پیپلز پارٹی کھوئی مقبولیت بحال کرنے کے مشن پر: وہ ’سازش‘ جس سے پنجاب کی مقبول ترین جماعت ’زوال‘ کا شکار ہوئی
یہ جون 1967 کی بات ہے، ابھی پاکستان پیپلز پارٹی کے باضابطہ قیام کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو گاڑی میں صوبائی دارالحکومت لاہور سے فیصل آباد (جو اُس وقت لائلپور کے نام سے جانا جاتا تھا) کی جانب رواں دواں تھے اور شیڈول کے مطابق انھیں وہاں کسی عوامی جلسے سے نہیں بلکہ لائلپور بار سے خطاب کرنا تھا۔
لائلپور، جو اُس وقت حقیقی معنوں میں مزدورں کا شہر تھا، کے مزدور طبقہ تک جب یہ خبر پہنچی کہ بھٹو اُن کے شہر آ رہے ہیں تو وہ اتنی تعداد میں جمع ہو گئے کہ لائلپور، لاہور سڑک پر ٹریفک کا رواں رہنا محال ہو گیا۔
مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب ’ذوالفقارعلی بھٹو‘ میں اس واقعے کی تفصیل درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عوام کا جم غفیر اتنا تھا کہ لائلپور میں میرعبدالقیوم کی کوٹھی تک پہنچنے کا پانچ میل کا فاصلہ طے کرنے میں بھٹو کے قافلے کو ساڑھے چار گھنٹے لگے اور ہر طرف یہ نعرے ’ماریں گے، مَر جائیں گے، بھٹو کو لائیں گے‘ گونج رہے تھے۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے اس مجمعے سے ایک گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر خطاب کیا۔ اُن کی آواز زیادہ دُور تک نہیں جا پا رہی تھی کیونکہ وہاں موجود عوام کے نعروں کا شور آڑے آ رہا تھا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں بھٹو نے کنونشن لیگ سے علیحدگی کا رسماً اعلان بھی کیا اور بعدازاں 30 نومبر 1967 میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
اس کے بعد جب 1970 کے انتخابات ہوئے تو پاکستان پیپلز پارٹی نے جہاں پنجاب کے دیگر شہروں میں خاطر خواہ کامیابی سمیٹتی ہے وہاں لائلپور کی قومی اسمبلی کی نشستوں پر بھی یہی جماعت کامیاب رہی اور اس نے وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی اپنی حکومت بنائی۔
اُن انتخابات میں ملنے والی کامیابی کے بعد ہی ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ’ پنجاب اور سندھ کی چابیاں میرے پاس ہیں۔‘ اور اب اگر گذشتہ دہائی میں ہونے والے دو عام انتخابات (2013، 2018) کی بات کی جائے تو اِسی جماعت کے پاس پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 297 نشستوں پر کھڑا کرنے کے لیے امیدوار بھی پورے نہیں تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی پنجاب کی انتخابی سیاست میں تنزلی کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں کہا کہ ’ایک جماعت (پی پی پی) جس کی ابتدا ہی پنجاب سے ہوئی اسے باقاعدہ ایک سازش کے ذریعے اس صوبے (پنجاب) سے باہر کیا گیا۔‘
بلاول، جنھوں نے لاہور میں قومی اسمبلی کے ایک شہری حلقے سے بھی عام انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے، کا کہنا ہے کہ پنجاب کل بھی بھٹو کا تھا اور وہ اسے دوبارہ بھٹو کا پنجاب بنائیں گے۔
یہاں اہم سوالات یہ ہیں کہ ایک زمانے میں پنجاب کی مقبول ترین سیاسی جماعت کن وجوہات کی بنا پر اس نہج تک پہنچی اور بلاول بھٹو کی پنجاب کو دوبارہ ’پی پی پی کا گڑھ‘ بنانے کی خواہش کس حد تک حقیقت پسندانہ ہے؟ مگر اس سوالات کا جواب جاننے سے قبل پنجاب میں پیپلز پارٹی کی دہائیوں پر محیط انتحابی سیاست پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی پہلے سے دوسرے اور پھر چوتھے نمبر کی پارٹی کیسے بنی؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ 1970 میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ غریب اور درمیانے طبقات کے لیے انتہائی کشش کا حامل تھا اور اسی نعرے نے پیپلز پارٹی کو پاکستان میں ایک مقبول جماعت بنایا تاہم پارٹی کی سیاسی تاریخ میں ٹرننگ پوائنٹ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات بنے کیونکہ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ان میں حصہ نہ لیا۔ بعدازاں بینظیر بھٹو نے بھی انتخابات کے بائیکاٹ کے اس فیصلے کو بڑی سیاسی غلطی قرار دیا تھا۔
جعفر احمد کہتے ہیں کہ 1985 کے الیکشن کے بعد پنجاب کا سوشل لینڈ سکیپ بدل گیا اور ایسے سیاست دانوں کی ایک کلاس (الیکٹیبلز) پیدا ہوئی جن کے لیے کسی سیاسی جماعت کا پلیٹ فارم موجود ہونا ضروری ہی نہ رہا۔
جعفر احمد کی رائے میں مسلم لیگ ن اس بدلتے سوشل لینڈ سکیپ اور الیکٹیبلز کی مارکیٹ کو سمجھ گئی مگر پنجاب میں پیپلز پارٹی اسے نہ سمجھ سکی۔
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی جس نعرے کے ساتھ میدان میں آئی تھی آگے چل کر وہ اس نعرے سے دور ہوتی گئی، یعنی وہ ایک پاپولیسٹ پارٹی کی راہ کو چھوڑ کر ایک ایسی پارٹی کے طور پر آگے بڑھی جو صرف اپنے سے متعلقہ لوگوں، سیاستدانوں کو نوازتی ہے اور ان کے ذریعے سے ووٹ حاصل کرتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کی ورکنگ کلاس کے ساتھ اس کا وہ تعلق نہیں رہا جو ستر کی دہائی میں تھا۔
ضیغم خان کے مطابق وقت کے ساتھ پیپلز پارٹی کلاس بیسڈ پارٹی کے بجائے سافٹ سندھی نیشنلزم کو لے کر آگے بڑھی اور ایک خطے (سندھ) تک محدود ہوئی اور اگر آج آپ سندھ میں پی پی پی کو ووٹ دینے والے کسی ووٹر سے بات کریں گے تو وہ فخریہ انداز میں بتائے گا کہ پیپلز پارٹی سندھ کی اور سندھ والوں کی جماعت ہے، مگر اس شفٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس جماعت کی پنجاب میں مقبولیت بتدریج کم ہوتی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی حد تک بینظیر نے لیڈر شپ کے حوالے سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کیا مگر آصف زرداری ایسا نہیں کر سکے جس کے باعث پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں، بالخصوص پنجاب میں، ڈرامائی انداز میں تنزلی نظر آئی۔
ضیغم خان کہتے ہیں کہ ’ستر کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پنجاب میں تین مسلم لیگیں تھیں جو آگے چل کر اکھٹی ہوئیں اور ان کا ووٹ بینک ایک جگہ مجتمع ہوا۔ اسی دورانیے میں پنجاب میں نئے پاور سینٹرز بھی سامنے آئے اور پنجاب کی حد تک پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں بڑا زوال تحریک انصاف کے آنے کے بعد آیا کیونکہ اس جماعت (پی ٹی آئی) کے نعروں نے بھی ورکنگ اور پڑھی لکھی کلاس کے افراد کو متاثر کیا چنانچہ جو بچے کھچے پیپلز پارٹی کے رہنما پنجاب میں رہ گئے تھے وہ ان نعروں کی بدولت پی ٹی آئی کی جانب سدھار گئے۔‘
تاہم پنجاب سے پیپلز پارٹی کے دیرینہ رہنما چودھری منظور احمد کی رائے اس کے برعکس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سنہ 1977 کے بعد ہونے والے ہر الیکشن میں کسی نہ کسی دوسری سیاسی جماعت کو سپیس دینے کے لیے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں توڑا گیا۔
’یہ محض اتفاق نہیں کہ 1970 کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت نہ بنا سکی۔ 80 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے خلاف آئی جے آئی بنائی گئی۔ پنجاب میں ضیا کی سوچ سے مطابقت رکھنے والے لوگوں کو مسلط کیا گیا۔ ایسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو بھرپور طریقے سے ہمیشہ سپورٹ کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر طاہر کامران سمجھتے ہیں ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے متعدد مواقع پر بعض سیاستدانوں کو مجبور کیا کہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف جائیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بعد آنے والی پارٹی قیادت بشمول بے نظیر کے طرزِ سیاست میں فرق بھی اس کی ایک وجہ ہے۔‘
اُن کے مطابق ’بھٹو صاحب آزاد خارجہ پالیسی کے خواہاں تھے، اُن کی دبنگ شخصیت تھی اور اُن کا طرزِ سیاست ان کی وفات کے بعد کمپرومائز ہو گیا۔ پنجاب کے لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت جیسا سحر بعد میں پیپلز پارٹی کے کسی لیڈر میں نظر نہ آیا۔ بھٹو کا دبنگ انداز پنجاب کو پسند تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد پنجاب کی حد تک بینظیر کے ساتھ انتخابی سیاست سے دور اَپر مڈل کلاس اس جماعت سے منسلک ہوئی اور پھر نوے کی دہائی میں پنجاب کی حد تک سابق صدر آصف علی زرداری کی شکل میں بینظیر پر سیاسی بوجھ رہا جس کے باعث اس صوبے میں پی پی پی کا ووٹ بینک بہت متاثر ہوا۔‘
پنجاب کو پیپلز پارٹی کا گڑھ بنانے کا نعرہ کس حد تک حقیقت پسندی پر مبنی ہے؟
آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری لاہور کے حلقہ این اے 127 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ گذشتہ دِنوں اپنے حلقہ کے علاقہ ٹاؤن شپ میں اُنھوں نے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور کسی کاروباری اور کھلاڑی کا نہیں ،صرف بھٹو کا ہے۔‘
بلاول بھٹو پنجاب میں اپنی الیکشن مہم کے دوران متعدد مواقع پر صوبے میں اپنے پارٹی کی مقبولیت بحال کرنے کی بات کر چکے ہیں۔
لاہور کا گھُرکی خاندان پیپلز پارٹی سے دیرینہ وابستہ چلا آر ہا ہے۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے والی ثمینہ خالد گھُرکی سنہ 2008 کے الیکشن کے بعد کسی الیکشن میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے سینئیر رہنما قمر زمان کائرہ بھی سنہ 2008 کے بعد اپنی نشست نہیں جیت پائے۔ ایسا ہی معاملہ قصور سے تعلق رکھنے والے چودھری منظور کے ساتھ بھی ہے اور وہ 2002 کے بعد مسلسل تین عام انتخابات میں سیٹ نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔
پنجاب کے دیگر اضلاع میں ایسی ہی کئی مثالیں موجود ہیں اور ایک ایسی صورتحال میں جہاں پنجاب سے تعلق رکھنے والے اہم ترین رہنما اپنی سیٹ جیتنے کے حوالے سے پراعتماد نہ ہوں تو بلاول بھٹو زرداری اپنی پارٹی کو اس صوبے میں بحال کرنے میں کس حد تک مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں اور یہ کہ جب پارٹی سے دہائیوں سے منسلک دیرینہ خاندان ہی دباؤ کا شکار ہوں ،وہاں نئے سیاسی خاندان کیونکر اس پارٹی سے رجوع کریں گے؟
صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی کے پاس اِس وقت پنجاب کے ووٹرز کو متاثر اور متوجہ کرنے کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔ بلاول کے پاس آج بھی لگ بھگ وہی نعرے ہیں جو ستر کی دہائی میں ان کے نانا یا بعدازاں ان کی والدہ کے پاس تھے۔ ایسی صورتحال میں پارٹی کی بحالی مشکل نظر آتی ہے۔‘
ڈاکٹر طاہر کامران کے مطابق بلاول پنجاب کے ووٹرز اور نئی نسل سے جڑنا چاہتے ہیں مگر نہ تو ان کے پاس اس ضمن میں کوئی بیانیہ ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ۔
ڈاکٹر سید جعفر احمد یہ کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں تحریک انصاف کی آمد کے بعد سوشل میڈیا نے پنجاب کی سیاست کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا مگر پیپلز پارٹی اس کو استعمال کرنے سے بھی قاصر رہی اور آج صورتحال یہ ہے کہ اگر آج بلاول گوجرانوالہ میں کھڑے ہو کر جئے بھٹو کا نعرہ لگائیں گے تو پنجاب میں بہت سے ووٹرز کو یہ انتہائی عجیب اور مضحکہ خیز لگے گا۔‘
ضیغم خان کہتے ہیں کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی بڑی وجہ اس کی کرشماتی شخصیات تھیں جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو یا بینظیر بھٹو مگر دوسری جانب اب آصف علی زرداری ہیں جن پر، درست یا غلط، کرپشن کے بےتحاشہ الزامات رہے ہیں اور پنجاب کے ووٹرز کے ذہن میں پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی ایک مخصوص شبیہ ہے۔ دوسری جانب آصف زرداری بلاول کو کچھ اتنی خاص سپیس بھی نہیں دے رہے تو ایسی صورتحال میں ووٹرز کے لیے ایسی پارٹی سے شناسائی بحال کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب تک قیادت کی شبیہ کا یہ مسئلہ مکمل حل نہیں ہوتا تب تک پنجاب کی حد تک پیپلز پارٹی کے لیے اپنے آپ کو دوبارہ بحال کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
بشارت صدیقی لاہور میں پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن اور پارٹی کے نائب صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سیاسی جماعتوں میں اُتارچڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اپنے ورکرز کو نظرانداز کیا اور ایک طرح کا فاصلہ بھی رکھا، مگر اب صورتحال یہ ہے کہ بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کے کارکنان کو ہی اثاثہ سمجھتے ہیں اور اُنھوں نے لاہور میں جتنی بھی کارنر میٹنگز کیں ،اُس میں یہ اعادہ کیا کہ وہ اپنے ورکرز کو عزت دینا چاہتے ہیں اور ان کو ساتھ ملا کر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔‘
بشارت پرامید ہیں کہ بلاول کی قیادت پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بحالی میں مدد کرے گی۔