یہ کہاں کا قانون ہے کہ کوئی بھی معزز شہری بن

یہ کہاں کا قانون ہے کہ کوئی بھی معزز شہری بن

یہ کہاں کا قانون ہے کہ کوئی بھی معزز شہری بن کر کسی کے خلاف مقدمہ درج کرا دے‘، اسلام آباد ہائی کورٹ پولیس پر برہم

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پولیس کی ایک خاتون افسر کے شوہر کی طرف سے ایک خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ ’مقدمہ درج کرتے وقت درخواست دائر کرنے والے کا نام لکھا جاتا ہے لیکن اس معاملے میں صرف ایک ’معزز‘ شہری لکھ کر مقدمہ درج کیا گیا جو خلافِ قانون ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر قانون کے رکھوالے ہی قانون کا مذاق اڑائیں گے تو عام لوگوں سے قانون کے احترام کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔‘

واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کی اے آئی جی کے شوہر پر درخواست گزار خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام ہے۔

پیر کو سماعت کے دوران جسٹس طارق محمود جہانگری نے پولیس حکام پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کہاں کا قانون ہے کہ کوئی بھی معزز شہری بن کر کسی کے خلاف مقدمہ درج کرا دے۔‘

انھوں نے پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو بتا دیں کہ اگر اس معاملے میں  انکوائری ٹھیک طرح سے نہ ہوئی تو عدالت اس معاملے کی تحقیقات  ایف آئی اے اور انٹیلیجنس بیورو کو سونپ دے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’کل کو کوئی بھی آکریہ کہہ دے کہ سکریٹری داخلہ نے نشے میں دھت ہو کر شہری کو تھپڑ مارا تو کیا اس بیان پر مقدمہ درج کر لیا جائے گا؟‘

تھانہ ویمن میں خاتون کے خلاف ’معزز شہری‘ کی درخواست پر درج مقدمہ کے اخراج کے لیے دائر درخواست کے دوران اے آئی جی اسلام آباد پولیس ماریہ اپنے شوہر کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں اور دوران سماعت ایس ایس پی آپریشنز نے اندراج مقدمہ سے متعلق انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش کر دی جسے عدالت نے غیر تسلی بخش قرار دے دیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ یہ بات طے ہے کہ درخواست گزار کے نام کے بغیر ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔

پولیس حکام نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے میں کوتاہی برتنے والوں کے خلاف کارروائی سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی جائے جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے اس کی سماعت سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ تھانہ وویمن پولیس سٹیشن اسلام آباد کو 8 نومبر کو ایک درخواست ’پاکستان کا ایک شریف شہری‘ کے عنوان سے موصول ہوئی تھی جس پر درخواست گزار کا نام نہیں لکھا ہوا تھا اور اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ سپر مارکیٹ میں ایک ریستوران میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ اس دوران ایک خاتون، جس نے مبینہ طور پر شراب پی رکھی تھی، نے ریستوران میں داخل ہوتے ہوئے شور مچانا شروع کر دیا اور وہاں پر موجود لوگوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔

بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ’شریف شہری‘ اے آئی جی اسلام آباد پولیس کے شوہر ہیں جن کے خلاف اسی خاتون نے ہراسانی کی درخواست ایس ایس پی آپریشنز کو دے رکھی ہے۔

وویمن پولیس سٹیشن میں دی گئی درخواست میں درخواست گزار کا نام اور اس کا پتا درج نہیں تھا اور پولیس نے اس درخواست پر خاتون کے خلاف 13 نومبر کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا مقدمہ درج کر لیا۔

اس مقدمے کے اندراج کے خلاف دائر درخواست پر گزشتہ سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے تحریری حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ جب اس مقدمے کے تفتیشی اور متعلقہ پولیس حکام سے اس بارے میں دریافت کیا گیا کہ اس واقعے سے متعلق نہ تو ہوٹل کی انتظامیہ کی طرف سے کوئی شکایت درج کروائی گئی تو پھر کیسے اس درخواست پر کارروائی شروع کی گئی تو پولیس حکام اس کا جواب دینے میں ناکام رہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی لکھا کہ جس خاتون کے خلاف وویمن پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا، انھوں نے ایک درخواست اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی آپریشن کو دی تھی۔ مذکورہ شخص پر جنسی ہراس کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

عدالتی حکم میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ مذکورہ اے آئی جی کے ریڈر کی طرف سے خاتون سے فون پر رابطہ کر کے بتایا گیا کہ کوہسار سرکل کے سب ڈویژنل پولیس افسر ان سے رابطہ کریں گے۔

عدالت نے اپنے گزشتہ حکم نامے میں پولیس حکام سے وضاحت طلب کی تھی کہ کیسے ’ایک پاکستان کا شریف شہری ہوں‘ کے نام سے آئی ہوئی درخواست پر ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی شروع کی جا سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *