کیا چین، ایران سرمایہ کاری منصوبہ خطے

کیا چین، ایران سرمایہ کاری منصوبہ خطے

کیا چین، ایران سرمایہ کاری منصوبہ خطے کے لیے ’سی پیک پلس‘ ثابت ہو گا؟

گرچہ چین اور ایران کے درمیان 400 ارب ڈالر کی مالیت پر مبنی 25 برس کے طویل اور جامع اقتصادی تعاون کے منصوبے پر امریکہ کا سرکاری رد عمل اب تک سامنے نہیں آیا تاہم تجزیہ نگار اس پیشرفت کو نہ صرف خطے کے لیے بلکہ عالمی اقتصادی نظام میں ایک اہم ’گیم چینجر‘ قرار دے رہے ہیں۔

اس معاملے پر گہری نظر رکھنے والے پاکستانی سفارت کار اور تجزیہ کار پاکستان میں پائی جانے والی عمومی بے چینی کہ اب چین ایران کا رخ کر رہا ہے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین اور ایران کا اقتصادی تعاون کا حالیہ معاہدہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کا متبادل نہیں ہو گا بلکہ اُس کو تقویت بخشے گا۔

ایران کی مجبوری اور چین کی ضرورت

ماہرین کے مطابق تہران نے چین کے ساتھ طویل المدتی اقتصادی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر اور سلامتی کے معاملات میں تعاون کر کے اپنے آپ کو نئے عالمی حالات کے لیے ایک طاقتور ملک بنانے کی کوشش کی ہے لیکن ایسا کرنے کی صورت میں جہاں ایک جانب وہ امریکہ کے نئے عتاب کا شکار بھی بن سکتا ہے، وہیں دوسری جانب ممکن ہے کہ یہ معاہدہ اُسے امریکہ کی مسلسل پابندیوں کی تکلیف سے نجات بھی دلا دے۔

امریکہ کی کافی عرصے سے ایران پر عائد پابندیاں ہی اُسے چین کے اتنا قریب لے آئی ہیں کہ وہ اپنا تیل عالمی نرخوں سے قدرے کم قیمت پر چین کو اس لیے فروخت کرنے کے لیے تیار ہو گیا تاکہ اُس کے تیل کی فروخت کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہ سکے اور اُسے قومی دولت میں ایک قابلِ اعتماد آمدن کا ذریعہ حاصل ہو سکے۔

چین ایران

ماہرین کہتے ہیں کہ اس معاہدے کی دستاویزات تو ابھی سامنے نہیں آئی ہیں لیکن جو تفصیلات معلوم ہیں ان کے مطابق اگلے 25 برسوں میں ایران کی خستہ حال معیشت میں 400 ارب ڈالر کی مالیت کے منصوبے اقتصادی استحکام لانے میں اس کی کافی مدد دے سکتے ہیں۔

اس کے بدلے میں چین رعایتی نرخوں پر تیل، گیس اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات ایران سے خرید سکے گا۔ اس کے علاوہ بیجنگ ایران کے مالی، ٹرانسپورٹ اور ٹیلی مواصلات کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔

اس معاہدے کے تحت بتایا گیا ہے کہ ایران کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دونوں ممالک مشترکہ تربیتی مشقوں، ہتھیاروں کی ترقی اور انٹلیجنس کے اشتراک سے فوجی اور ریاستی سلامتی کے امور میں تعاون کریں گے۔

دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے پانچ ہزار فوجی بھی ایران میں تعینات کیے جائیں گے لیکن واضح رہے کہ ایران میں اس بات کی مخالفت بھی ہو رہی ہے جس میں سابق ایرانی صدر احمدی نژاد پیش پیش ہیں۔

اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایران شاید چین کی نئی ڈیجیٹل کرنسی E-RMB کو اپنانے کے لیے مثالی امیدوار ثابت ہو، جس نے ڈالر کو نظرانداز کرنے اور اس کی منظوری دینے والی طاقت کو کمزور کیا ہے۔

یاد رہے کہ ایران اس وقت عالمی مالیاتی اور بینکاری نظام SWIFT سے منسلک نہیں اور وہ ایران سے کسی قسم کا کوئی لین دین نہیں کر رہا۔

سی پیک پلس

پاکستان چین انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید کے مطابق ایران چین سٹریٹجک معاہدہ خطے کے لیے ایک اچھی پیشرفت ہے اور پاکستان کے مفادات کے لیے مثبت بھی ہے کیونکہ اس سے ایک ایسے علاقائی معاشی تعاون کو تقویت ملے گی جس کا مرکز پاکستان ہے یعنی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت چلنے والا سی پیک منصوبہ۔

چین ایران

مشاہد حسین نے امید ظاہر کی کہ بلوچستان میں استحکام اور چین، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ علاقائی تعاون کو فروغ دینے میں گوادر پورٹ کے کردار کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ افسوس ہے کہ امریکی دباؤ کی وجہ سے (25 جنوری 2006 کو جب انڈیا میں ڈیوڈ مولفورڈ امریکی سفیر تھے) انڈیا نے آئی پی آئی (ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن) کی تجدید نہیں کی اور اس کے بجائے امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کا انتخاب کیا۔ انڈیا نے اُس وقت آئی پی آئی کے حامی وزیر منی شنکر آئیر کو ہٹا دیا تھا۔

پاکستان میں سی پیک کے بارے میں پائی جانے والی بے چینی کو مسترد کرتے ہوئے مشاہد حسین نے کہا کہ ایران چین معاہدہ سی پیک کو مزید بامعنی بنائے گا کیونکہ یہ دونوں معاہدے مسابقتی یا حریف نہیں بلکہ دونوں کا ماخذ چین کے ساتھ سٹریٹجک تعاون ہے۔

عالمی طاقت سے مقابلے کی تیاری

انڈیا کے معروف دفاعی تجزیہ نگار پراوین سواہنی کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں خلیج فارس میں علاقائی کشیدگی کے تناظر میں اس معاہدے کو دیکھنا غلط ہو گا۔ چین ہمیشہ ایران اور سعودی مسابقت میں کسی کی حمایت یا مخالفت سے گریز کرتا رہا ہے۔ خلیج فارس میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کی بنیادی وجہ اس کے اقتصادی معاملات ہیں۔‘

چین ایران
بیجنگ ایران کے مالی، ٹرانسپورٹ اور ٹیلی مواصلات کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے

وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور چین نے بھی ایک سال قبل کافی بڑے اقتصادی معاہدوں پر دستخط کیے تھے تاہم ایران کے ساتھ چین کے اس تازہ معاہدے کی اہم بات یہ ہے کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکی پابندیوں نے تہران کو تنہا کرنے کے بجائے اِسے چینی کیمپ میں مزید مضبوطی سے آگے بڑھایا ہے۔ اس وجہ سے اس معاہدے کی اہمیت صرف خطے کے لیے ہی اہم نہیں بلکہ یہ عالمی طاقت سے مقابلے کی بھی ایک تیاری نظر آتی ہے۔‘

پراوین سواہنی کہتے ہیں کہ ’معاہدے کی زیادہ تفصیلات فی الحال دستیاب نہیں، اس لیے اس کا سی پیک سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا تاہم بہت بڑا فرق اس میں فریقین کے بنیادی مفادات کا متحرک ہونا ہے۔ چین کو تیل کی ضرورت ہے جو اسے ارزاں نرخوں پر ایران سے ملے گا۔’

’ایران بدلے میں اپنے اقتصادی اور تیل کے پیداواری بنیادی ڈھانچے اور تجارت میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے، جو چین مہیا کرے گا۔ چین ایران تعلقات میں معاشی باہمی تعاون موجود ہیں جو چین پاکستان کے معاملے میں نہیں۔ یہ فرق واقعی کس طرح کا کردار کرے گا فی الحال اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔‘

ان کے مطابق ’ایران کے پاس وہ وسائل موجود ہیں جن کی چین کو شدید ضرورت ہے یعنی ہائیڈرو کاربن۔ پاکستان کے پاس ایسی کوئی دولت نہیں ہے۔ لہذا معاشی ڈائینامک کے لحاظ سے پاکستان اور چین کے تعلقات چین اور ایران کے تعلقات سے کافی مختلف نوعیت کے ہیں۔‘

پراوین سواہنی کہتے ہیں کہ اگرچہ اس بارے میں بہت سی باتیں ہوئی ہیں کہ پاکستان، ایران، وسطی ایشیا پر مشتمل راہداری اس خطے کی معاشی ترقی اور بہتری کا باعث بنے گی۔

’یہ بہت طویل مدتی منصوبہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا کسی قلیل مدت میں وقوع پذیر ہونا مشکل لگتا ہے۔ ایران اور پاکستان ان صنعتی مصنوعات کو مینوفیکچر نہیں کرتے ہیں جو وسطی ایشیا کے ممالک درآمد کرتے ہیں اور نہ ہی وسطی ایشیائی برآمدات کے لیے یہ کوئی بڑی منڈیاں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چین سے وسطی ایشیا کے ساتھ ساتھ یورپ تک ایسا انفراسٹرکچر موجود ہے جس کی وجہ سے وہاں سڑکوں اور ریلوے کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔

’یہ دیکھنا مشکل ہے کہ پاکستان، ایران، چین کے نئے راستے ان پرانے راستوں کا متبادل کیسے بن سکیں گے۔‘

چین ایران
چین سے وسطی ایشیا کے ساتھ ساتھ یورپ تک ایسا انفراسٹرکچر موجود ہے جس کی وجہ سے وہاں سڑکوں اور ریلوے کا ایک جال بچھا ہوا ہے

انڈین تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا کہ ’ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کے منصوبے کا آغاز انڈیا نے کیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ انڈیا کو افغانستان کے معدنی وسائل کی کان کنی کرنا تھی اور انھیں ایران کی صنعتی صلاحیت کے استعمال سے زیادہ بہتر بنانا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ افغانستان کی زمینی صورتحال کے پیش نظر دور کے ڈھول کے سہانے کی مانند ہے۔ افغانستان کی معیشت اتنی بڑی نہیں کہ انڈیا-افغانستان تجارت کے کوریڈور کے لیے انڈیا بذریعہ ایران وہاں کوئی بہت بڑا سڑکوں یا ریلوے کا انفراسٹرکچر تعمیر کرے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستان نے خلیج فارس میں ایران – سعودی محاذ آرائی سے دور رہنے کی کافی کوشش کی ہے اور ایسا ہی انڈیا نے بھی کیا ہے۔

’اس محاذ آرائی میں دونوں جانب ایک تو اقتصادی مفادات کشش رکھتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ اس محاذ آرائی سے جڑے داخلی مسائل بھی موجود ہیں۔ اس لیے فریقین کے درمیان توازن برقرار رکھنا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ خاص کر کہ جب امریکہ اگلے چند برسوں میں یہ طے کرے گا کہ اُسے ایران پر مزید دباؤ بڑھانا ہے۔ میرے خیال میں حقیقت پسندانہ طور پر توازن برقرار رکھنے کے سوا اور کوئی آپشن موجود بھی نہیں۔‘

‘امریکہ نے پاکستان اور ایران کو چین کی طرف دھکیلا’

پاکستان کے سابق سفیر اور لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز(لمز) میں سفارتکاری اور بین الاقوامی تعلقات کے استاد اقبال احمد خان کہتے ہیں کہ چین کا ایران کے ساتھ سرمایہ کاری کا منصوبہ اُس کے آٹھ کھرب ڈالر کے بی آر آئی منصوبوں کا حصہ ہے جن میں ایک سی پیک بھی ہے۔

سابق سفیر اقبال احمد خان کے مطابق چین کی ایران میں سرمایہ کاری کا پاکستان میں سی پیک سے مقابلہ کرنا درست نہیں کیونکہ یہ دونوں چین کی سرمایہ کاریاں ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے لیے ممد و معاون ثابت ہوں گی اور اس کا فائدہ تینوں ممالک کو پہنچے گا۔

ایارن چین

’چین اور ایران دونوں پاکستان کے دوست ہیں اس لیے پاکستان اس منصوبے کی کامیابی چاہتا ہے۔‘

سابق سفیر نے مزید کہا کہ چین کی ایران میں سرمایہ کاری پاکستان کی قیمت پر نہیں، اس لیے اسے ’زیرو-سم-گیم‘ نہیں سمجھنا چاہیے۔

اس سوال پر کہ کیا پاکستان اور چین ایران پر امریکی پابندیوں کا بوجھ برداشت کرسکیں گے تو اقبال احمد خان نے کہا کہ دراصل چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور اب ایران میں سرمایہ کاری کی بنیادی وجہ ہی امریکہ کی جانب سے پابندیاں یا ان ممالک کو نظر انداز کرنے کی کوششیں ہیں۔

’پاکستان اور ایران دونوں کو ہی امریکہ نے سائیڈ لائن کر دیا ہے، اس سے ہم مجبور ہوئے کہ دوسری جانب دیکھیں۔ پاکستان نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی سیاسی جغرافیائی حیثیت کا زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے۔ ایک جانب چین ہے تو دوسری جانب ایران تاہم اگر پاکستان چین کا دوست ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان امریکہ کا مخالف ہے بلکہ چین تو پاکستان سے کئی بار کہہ چکا ہے کہ وہ امریکہ اور انڈیا دونوں سے اپنے تعلقات بہتر بنائے۔ البتہ امریکہ کو بھی اس بات کا احساس کرنا چاہیے۔‘

اقبال احمد خان نے کہا کہ پاکستان بخوشی ایران کے ساتھ تعاون کرے گا بلکہ کوشش کرے گا کہ وہ بھی پاکستان کی طرح شنگھائی تعاون کونسل کا رکن بن جائے۔

’چین کے ایران کے تعاون کا براہ راست فائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔ ایران کا تیل جو اس وقت 13000 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد چین پہنچتا ہے وہ پاکستان کے راستے ایک ڈیڑھ ہزار میل کے محفوظ راستے سے چین پہنچے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چین کی پاکستان، ایران، ترکی اور دیگر ایشیائی ممالک میں سرمایہ کاری اور اقتصادی و تجارتی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری دنیا میں طاقت کے مرکز، بحرِ او قیانوس سے بحرِ ہند اور بحرُالکاہل کے خطوں میں منتقل ہونے کی ٹھوس علامتیں ہیں اور عالمی تبدیلی کے اس عمل میں پاکستان اور ایران اہم کردار ادا کر رہے ہیں ’اور اس تبدیلی کے عمل میں امریکی پابندیوں کا بھی ایک کردار ہے جو ان ممالک کو دوسری جانب دھکیل رہی ہیں۔‘

ایران
ایران کے لیے یہ معاہدہ اس کی مالی ضروریات پوری کر سکے گا جس کی اُسے شدید ضرورت ہے

‘ایرانی معاہدہ اور سی پیک فطری شراکت دار ہیں’

انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد سے وابستہ عالمی امور کی ماہر فاطمہ رضا کہتی ہیں کہ اگرچہ دونوں منصوبوں میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے کی خصوصیات مشترک ہیں لیکن اس میں شامل فریقین کے مفادات کئی لحاظ سے مختلف نوعیت کے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ چین ایران معاہدہ ان ممالک کے مابین فطری شراکت داری کا معاہدہ بنتا ہے جو سی پیک کے امکانات کو بھی آگے بڑھا سکتا ہے۔

فاطمہ رضا نے مزید کہا کہ ہر پارٹی کے لیے دونوں کا موازنہ کرنا ایک مختلف منظر پیش کرتا ہے۔ ’پاکستان کے لیے یہ دونوں منصوبے کامیابی کے غیر معمولی مواقع پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ ایرانی تیل چین جانے کی قدرتی راہداری بن جاتا ہے۔‘

’چین کے لیے اس کا مطلب سی پیک جیسے منصوبے سے ہے جو خطے میں اپنے پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے اور جو خطے میں امریکی مفادات کے لیے پریشانی پیدا کرے گا۔‘

فاطمہ رضا کہتی ہیں کہ ایران کے لیے یہ معاہدہ اس کی مالی ضروریات پوری کر سکے گا جس کی اُسے شدید ضرورت ہے۔

’دونوں سودے مسابقتی ہونے کی بجائے اپنی فطرت میں ایک دوسرے کو تقویت بخشتے ہیں تاہم اس کی کامیابی کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ فریقین اپنی پوری صلاحیت کو استعمال کرتے ہیں۔‘

ایران
کورونا وائرس سے مقابلے کے لیے بھی چین نے ایران کی بڑھ کر مدد کی ہے

’خلیج اور خطے کے مجموعی جغرافیائی سیاسی توازن پر اثرات‘

عرب نیوز کے ایک تجزیہ کار اسامہ الشریف نے لکھا ہے کہ چین اور ایران کے مابین 25 سالہ جامع سٹریٹجک تعاون کے معاہدے کے خلیج اور خطے کے مجموعی جغرافیائی سیاسی توازن پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔

اس معاہدے پر دستخط ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب بیجنگ اور واشنگٹن کے مابین تعلقات انتہائی خراب ہیں۔

اس معاہدے نے ایران کے جوہری معاہدے پر مغرب کی جانب سے اس پر دوبارہ بات چیت اور توسیع کی کوشش کے سلسلے میں بھی تہران کو ایک مضبوط پوزیشن عطا کر دی ہے۔

اسامہ الشریف کے مطابق یہ معاہدہ، چین کو ایرانی سرزمین پر 5000 سکیورٹی اور فوجی اہلکار تعینات کرنے کا موقع فراہم کرے گا جو کہ ایک علاقائی گیم چینجر ہے۔

چین سے قبل تہران نے سنہ 2001 میں ماسکو کے ساتھ، خاص طور پر جوہری میدان میں، 10 سالہ تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے بعد اس میں دو بار توسیع کی گئی۔

انھوں نے لکھا کہ دو سال قبل ایران، روس اور چین کے ساتھ بحری مشقوں میں شامل ہوا تھا۔ تازہ ترین معاہدے سے چین کو خلیجی خطے کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا میں بھی اپنے اڈے قائم کرنے کا موقع ملے گا۔

ایران

دو سال قبل ایران، روس اور چین کے ساتھ بحری مشقوں میں شامل ہوا تھا

اس کے بدلے میں ایران کو چینی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہو گی اور اس کے ناقص انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری ہو گی۔

چینی حکومت برسوں سے دوسرے خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو مستحکم کر رہی ہے۔

بیجنگ نے متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور ان کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے ورکنگ تعلقات ہیں۔

’تازہ ترین معاہدے سے خلیج کے عرب ممالک کے دارالحکومتوں میں خطرے کا احساس بڑھ جائے گا کیونکہ یہ ممالک ایران کو عدم استحکام کا ایک بہت بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں اور بیجنگ کے ساتھ اس کا اتحاد تہران اور قم میں سخت گیر لائن کو مزید تقویت بخشے گا۔‘

الشریف کے مطابق اس کے علاوہ اسرائیل بھی چینی اقدام پر بے چینی محسوس کرے گا۔ ایران کے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے روس اور چین، دونوں نے تہران کے مؤقف کی حمایت کی اور امریکی پابندیوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔

امریکہ اور چین کی کشیدگی میں اضافہ

ورلڈ سوشلسٹ ادارے سے وابستہ تجزیہ کار ایلِکس لانٹیئرر لکھتے ہیں کہ ایران چین معاہدے کی شرائط ظاہر نہیں کی گئیں تاہم یہ دستخط اس وقت ہوئے ہیں جب امریکہ نے سابق صدر ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیاں ہٹانے سے انکار کیا اور ساتھ ہی چین اور امریکہ کی الاسکا میں ہونے والی کانفرنس میں چین اور امریکہ کے اختلافات کھل کر سامنے آئے۔

اس سربراہی اجلاس کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے پریس کو ریمارکس کے دوران امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ چین کو واشنگٹن کے متعین کردہ ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی آرڈر‘ کو قبول کرنا چاہیے ورنہ اُسے ’کہیں زیادہ پُرتشدد اور غیر مستحکم دنیا‘ کا سامنا کرنا ہو گا۔

تہران میں چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ’ہمارے دونوں ممالک کے مابین تعلقات اب سٹریٹجک سطح پر پہنچ چکے ہیں اور چین اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ جامع تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

دونوں ممالک کے مابین سٹریٹجک تعاون کے لئے روڈ میپ پر دستخط سے بیجنگ کی خواہش ظاہر ہوتی ہے کہ وہ تعلقات کو اعلیٰ ترین سطح تک فروغ دینے جا رہا ہے۔

چینی مزاحمت

چین ایمریکہ
چین اور امریکہ کی الاسکا میں ہونے والی کانفرنس میں چین اور امریکہ کے اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں

چین کے سرکاری سطح پر چلنے والے نشریاتی ادارے گلوبل ٹائمز کے مطابق چینی وزیر خارجہ نے ایرانی عہدیداروں کو بتایا کہ ’چین بالادستی اور غنڈہ گردی کی مخالفت، بین الاقوامی عدل و انصاف کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ایران اور دوسرے ممالک کے لوگوں کے ساتھ بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری پر بھی راضی ہے۔‘

اس معاہدے کے بارے میں پہلی مرتبہ ایرانی رہبرِ اعلیٰ سید علی خامنہ ای اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان سنہ 2016 میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

مشرق وسطیٰ کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو گہرا کرنے کے لیے چین نے ایران کو اپنے بی آر آئی پروگرام کے ساتھ ترقی میں تعاون کی بھی پیش کش کی تھی۔

تہران ٹائمز نے چین میں ایران کے سفیر محمد کیشورز زہد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ معاہدہ ’ایران اور چین کے مابین تعاون کی صلاحیتوں کی وضاحت کرتا ہے، خاص طور پر ٹیکنالوجی، صنعتوں، نقل و حمل اور توانائی کے شعبوں میں۔ چینی فرموں نے ایران میں ماس ٹرانزٹ سسٹم، ریلوے اور دیگر اہم انفراسٹرکچر تعمیر کیے ہیں۔‘

گذشتہ دسمبر میں اس قیاس آرائی کے درمیان کہ اس معاہدے پر دستخط ہوں گے، امریکی محکمہ خارجہ کی پالیسی پلاننگ سٹاف کے ڈائریکٹر پیٹر برکوویٹز نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اخبار العربیہ کو کہا تھا کہ اگر یہ معاہدہ اپنایا جاتا ہے تو یہ ’آزاد دنیا کے لیے بہت بری خبر ہو گی۔ ایران پورے خطے میں دہشت گردی، موت اور تباہی کے بیج بوتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کا اس ملک کو بااختیار بنانا خطرے کو مزید شدت بخشے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *