکاوٹ بن گیا اور ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ خیال بس خواب ہی رہ جائے گا۔
اگر اس قسم کی کوئی حکومت بنتی ہے اور اسے اسرائیلی پارلیمنٹ منظور کر لیتی ہے تو یقینی طور پر یہ معاشرتی سطح پر شدید طرح سے منقسم خطے کے لیے ایک بہت اہم پیش رفت اور تجربہ ثابت ہو گا۔ اس مخلوط حکومت کے بارے میں خاص بات یہ ہو گی کہ اس میں شامل ہر فریق کی اپنی ایک خاص اہمیت ہو گی اور سب کا تعاون لازمی ہو گا۔
عباس حکومت میں شامل ہوں گے
120 رکنی اسرائیلی پارلیمنٹ میں صرف 61 ارکان کی حمایت سے تشکیل دی جانے والی حکومت کے لیے ہر آنے والا دن مشکل ہے۔
واضح رہے کہ حکومت میں شامل عرب پارٹی ‘رعام’ یا یونائیٹڈ عرب پارٹی باہر سے حکومت کی حمایت نہیں کر رہی ہے بلکہ اس کا ایک حصہ ہے۔
اسرائیلی اخبار ہیرٹز کے ایک صحافی انشیل فیفر نے اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ کی جانب سے صدر ریوون ریولن کو حکومت سازی کے لیے ضروری حمایت حاصل کر لینے کی خبر دینے سے کچھ گھنٹے قبل ٹویٹ کیا: ‘آج رات اور اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے دن تک خواہ کچھ بھی ہو یہ ایک تاریخی تصویر ہے۔ ایک عرب-اسرائیلی پارٹی کے رہنما اور ایک یہودی- قوم پرست جماعت کے رہنما مل کر حکومت میں شامل ہونے کے معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔’
انھوں نے ٹویٹ کے ساتھ رعام پارٹی کے سربراہ منصور عباس کی ایک تصویر بھی پوسٹ کی جس میں وہ دائیں بازو کی یامینا پارٹی کے رہنما نفتالی بینیٹ اور سینٹرسٹ پارٹی یش عتید کے یائر لیپڈ کے ساتھ اتحاد کے معاہدے پر دستخط کرتے نظر آرہے ہیں۔
عرب رہنما کی پہلی بار شرکت
یہ تصویر جمعرات کو ملک میں بحث کا موضوع بن گئی اور تمام ذرائع ابلاغ ‘تاریخی لمحے’ کے بارے میں بات کرنے لگے۔ اس سے قبل کسی نے بھی کسی عرب رہنما یا پارٹی کا اسرائیلی حکومت میں شامل ہونے کا تصور نہیں کیا تھا۔
اس اہم کارنامے کے ساتھ ہی اسرائیل میں ایک پُر امید رویہ دیکھا جاتا ہے۔ گلیوں اور میڈیا میں بھی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ لوگوں کو احساس ہے کہ یہ کوئی آسان تجربہ نہیں ہے لیکن آبادی کا بڑا حصہ اس کے بارے میں سازگار رویے کا اظہار کر رہا ہے۔ اسی کے ساتھ اس نئی پیشرفت نے بہت سارے سوالات بھی اٹھائے ہیں۔
خاص طور ایسے موضوعات زیرِ بحث ہیں کہ آخر یہ عرب رہنما کون ہیں جو ٹریک سے ہٹ کا اتنا بڑا فیصلہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ حکومت زیادہ دن چل سکے گی؟ اسرائیل کے اندر، علاقائی سیاست اور بین الاقوامی سطح پر اس اتحاد کا کیا اثر پڑے گا؟
عباس ماسٹر ڈگری بھی حاصل کر رہے ہیں
یونائیٹڈ عرب لسٹ یا رعام کے سربراہ ڈاکٹر منصور عباس پیشے کے اعتبار سے دانتوں کے ڈاکٹر ہیں۔ 47 سالہ عباس اسرائیل کے شمالی حصے میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ جوانی کے وقت سے ہی سیاست میں سرگرم ہیں اور عبرانی یونیورسٹی میں عرب طلبہ کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔
فی الحال وہ حائفہ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر عباس اسلامی تحریک کی جنوبی شاخ کے نائب صدر بھی ہیں اور اگرچہ ان کا تعلق اسرائیل کے شمالی خطے سے ہے لیکن جنوبی علاقوں میں بھی ان کا بول بالا ہے۔
انھیں اسرائیل کے جنوبی علاقوں میں حمایت حاصل ہوئی جس کی وجہ سے ان کی پارٹی تمام قیاس آرائوں کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔ اسرائیلی انتخابی قوانین کے مطابق ایک جماعت کو پارلیمنٹ میں شامل ہونے کے لیے کم سے کم 3.25 فیصد ووٹ حاصل کرنے چاہییں۔
اس اصول کو وضع کرنے کا مقصد عرب جماعتوں کو پارلیمنٹ سے دور رکھنا تھا، لیکن اس کی وجہ سے وہ متحد ہو گئے اور پچھلے کچھ انتخابات میں تمام عرب جماعتوں نے مل کر مقابلہ کیا۔ عباس کو باقی عرب جماعتوں سے نظریاتی اختلافات تھے لیکن انھوں نے اسے پس پشت ڈالنے کا فیصلہ کیا۔
بہت سارے لوگوں نے اس فیصلے کو خودکش فیصلہ قرار دیا اور ابتدائی مرحلے میں ایسا لگتا تھا کہ وہ کم سے کم ووٹ فیصد کے معیار کو بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
اصولوں پر کتنے قائم ہیں؟
منصور عباس کے قریبی افراد کا کہنا ہے کہ شائستہ مزاج والے عباس اصولی اقدار پر قائم رہتے ہیں چاہے اس کے لیے انھیں کتنی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دوسرے عرب قائدین سے جو ان کا اختلاف تھا اس ضمن میں انھیں کامیابی ملے گی، اس کا کسی کو یقین نہیں تھا۔ عباس کا خیال ہے کہ اسرائیل میں عرب آبادی کی ترقی کا تقاضا ہے کہ ان کے قائدین مرکزی دھارے میں شامل یہودی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔
جب انھوں نے انتخابات سے قبل مقامی میڈیا کو یہ بات کھل کر بتائی تو عرب رہنماؤں نے ان کے خلاف مہم چلائی۔ تاہم وہ اس کو دہراتے رہے اور انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ باقی عرب جماعتوں نے ان کی جماعت کو گذشتہ انتخابات میں اپنے اتحاد میں شامل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے ہی ڈاکٹر عباس نے اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت پارلیمنٹ میں منتخب ہونے پر عربوں کی ترقی کی شرائط پر راضی ہونے والے کسی بھی مرکزی دھارے کی یہودی جماعت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہو گی۔
عرب یہودی تعلقات پر اثرات
اس فکر کے تحت وہ وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی حمایت کرنے کے لیے بھی تیار تھے لیکن ان کے اتحاد میں شامل دائیں بازو کی جماعتیں ڈاکٹر عباس کی پارٹی سے ہاتھ ملانے سے گریز کر رہی تھیں۔
اسرائیلی عرب آبادی کو اس کے لیے تیار کرنا اور ان کی حمایت حاصل کرنا ایک ناممکن کام سمجھا جاتا تھا، لیکن ڈاکٹر عباس اس میں کامیاب رہے۔ یہ کامیابی ان لوگوں کے لیے امید کی کرن ہے جو عرب یہودی برادری کے مابین اچھے تعلقات کی حمایت کرتے ہیں۔
عباس اور دوسرے عرب رہنماؤں کی سوچ میں ایک اور بڑا فرق ہے۔ وہ اسرائیلی ہونے سے پریشان نہیں ہوتے اور اپنی شناخت کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں۔
وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن کے حامی ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے عالم اسلام خود بخود اسرائیل کو قبول کر لے گا۔ انھوں نے عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے حالیہ معاہدوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر فلسطینیوں کے ساتھ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو پھر عرب ممالک کے ساتھ ایک ایک تعلقات جوڑنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
وہ اسلامی تحریک کے چارٹر کے معمار اور مصنف بھی ہیں جو وسطیہ اسلام (معتدل) کی توثیق کرتے ہیں۔ یہ ایک آزاد خیال ذہنیت کی تحریک کے طور پر ابھری ہے جس میں معاشرتی اصلاحات پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔
قومی اتحاد کی حکومت کے قیام کے بارے میں عباس کی بیشتر شرائط اسی سے متاثر ہیں اور انھوں نے اسرائیل کے عرب خطے میں جرائم اور تشدد سے نمٹنے پر زور دیا ہے۔ وہ عرب معاشرے میں جرائم کے خاتمے سے متعلق پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس کام کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔
عباس نے اسرائیل کی سیاست میں جگہ کیسے بنائی؟
باخبر ذرائع کے مطابق انھوں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کرنے کی شرط رکھی ہے اور اس کے خاکہ پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا ہے۔
ڈاکٹر عباس نے تمام پیچیدہ معاملات پر توجہ دینے کی بجائے عملی انداز اپناتے ہوئے عرب معاشرے کی داخلی ترقی پر زور دیا ہے۔ ان کی تمام شرائط عرب آبادی کے روز مرہ کے مسائل کے حل اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے موثر اقدامات سے متعلق ہیں۔
انتخابات کے بعد ایگزٹ پول میں کہا گیا ہے کہ ان کی پارٹی ووٹوں کی کم سے کم فیصد تعداد کو پورا نہیں کر سکے گی لیکن وہ پر اعتماد نظر آئے اور کہتے رہے کہ وہ کامیاب ہوں گے۔ کامیابی ان کے پاس اس طرح آئی کہ انتخابات کے بعد انھیں ‘کنگ میکر’ کا خطاب ملا اور بلا شبہ اگر نئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو وہ اس کے کنگ میکر ثابت ہوں گے۔
تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مجوزہ قومی اتحاد کی حکومت متعدد تضادات کا شکار ہے۔ اسرائیلی سیاست کے ہر دھارے کی جماعتیں اس میں شامل ہیں۔ شاید ہی کوئی معاملہ ہو جس پر ان تمام جماعتوں کے مابین اتفاق رائے کا تصور کیا جا سکے۔
ایسی صورتحال میں اس حکومت کے لیے ہر دن کام کرنا ایک چیلنج ہو گا۔ ایک چھوٹی سی چنگاری بھی بڑی آگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور اس کے گرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
نئی حکومت کب تک چلے گی؟
نئی حکومت کی کامیابی کا انحصار اسی بات پر ہو گا جس نے اس وژن کو حقیقت کا روپ دیا ہے۔ سمجھوتہ اس حکومت کی کلیدی اساس ہے اور یہ کب تک قائم رہے گا اس کا انحصار بھی اسی وژن پر ہے۔
تشکیل کے دوران ہر ایک نے جس سلوک کا مظاہرہ کیا ہے اس کو اسی طرح جاری رکھیں گے تو پھر طویل عرصے تک حکومت چلانے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے سیاست بے شمار امکانات کا کھیل ہے اور اسرائیلی سیاست بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
نئی حکومت کے قیام کے بعد اقتدار سے محروم ہونے والوں کا حکومت کی جانب راغب ہونے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
دو ہفتے قبل اسرائیل ایک بہت مشکل دور سے گزر رہا تھا۔ اب لگتا ہے کہ وہ زخم مندمل ہو رہے ہیں۔
پہلے ایسا لگنے لگا تھا کہ غزہ میں قائم شدت پسند تنظیم حماس نے اسرائیل میں اپنا اثر و رسوخ مضبوط کر دیا ہے۔ عباس کی اسرائیلی حکومت میں شمولیت اس دعوے کو کسی حد تک کھوکھلا کر دیتی ہے۔
کشیدگی کے دوران عباس نے مخلوط حکومت کے قیام سے متعلق بات چیت بند کر دی تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب وہ صرف اپنے حامیوں کے ساتھ ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں حماس کے پورے فلسطینی عوام کی رہنمائی کرنے کے دعوے کو زک پہنچی ہے۔ تاہم اسرائیلی عرب آبادی میں تنوع دیکھا جا سکتا ہے اور حماس کا مشرقی یروشلم میں مضبوط قبضہ بھی دیکھا جا سکتا ہے جبکہ شمالی علاقے جہاں اسرائیلی شہریت کے زیادہ تر عرب رہتے ہیں ان کی سوچ بہت مختلف ہے۔
فلسطینی انتظامیہ پر کیا اثر پڑے گا؟
جہاں تک فلسطینی صدر محمود عباس کی سربراہی میں فلسطینی انتظامیہ کا تعلق ہے تو یہ ان کے لیے خوشخبری ہو سکتی ہے۔ اگرچہ باضابطہ طور پر فلسطینی اتھارٹی نے کہا ہے کہ انھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اسرائیلی حکومت کی قیادت کون کر رہا ہے اور یہ کہ صرف ان کی پالیسیاں ہی ان کے لیے اہم ہیں۔
لیکن ایک عرب جماعت کا حکومت میں شامل ہونا دو سطحوں پر ان کے لیے فائدہ مند ہے۔
اس سے حماس کی گرفت اور یہ دعویٰ کہ وہ پورے فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتا ہے، کمزور ہو جائے گا اور فلسطینی اتھارٹی سے بات چیت کرنا آسان ہو گا۔ ویسے بھی غرب اردن تک محدود ہو جانے کی وجہ سے ان کا اسرائیل پر انحصار بہت زیادہ ہے اور وہ احتجاج کرنے کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کا تعاون جاری رکھیں گے۔
مشرق وسطیٰ کے بدلتے سیاسی منظر نامے پر یہ بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت میں شامل ہونے والی ایک عرب پارٹی اسرائیل کی شبیہہ کو بہتر بنانے میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے اور یہودی قوم کی عرب اور اسلامی دنیا میں پہچان حاصل کرنے کی کوشش کو تقویت بخش سکتی ہے۔
ایسے عرب ممالک جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے میں پس و پیش کا شکار ہیں ان کے سامنے اسرائیلی وفد میں منصور عباس جیسے قائدین کو پیش کرنا ایک اچھا قدم ہو سکتا ہے۔
اگرچہ اس وقت اس کو محض ایک خیال ہی تصور کیا جانا چاہیے لیکن اسرائیل میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ حالیہ دنوں تک ایک ناقابل تصور خیال ہی تھا۔
موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اسرائیل کے بارے میں وہ نرمی نہیں دکھائی ہے جو ٹرمپ حکومت کے دوران تھی۔ اگرچہ امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لیے اپنے عہد کا تسلسل سے اظہار کرتا رہا ہے لیکن وہ اسرائیل کی ہر شرط کو قبول کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ ایران کے معاملے میں اسرائیل سے متفق نہیں ہے اور اس طرح کے بہت سے معاملات ہیں جن پر دونوں فریقوں کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
نئی اسرائیلی حکومت کی قیادت ایسے دائیں بازو کے رہنما کریں گے جو ان معاملات پر سمجھوتہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے اس کے حامی بھاگ جائیں گے۔
عباس کا حکومت میں شامل ہونا ان کے لیے پہلے ہی سے خطرے کی علامت ہے۔ ایسی صورتحال میں ان کے لیے بین الاقوامی سطح پر بڑے معاہدے کرنا ناممکن ہو گا۔
امریکی اور یہودی قوموں میں یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس بات کی کوشش کی جائے کہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں اور قومی اتحاد کی حکومت اس ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتی ہے۔