کیا عمران خان نے وزیر اعلی پنجاب کی کرسی

کیا عمران خان نے وزیر اعلی پنجاب کی کرسی

کیا عمران خان نے وزیر اعلی پنجاب کی کرسی پر بیٹھ کر کسی اصول کی خلاف ورزی کی؟

گذشتہ روز تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے اتحادی اور مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد پہلی مرتبہ لاہور آئےاور ان سے ملاقات کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے متعدد میٹنگز کی صدارت بھی کی۔ جس کی کچھ تصاویر اورویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملاقات کے دوران وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی کرسی پر بیٹھے ہیں جبکہ پرویز الہی اور مونس الہی ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے سی ایم آفس میں ہی اپنی پارٹی میٹنگ کی صدارت بھی کی۔

یاد رہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے آنے والے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے امیدوار پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کا کہا گیا۔ اسی سلسلے میں وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی پہلے ہی پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اور ان کی پارٹی کی مدد سے وزیر اعلی منتخب ہونے پر شکریہ ادا کر چکے ہیں۔

اس تمام تر معاملے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے خاصا ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ جس میں صارفین کی جانب سے مختلف قسم کےسوالات بھی اٹھائے گئے ہیں جیسا کہ کیا عمران خان وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں؟ کیا ان کا یہ درست عمل تھا یا غلط؟

کچھ صارفین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے کہ عمران خان جب پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں تو وہ اپنی پارٹی کی میٹنگ کی صدارت سی ایم آفس میں کس حیثیت سے کر سکتے ہیں؟ کیا یہ سرکاری وسائل کے زمرے میں نہیں آتا؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلی آفس میں کام کرنے والے ایک افسر کا کہنا تھا کہ ‘رولز آف پریزیڈنس یا ورانٹ آف پریزیڈنس` کے مطابق کوئی بھی شخص وزیر اعلی آفس میں ان کی کرسی پر نہیں بیٹھ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر وزیر اعلیٰ خود بھی اسے کہیں تب بھی وہ وہاں نہیں بیٹھ سکتا ہے۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ عمل قابل مذمت ہے۔

لیکن پہلے سابق وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے دور میں بھی وہ ہمیشہ لاہور آکر وزیر اعلیٰ کی کرسی پر ہی بیٹھا کرتے تھے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے وہ وزیر اعظم پاکستان تھے اور انھی رولز آف پریسیڈنس کے تحت وزیر اعظم پاکستان کاعہدہ وزیر اعلی کے عہدے سے بڑا ہے اس لیے اس وقت ان کا اس کرسی پر بیٹھنا غلط نہیں تھا۔ تاہم اب وہ کسی قسم کا پبلک آفس اپنے پاس نہیں رکھتے اس لیے اب ان کا اس کرسی پر بیٹھنا بھی غلط ہے۔ ہاں اگر یہ میٹنگ وزیر اعلیٰ آفس کے بجائے کسی پرائیوٹ آفس میں کی جاتی تو بات الگ ہوتی۔

اسی معاملے پر آج پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی ایم پی اے سعدیہ تیمور کی جانب سے بھی قرار داد جمع کروائی گئی ہےجس کے متن کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے عمران خان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ ایوان عمران خان کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کی کرسی پر براجمان ہونے کی مذمت کرتا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سے نکالے گئے شخص کا وزیراعلیٰ کی کرسی پربیٹھنا وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کی توہین ہے۔ اس لیے وہ عوام سے فوری معافی مانگیں۔

da_ali_zain

وارنٹ آف پریزنڈنس کیا ہیں؟

وارننٹ آف پریزیڈنس یا رولز آف پریزیڈنس پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دینا کے دیگر مختلف ممالک میں بھی فالو کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں وارنٹ آف پریزیڈنس پہلی مرتبہ 1963 میں متعارف کروائے گئے تھے اور تب سے اب تک ان رولز پر عمل درآمد کیا جاتاہے۔

وارنٹ آف پریزیڈنس پاکستان ایک ایسی پروٹوکول لسٹ ہے جس پر حکومت پاکستان کے لیے کام کرنے والا ہر شخص اپنے عہدےکے مطابق نشت پر بیٹھتا ہے۔ تاہم بڑے عہدے پر فائز شخص کے مقابلے میں کوئی بھی شخص جو اس سے عہدے میں چھوٹا ہے، اس کی جگہ پر نہیں بیٹھ سکتا ہے۔

اسی طرح رولز آف پریزیڈنس اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کسی بھی ادارے یا آفس میں اوپر سے نیچھے تک کون سا کام کس ترتیب سے ہو گا۔

اس معاملے پر زیادہ تر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی جن کی طرف سے عمران خان کے دفاع میں اس عمل کی وضاحت بھی سامنے آئی ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے کچھ سپورٹرز بھی اس عمل کو غلط قرار دے رہےہیں۔

ظفر نقوی نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے ٹوئٹ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ یہ وزیراعلی آفس ہے، عمران نیازی وزیراعلی کی کرسی پر کس حیثیت میں بیٹھے ہیں؟

جس کے جواب میں ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ یہ جائز سوال ہے اس پر انصافینز کو دفاع کے بجائےخود بھی سوال پوچھنا چاہیے۔ کل کو ایسی حرکت ن لیگ وغیرہ کریں تو ہمیں برا لگے گا کیونکہ یہ اصول کے خلاف ہے۔

علی زین نے ٹوئٹ کی کہ عمران خان ہمیشہ الگ آفس میں بیٹھتے ہیں یہ وزیر اعلی کی کرسی نہیں ہے۔ وہ آفس اور یہ آفس الگ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *