یوکرین جنگ ویگنر گروپ کا باخموت

یوکرین جنگ ویگنر گروپ کا باخموت

یوکرین جنگ ویگنر گروپ کا باخموت روس کے حوالے کرنے کا عہد

روس کے کرائے کے گروپ ویگنر کے سربراہ یفگینی پریگوژن نے یکم جون تک یوکرین کے شہر باخموت کا کنٹرول روسی فوج کے حوالے کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

یوگینی پریگوژن نے سنیچر کے روز باخموت پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن کیئو کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی شہر کے کچھ حصوں پر اس کا کنٹرول ہے۔

یوکرین کا کہنا ہے کہ اس کے فوجی اب بھی باخموت کے مضافات میں پیش قدمی کر رہے ہیں۔

لیکن یوگینی پریگوژن نے کہا کہ ان کے فوجی جمعرات سے شہر کو روسی فوج کے حوالے کرنا شروع کر دیں گے۔ پریگوژن نے ٹیلی گرام پر ایک آڈیو ریکارڈنگ میں کہا، ’ویگنر 25 مئی سے 1 جون تک آرٹیموسک چھوڑ دیں گے‘ باخموت کو سوویت انقلاب کے اعزاز میں آرٹیموسک کے نام سے جانا جاتا تھا بعد میں یوکرین نے اس کا نام تبدیل کر دیا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ ویگنر نے منتقلی سے قبل شہر کے مغرب میں ’دفاعی لائنیں‘ قائم کی تھیں۔ لیکن یوکرین کی نائب وزیر دفاع، ہانا ملیار نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی افواج اب بھی شہر کے اندر قدم جما رہی ہیں اور مضافات میں پیش قدمی کر رہی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ان کی نقل و حرکت کی ’شدت‘ کم ہو گئی ہے۔

بعد میں انہوں نے ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ یوکرین کے فوجی اب بھی شہر کے ’لطاق‘ علاقے میں ’کچھ نجی تنصیبات اور نجی شعبے‘ کو کنٹرول کرتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماسکو کے لیے باخموت بہت کم تزویراتی اہمیت کا حامل ہے، لیکن یوکرین میں اب تک کی طویل ترین جنگ کے بعد اس پر قبضہ روس کے لیے ایک علامتی فتح ہوگی۔

ویگنر کے کرائے کے فوجیوں نے مہینوں سے اپنی کوششیں اس شہر پر مرکوز کر رکھی ہیں اور مسلسل فوجیوں کو بھیجنے کے ان کے انتھک، مہنگے حربے نے آہستہ آہستہ کیئو کی مزاحمت کو ختم کر دیا ہے۔

نقشہ

حالیہ دنوں میں باخموت کی حیثیت پر دونوں اطراف سے متضاد دعوے سامنے آئے ہیں۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اتوار کو جاپان میں جی 7 سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اصرار کیا کہ باخموت پر روس کے ’قبضہ نہیں‘ ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ویگنر کو مبارکباد دی ہے۔

یوگینی پریگوژن نے شہر پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی اور اپنی نجی فوج کی ساکھ داؤ پر لگا دی ہے۔ اپنے تازہ ترین تبصروں میں، انہوں نے کہا: ’اگر وزارت دفاع کے پاس زیادہ اہلکار نہیں ہیں، تو ہمارے پاس ہزاروں جنرل ہیں‘۔

انہوں نے کئی بار اعلیٰ روسی فوجی حکام کو نشانہ بنایا ہے اور ان پر اپنے فوجیوں کی حمایت نہ کرنے پر عوامی سطح پر تنقید کی ہے۔ گزشتہ ماہ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر انہیں انتہائی ضروری گولہ بارود فراہم نہ کیا گیا تو وہ اپنے فوجیوں کو شہر سے باہر نکال لیں گے۔

باخموت پر قبضہ روس کو ڈونیٹسک کے پورے علاقے کو کنٹرول کرنے کے اس کے ہدف کے قدرے قریب لے آئے گا، مشرقی اور جنوبی یوکرین کے چار خطوں میں سے یہ ایک ایسا خطہ ہے جس کا روس نے گزشتہ ستمبر میں ریفرنڈم کے بعد روس کے ساتھ الحاق کیا تھا، باہر بڑے پیمانے پر اس کی مذمت کی گئی تھی۔

تاہم، جب روس نے پچھلی موسم گرما میں سریو ڈونسٹیک اور لیاشنک کے شہروں پر کنٹرول کرنے کے لیے سخت لڑائی لڑی، تو یوکرین نے جلد ہی اس کے دوسریے بڑے حصے پر دوبارہ دعویٰ کر لیا تھا ۔

اس ماہ کے شروع میں، امریکہ نے کہا تھا کہ اس کا خیال ہے کہ باخموت کی لڑائی میں 20,000 سے زیادہ روسی فوجی ہلاک اور 80,000 زخمی ہوئے ہیں۔ بی بی سی ان اعداد و شمار کی آزادانہ تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔

حملے سے پہلے باخموت میں تقریباً 70,000 لوگ رہتے تھے، لیکن تباہ شدہ شہر میں صرف چند ہزار لوگ ہی رہ گئے، جو کبھی نمک اور جپسم کی کانوں کی وجہ سے مشہور تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *