آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے باوجود ڈالر کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے اور یہ کہاں جا کر رُکے گی؟
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گذشتہ روز ’قوم سے خطاب‘ میں موجودہ حکومت کی معاشی پالیسوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کو بتایا گیا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے پا جانے کے بعد پاکستانی روپے کی قدر ناصرف مستحکم ہو گی بلکہ ڈالر کی قیمت بھی نیچے جائے گی مگر اس کے برعکس ڈالر کی قیمت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ معاشی تنزلی کا یہ سفر اُس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آ جاتا اور عام انتخابات نہیں ہو جاتے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں ستمبر کے مہینے میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے اور ایک امریکی ڈالر کی قیمت جمعرات کے روز انٹربنک مارکیٹ میں 235.88 کی سطح پر بند ہوئی۔
ستمبر کے مہینے میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ایک ایسے وقت ریکارڈ کیا جا رہا ہے، جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پاکستان کے لیے قرضہ پروگرام کی بحالی ہو چکی ہے اور اس کے تحت پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر قرض کی قسط بھی موصول ہو چکی ہے۔
رواں ماہ کے ابتدائی 11 کاروباری دن میں سے مسلسل دس دن میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ دیکھا گیا جبکہ رواں ماہ کے پہلے 15 دن کے دوران ڈالر کی قیمت میں 17 روپے سے زائد کا اضافہ دیکھا جا چکا ہے۔
دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں بھی اضافے کا رجحان جاری ہے اور جمعرات کے روز اوپن مارکیٹ میں اس کی قیمت 241 کی بلند سطح پر بند ہوئی۔
پاکستان میں معیشت اور مالیاتی شعبے کے ماہرین کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافے کی مقامی کے ساتھ بین الاقوامی وجوہات بھی ہیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کے اجرا کے باوجود ڈالر کی قیمت میں کمی ریکارڈ نہیں کی جا سکی۔
اُن کے مطابق ملک میں موجودہ سیاسی عدم استحکام، سیلاب کی وجہ سے معیشت کی ابتر ہوتی صورتحال اور چند عالمی وجوہات کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں مستقبل قریب میں کسی کمی کا امکان نہیں۔
ان کے مطابق بیرونی فنانسنگ کے آنے سے کچھ دن تو ڈالر کی قیمت میں کمی ہو سکتی ہے تاہم معاشی اشاریے اور مارکیٹ کے عمومی رجحانات کی وجہ سے روپے کی قدر میں اضافے کا امکان نہیں۔
ڈالر کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوا؟
پاکستان میں 29 اگست 2022 کو یعنی آئی ایم ایف کی قسط کی منظوری کے روز ڈالر کی قیمت 221.92 روپے پر بند ہوئی تاہم اس کے بعد مسلسل تین کاروباری دن میں ڈالر کی قیمت میں تھوڑی کمی دیکھی گئی اور اس کی قیمت 218.60 کی سطح تک گر گئی۔
مگر یہ رجحان جاری رہنے کے بجائے ڈالر کی قیمت نے ایک بار پھر اوپر کی سطح کی طرف جانا شروع کیا اور مسلسل دس دن میں اس کی قیمت میں 17.28 روپے اضافہ کے بعد جمعرات کے روز کاروبار کے اختتام پر 235.88 روپے پر بند ہوئی۔
گذشتہ مہینے کی 16 تاریخ سے لے کر اب تک انٹربنک میں ڈالر کی قیمت میں 21.98 روپے اضافہ ہو چکا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ہونے والا اضافہ 31 روپے ہے۔
ڈالر کی قیمت میں اضافے کی کیا وجہ ہے؟
مالیاتی امور کے ماہر فہد رؤف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی سطح پر اس وقت دیکھا جائے تو ڈالر انڈیکس میں اضافہ ہو رہا ہے یعنی دیگر عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ عالمی معیشت کے حالات ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’عالمی سطح پر مہنگائی بڑھ رہی ہے اور کساد بازاری بھی ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کار ڈالر میں سرمایہ کاری کو فوقیت دے رہے ہیں۔‘
’عالمی مارکیٹ میں یورو، پاؤنڈ اور جاپانی ین کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا اور خطے میں دیکھا جائے تو بنگلہ دیشی ٹکے نے اس مہینے میں ڈالر کے مقابلے میں کافی قدر کھوئی ہے۔‘
فہد رؤف نے مزید بتایا کہ ایسی صورتحال میں پاکستان، جس کی معیشت پہلے ہی کمزور ہے اور ڈالر کی قلت بھی ہے، کے لیے ڈالر کی قدر کو برقرار رکھنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’عالمی سطح پر ڈالر کی مضبوطی کا پاکستانی کرنسی کی قدر پر منفی اثر ہوا ہے۔‘
ڈالر کی قیمت میں اضافے کی مقامی وجوہات پر تبصرہ کرتے ہوئے فہد رؤف نے بتایا کہ ’ہماری معیشت کی اس وقت خراب صورتحال ہے کیونکہ ڈالر ملک میں کم ہیں جبکہ درآمدات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے پاکستان کو ڈالر کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر سے زائد ملے تاہم اس کے مقابلے میں ڈالر کی پاکستان میں آمد کم ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان اپنی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے کے علاوہ عالمی بانڈ مارکیٹ سے بھی ڈالر قرضے پر لیتا ہے۔
’تاہم پاکستان کی قرضے واپس کرنے کی صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات کی وجہ سے عالمی سرمایہ کار پاکستانی بانڈ پر بہت زیادہ ریٹرن مانگتے ہیں جو 40 فیصد تک ہے اور بہت زیادہ ہے اور اس پر ڈالر اٹھانا ملک کے لیے مشکل ہے، جس کا ایک منفی اثر پاکستانی کرنسی پر پڑتا ہے اور سرمایہ کار اور پاکستانی برآمدکنندہ تک ڈالر کو پاکستان میں لانے کی بجائے باہر رکھتے ہیں۔‘
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’معاشی حالات خراب ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہیں، جس کا ایک نفسیاتی اثر کرنسی پر ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کے پیسے آنے کے بعد، دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے پیسے نہیں آئے جس کا اثر بھی مقامی کرنسی پر پڑا مگر پاکستان کا تجارتی خسارہ، جاری کھاتوں کا خسارہ اور امپورٹ پیمنٹ کا دباؤ سب مل کر روپے کو دباؤ میں لا رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو بے حد نقصان پہنچا ہے، کپاس کی فصل تباہ ہو گئی ہے جبکہ رواں برس چاول اور گندم کی پیداوار بھی متاثر ہو گی جس کی وجہ سے ملک کا درآمدی بل بڑھنے کا امکان ہے۔
’یہ سارے عوامل مل کر روپے کی قدر پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔‘
ڈالر کی قیمت کہاں رکے گی؟
ڈاکٹر پاشا کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت کہاں جا کر رکے گی اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ جو حالات نظر آ رہے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ سیلاب کے بعد ملک کی خوراک کی ضرورت کو بھی درآمدات سے پورا کیا جائے گا تو ایسی صورتحال میں تو پاکستانی روپے کے لیے حالات سازگار دکھائی نہیں دیتے۔
فہد رؤف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں آئندہ آنے والے دنوں میں ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ جو معاشی اشاریے ہیں اور مہنگائی کی جو شرح ہے اس میں ڈالر کی قیمت دو سو پچاس روپے تک جا سکتی ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت میں عالمی مارکیٹ میں اضافے کا رجحان تو برقرار ہے اور اس کے ساتھ پاکستان میں ڈالر کی آمد بھی نظر نہیں آتی۔