ہندو تہوار انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ڈراؤنا

ہندو تہوار انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ڈراؤنا

ہندو تہوار انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں

گذشتہ رام نومی تہوار کی طرح اس مرتبہ پھر سے انڈیا کے کئی حصوں میں تشدد اور نفرت انگیز تقاریر کی واپسی ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پر متشدد یا اشتعال انگیز تقریروں کی متعدد ویڈیوز وائرل ہیں۔

30 مارچ یعنی رام نومی (ہندو دیوتا رام کی پیدائش کا جشن) کے روز کی ایک وائرل فوٹیج میں حیدرآباد میں کپڑوں سے ڈھکی ایک مسجد کو دیکھا جا سکتا ہے جس کے مینار شام میں سبز رنگ میں روشن نظر آ رہے ہیں۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زعفرانی جھنڈے والا ایک جلوس اس مسجد کے سامنے آ کر رکتا ہے اور اونچی گاڑی میں سوار ایک شخص تقریر شروع کر دیتا ہے۔

تقریر کرنے والے شخص بی جے پی کے معطل رکن ٹی راجہ سنگھ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایک دھکہ لگا تھا، آج ایودھیا میں رام مندر بن رہا ہے۔ آنے والے وقت میں ایک اور دھکہ لگے گا اور متھرا میں ایک اور عالیشان مندر تعمیر ہوگا۔ ایک اور دھکہ لگے گا اور کاشی (بنارس) میں بھی ایک مندر بنے گا۔‘

ان کی حمایت میں نعرے لگانے والے ہجوم کے ہنگامے کے درمیان وہ مزید کہتے ہیں کہ ’سننے والو، کان کھول کر سن لو۔ راجہ سنگھ کسی کے باپ سے ڈرنے والا نہیں ہے۔‘

انھیں اس سے قبل پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی پارٹی بی جے پی نے انھیں معطل کر دیا تھا۔ لیکن ان کی تفرقہ انگیز تقریریں آج بھی جاری ہیں اور حال ہی میں مہاراشٹر میں اشتعال انگیز تقریر کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

BBC/SANJAY_DAS

لیکن اس طرح کی تقریریں کرنے والے وہ ملک میں اکیلے نہیں ہیں۔

رام نوامی کے موقع پر انڈیا کی کئی ریاستوں سے نفرت انگیز نعرے بازی اور تشدد کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔

مہاراشٹر، بہار، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، گجرات، اتر پردیش، مغربی بنگال، تلنگانہ اور راجستھان جیسی ریاستوں سے اسی طرح کی متشدد اور نفرت انگیز تقاریر کی اطلاعات ملی ہیں۔

ہندو جھگڑے

گذشتہ برس بھی کم از کم نو ریاستوں میں رام نومی اور ہنومان جینتی (ہندو دیوتا ہنومان کے پیدائش کا جشن) کی تقریبات کے موقع پر پرتشدد واقعات ہوئے تھے، جن میں ایک سو سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔

ان پُرتشدد واقعات کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟

سنہ 2020 میں مسلم علاقوں سے گزرنے والی ہندو عقیدے کے لوگوں کی یاترا کے بعد پھوٹنے والے تشدد کے بارے میں ’سٹیزین اینڈ لائرز اینیشیٹیو‘ کی طرف سے مرتب کی گئی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے تمام معاملات میں تشدد کا محرک ایک ہی تھا:

’رام نومی اور ہنومان جینتی کے ہندو تہوار منانے والے مذہبی جلوس۔ اور اس کے بعد مسلمانوں کی ملکیتی املاک، کاروبار اور عبادت گاہوں پر ٹارگٹڈ حملہ ہوا‘۔

india

’ہندو تہوار انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انڈیا میں رام نومی جیسے مذہبی تہواروں کی آڑ میں ہجومی تشدد دیکھا گیا ہے لیکن یہ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں زیاد بڑے اور بظاہر مربوط پیمانے پر ہوا ہے۔

اس طرح کے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے ایک ٹویٹر صارف نے لکھا کہ ’ہندو تہوار انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’ہندو تہوار رامنومی کی تقریب کے نام پر مسجد کے سامنے رقص، مسلم مخالف نعرے اور ہتھیاروں کو بلند کرنا عام ہو گیا ہے‘۔

دوسری جانب کچھ ٹوئٹر صارفین اور ہندو رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ ہندو تہوار حملے کی زد میں ہیں۔

وکلا، سابق ججوں اور شہریوں کے ذریعے تیار کی گئی مذکورہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اگر کسی ایک عنصر کو مذہبی جلوسوں سے ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے مہمیز کے طور پر دیکھا جائے تو یہ وہ راستہ ہوگا جو منتظمین اس قسم کے جلوسوں کے لیے منتخب کرتے ہیں۔‘

’تشدد کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے جلوس اکثر مسلمان اکثریت والے علاقوں سے گزرتے ہیں اور اکثر مسلمانوں کے گھروں یا مساجد کے سامنے رک کر اونچی آواز میں توہین آمیز گانے یا نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں جو کہ تشدد کی وجہ بنتی ہیں‘۔

رپورٹ کے مطابق ’پچھلے سال کے رام نومی اور ہنومان جینتی کے جلوسوں سے منسلک تشدد میں سو سے زیادہ گھروں اور دکانوں کو تباہ یا جلا دیا گیا، ہر شہر میں گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا اور متعدد عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا گیا یا توڑ پھوڑ کی گئی۔‘

لیکن تشدد کے بعد حکام کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

ہندو جھگڑے

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال (یعنی 2022 ) کے بعد ان میں سے کچھ شہروں اور قصبوں میں فوری طور پر حکومت کی طرف سے کارروائی ہوئی تا کہ ان لوگوں کو سزا دی جا سکے جنھیں ریاست ’فسادی‘ یا ‘سماج مخالف‘ عناصر قرار دیتی ہے۔

رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ انڈیا مسلسل تشدد کے دھانے پر پہنچ گیا ہے۔

کیا اس طرح کے متشدد واقعات پہلی مرتبہ ہو رہے ہیں؟

مذہبی جلوسوں کے دوران ہونے والے حالیہ تشدد یا گزشتہ سال ہونے والے اس طرح کے متشدد واقعات پہلی بار نہیں ہوئے ہیں بلکہ انڈیا میں ایسے تشدد کی ایک تاریخ ہے جو مذہبی ریلیوں کے دوران یا ان کے انعقاد کے بعد ہوئے ہیں۔

ہندو جلوسوں کے مسلم علاقوں میں اونچی آواز میں موسیقی بجانے کے واقعات 1920 کی دہائی سے ہو رہے ہیں جب ہندو دائیں بازو کے رہنماؤں نے ناگپور جیسے مقامات پر مساجد کے سامنے ریلیاں نکالنے اور موسیقی بجانے پر اصرار کیا تھا۔

دوسری مثالوں میں، ’شولاپور میں فرقہ وارانہ گڑبڑ پر تحقیقاتی کمیشن- 17 ستمبر 1967‘ نامی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1925 اور 1927 میں ’گنپتی وسرجن جلوسوں‘ کے سلسلے میں نکالے جانے والے ’رتھ جلوسوں‘ کے موقعوں پر فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

اور 1939 میں آریہ سماج کے ایک جلوس کے دوران قابل اعتراض نعرے لگانے کے بعد چاقو مارنے کے 18 واقعات سامنے آئے تھے۔

hindu riots

سنہ 1970 میں مہاراشٹر کے دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کے جلوسوں کے ایک مسجد کے سامنے سے گزرنے پر اصرار کرنے کے نتیجے میں کم از کم 43 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سنہ 1989 میں جمشید پور میں ہندو دائیں بازو نے رام نومی کے جلوس کو بھیڑ والے مسلم علاقے سے لے جانے پر اصرار کیا، حالانکہ حکام نے ان سے متبادل راستہ اختیار کرنے کو کہا تھا لیکن جلوس کا پھر بھی انعقاد کیا گیا اور اس کی وجہ سے تشدد کے نتیجے میں 108 افراد ہلاک ہوئے۔

سنہ 1989 میں کوٹا میں ہندوؤں کے مذہبی جلوس کو ایک پرہجوم مسلم محلے سے نکالنے کے حق پر اصرار کے نتیجے میں تشدد ہوا جس میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے۔

اسی طرح سنہ 1989 میں بہار کے بھاگلپور میں مسلمانوں کے علاقے سے مذہبی جلوس نکالنے پر اصرار کے نتیجے میں ہونے والا تشدد جدید انڈیا کے بدترین فسادات میں سے ایک ہے، جس میں کم از کم 900 اموات ہوئیں۔

اس قسم کے تشدد پر قابو پایا جا سکتا ہے؟

اس طرح کے تشدد کو روکنے کے لیے پولیس میں اصلاحات کی ضرورت کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے۔

حال ہی میں سپریم کورٹ کے سابق جج روہنٹن نریمن نے مشورہ دیا تھا کہ ’انڈیا کی تمام ریاستوں میں پولیس فورس کو ان آئینی اقدار اور شہریوں کے بنیادی فرائض کے بارے میں حساس بنانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے‘۔

انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے انھیں یہ بتانا چاہیے کہ انڈیا میں رہنے والے مسلمان ہندوستانی ہیں۔

انڈیا فسادات

لیکن اس طرح کا تشدد اور اس کی بنا پر انڈیا میں سیاست ملک کے سیاسی میدان کا قابل قبول حصہ بن چکے ہیں۔

انڈیا کی جمہوری تاریخ کے زیادہ تر حصے پر کانگریس کی حکومت رہی ہے جب کہ ہندو دائیں بازو کے گروپ حکومت سے باہر ہوتے تھے۔ لیکن اب بی جے پی ملک کی اکثریت پر حکومت کرتی ہے، جسے دائیں بازو کے ہندو گروہوں اور حلقوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔

ناقدین اکثر اس قسم کے تشدد کا ذمہ دار دونوں سیاسی پارٹیوں کو قرار دیتے ہیں۔

سینئر صحافی منوج مٹّا، جنھوں نے دہلی میں 1984 کے سکھ مخالف فسادات اور 2002 گجرات میں مسلم مخالف فسادات پر بڑے پیمانے پر لکھا ہے، حالیہ دور میں اس طرح کے تشدد میں کمی کی امید نہیں رکھتے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس طرح کا تشدد کانگریس کے دورِ حکومت میں شروع ہوا تھا لیکن بی جے پی کے دور حکومت میں یہ بالکل مختلف سطح پر چلا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی نوعیت بدل گئی ہے، ہلاکتوں کی تعداد کم ہو رہی ہے لیکن چھوٹے پیمانے پر تشدد کے مسلسل واقعات خطرناک حد تک جاری ہیں۔

ان کے خیال میں اس تبدیلی کے تانے بانے اتر پردیش کے مظفر نگر میں 2013 کے فسادات سے جڑتے ہیں جن میں تقریباً 60 لوگ مارے گئے تھے لیکن تشدد کا اثر خطے کی سیاست پر آج بھی قائم ہے۔

bbc

مِٹّا کہتے ہیں کہ ’اس (تشدد) نے انھیں (مسلم متاثرین کو) دہشت زدہ کرنے یا انھیں الگ تھلگ کرنے، یا ان کے خلاف بدنیتی پیدا کرنے یا انھیں اپنے گھر سے دور کیمپوں میں رہنے یا انھیں غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور کرنے کا مقصد پورا کیا‘۔

سنہ 1984 کے سکھ فسادات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جن میں مثال کے طور پر فسادیوں نے ایک محلے کو دنیا سے کاٹ دیا تھا اور تقریباً 400 افراد کو ہلاک کیا تھا، مٹّا کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے دور میں اس طرح کے کیسز کا تصور کرنا مشکل ہے لیکن مسلسل تشدد کو جاری رکھنا زیادہ آسان اور ممکن ہو گیا ہے۔

’فسادات میں اب زیادہ لوگ نہیں مرتے۔۔۔ ان (حالیہ فسادات) کا مقصد قتل سے زیادہ متاثرین کو نقل مکانی کرنے، ان میں خوف پھیلانے، انھیں الگ تھلگ کرنے، انھیں ولن بنانے، انھیں مکمل طور پر غیر دفاعی حالات میں ڈالنا ہے‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *