کیا جاپان کا ایک خاموش‘ قصبہ ایشیا

کیا جاپان کا ایک خاموش‘ قصبہ ایشیا

کیا جاپان کا ایک خاموش‘ قصبہ ایشیا کی سیلیکون ویلی بن سکتا ہے؟

جاپان کے قدرے کم ترقی یافتہ علاقے کے طور پر دیکھے جانے والا قصبہ توکوشیما ایسی جگہ نہیں، جہاں کوئی، ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھنے والے کاروباری نوجوانوں کے لیے کوئی نیا سکول کھلنے کی توقع کرے۔

یہاں کوئی خاص ترقی نہیں ہو رہی تھی شاید اسی لیے جنوبی جزیرے شکوکو پر واقع اس خاموش قصبے کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

لیکن یہ علاقہ جہاں زیادہ تر ضعیف العمر افراد موجود ہیں اور آبادی بہت کم ہوتی جا رہی ہے، جلد ہی نوجوانوں کے ایک گروپ کو خوش آمدید کہے گا۔

اگلے سال اپریل میں ٹیک انٹرپرینیورشپ کا ایک سکول (جو کہ جاپان میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا سکول ہو گا) کامیاما کے توکوشیما قصبے میں کھلے گا۔

15 سے 20 سال کی عمر کے طلبا کو انجینئرنگ، پروگرامنگ اور ڈیزائننگ کے ساتھ ساتھ مارکیٹنگ سکھائی جائے گی۔ وہ یہ بھی سیکھیں گے کہ پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے اپنے کاروباری منصوبوں کو سرمایہ کاروں تک کیسے پہنچانا ہے۔

اس کے پیچھے ٹوکیو کے سٹارٹ اپ ’سانسان‘ کے باس چیکاہیرو تیراڈا ہیں، جو بزنس کارڈز کی ڈیجیٹلائزیشن میں مہارت رکھتے ہیں۔

Entrepreneur Chikahiro Terada
اس کے پیچھے ٹوکیو میں قائم سٹارٹ اپ ’سانسان‘ کے باس چیکاہیرو تیراڈا کا ہاتھ ہے

تراڈا کا تعلق توکوشیما سے نہیں تو انھوں نے یہ علاقہ کیوں چنا؟ یہ کہانی سنہ 2010 سے شروع ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بارہ سال پہلے میں نے یہاں ایک دفتر بنایا تھا کیونکہ میں نے سنا تھا کہ کامیاما ایک دلچسپ شہر ہے جہاں پرانے گھروں میں تیز رفتار انٹرنیٹ ہے۔

تیراڈا نے جب یہاں کا دورہ کیا تو ایک مقامی تاجر شنیا اومینامی سے ملاقات کی، جو شہر میں بہترین انٹرنیٹ لگانے کے ذمہ دار تھے۔

تیراڈا بتاتے ہیں ’میں نے سوچا کہ اگر میں نے ایسا کہا کہ میں اس علاقے کی کسی قسم کی مدد کیے بغیر یہاں ایک دفتر کھولنا چاہتا ہوں تو شاید مجھے نہ کر دی جائے گی۔ چنانچہ انھوں نے مقامی، بزرگ آبادی کو کمپیوٹنگ سکھانے کی پیشکش کی۔‘

لیکن اومینامی صرف یہ چاہتے تھے کہ ٹیراڈا یہ ثابت کریں کہ ٹوکیو میں قائم آئی ٹی کمپنی کا یہاں دفتر ہو سکتا ہے۔ ’سانسان‘ کی کامیابی کے بعد دوسری کمپنیوں نے کامیاما میں دفاتر قائم کرنے کی پیروی کی، جس کی آبادی پانچ ہزار سے بھی کم ہے۔

The school site under construction

تیراڈا کا کہنا ہے کہ ’اس شہر کو نئے سرے سے زندہ ہوتے دیکھنا بہت پرجوش تھا۔ پھر میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ میں معاشرے میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے اور کیا کر سکتا ہوں اور اسی وقت میں نے سوچا: تعلیم۔‘

’میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک کاروباری شخص بن گیا تھا لیکن مجھے یاد نہیں کہ سکول میں مجھے کاروبار شروع کرنے کے لیے کوئی اہم ہنر سیکھایا گیا ہو۔‘

سکول کی تعمیر کے لیے تیراڈا نے دو ارب ین ایک سرکاری نظام کے ذریعے عطیات کی مد میں حاصل کیے ہیں۔ اس سکیم کے تحت، درمیانی سے زیادہ آمدنی والے بڑے شہر کے باشندے اپنی آمدن اور رہائشی ٹیکسوں میں کمی کے عوض اپنی پسند کے دیہی علاقے کو رقم عطیہ کر سکتے ہیں۔

30 سے ​​زیادہ کمپنیاں بھی اب اس نئے سکول کی مالی معاون ہیں۔ یہ زیادہ تر جاپانی ہیں لیکن کچھ بین الاقوامی بھی ہیں، جیسے اکاؤنٹنسی کی بڑی کمپنی ڈیلوئٹ۔

توکوشیما

روایتی طور پر جاپان میں نوجوان ایک محفوظ کیریئر چاہتے ہیں اور کسی بڑی فرم میں شامل ہونے کا انتخاب کرتے ہیں۔

لیکن تیراڈا کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اب کاروباری ذہن رکھتے ہیں اور ان کے منصوبوں میں ممکنہ طلبا کی طرف سے بڑی دلچسپی دیکھی گئی ہے، سکول میں ابتدائی طور پر 40 نشستیں ہیں مگر پورے جاپان سے 200 سے زیادہ درخواستیں آئی ہیں۔

یہ سکول لڑکیوں اور لڑکوں کے 50:50 کے تناسب کے لیے بھی پرعزم ہے، جو ایک ایسے ملک میں صحیح سمت میں ایک قدم ہے جہاں سٹارٹ اپ اور کاروباروں میں مردوں کا غلبہ ہے۔

یہ سکول قائم کیے جانے کا اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جاپان کا گورنمنٹ پینشن انویسٹمنٹ فنڈ ملک کے بہترین نئے سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری شروع کرنے والا ہے۔

ملک کی سابق ڈیجیٹل منسٹر کیرن ماکیشیما نے مجھے بتایا کہ کئی سال سے جاپان میں سٹارٹ اپس کامیاب نہیں ہو رہے تھے لیکن اب اس میں بہتری کی توقع ہے۔‘

’ہم اینالاگ سسٹمز کے ضوابط یا قواعد کو ختم کر دیں گے اور ان ڈیجیٹل سٹارٹ اپ کمپنیوں پر توجہ دیں گے۔ ہم ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ نہ صرف شہر بلکہ دیہی علاقوں سے بھی شروعات کریں۔‘

لیکن جہاں ایک طرف حکومت کو توقع ہے کہ یہ نئے سٹارٹ اپس سپر ہائی ٹیک ہوں گے، وہیں دوسری جانب اس ملک میں دنیا کی سب سے ضعیف العمر آبادی بھی موجود ہے۔

ساساکی
ساساکی کو سمارٹ فون استعمال کرنا نہیں آتا

گزشتہ دو دہائیوں میں جاپان میں بہت سی چیزوں کو ڈیجیٹلائز کیا گیا ہے مگر ضعیف افراد جو ملک کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی ہیں، کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔

83 سالہ ساساکی نے مجھے بتایا کہ ’مجھے سمارٹ فون استعمال کرنے کا طریقہ معلوم نہیں۔‘

میں نے ان سے اور ان کی تین دوستوں سے نئے کاروباری سکول سے کچھ فاصلے پر ملاقات کی جہاں وہ توکوشیمارو نامی ’سپر مارکیٹ آن ویلز‘ (آپ تک چل کر آنے والی مارکیٹ کا ٹرک) کا انتظار کر رہی تھیں۔

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ سٹارٹ اپ جو ملک کے ہزاروں بزرگوں کے لیے ایک لائف لائن ہے، یہ بھی اسی علاقے سے شروع ہوا تھا۔

A Tokushimaru truck
توکوشیمارو ٹرک پورے جاپان میں کھانا پہنچاتے ہیں

جب 10 سال پہلے یہ کمپنی شروع ہوئی تو ان کے پاس مقامی طور پر صرف دو ٹرک تھے لیکن آج پورے جاپان کی سڑکوں پر ان کی ایک ہزار سے زیادہ وینز چل رہی ہیں اور اس کی سالانہ فروخت 20 ارب ین ہے۔

اس کے 90 فیصد سے زیادہ صارفین 80 سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔

ہفتے میں ایک بار توکوشیمارو ڈیلیوری ڈرائیور جونیچی کیشیموتو سب کے آرڈر لے کر کامیاما کا سفر کرتے ہیں۔

ساساکی کہتی ہیں کہ ’اسے یاد ہے کہ میں ہر ہفتے کیا خریدنا چاہتی ہوں۔ وہ ہر ہفتے آتا ہے، اس لیے اگر میرے پوتے اتوار کو آرہے ہیں تو میں کچھ خاص لانے کی درخواست کرتی ہوں۔‘

بہت سے صارفین کے لیے جن میں سے کچھ اپنے پارٹنرز کے وفات کے بعد اکیلے رہتے ہیں، یہ اپنے دوستوں کے ساتھ ملنے ملانے کا ایک موقع بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ سب باہر ایک گروپ کی صورت میں وین کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

38 سالہ کیشیموتو کے لیے، کمپنی میں شامل ہونے کا مقصد تنخواہ نہیں بلکہ بزرگوں کی مدد کرنا تھا۔

وہ کہتے ہیں ’میں ایک نرسنگ ہوم میں کام کرتا تھا اور میں نے محسوس کیا کہ کچھ رہائشی وہاں اس لیے رہنے کے لیے آئے ہیں کیونکہ وہ روزمرہ کے کھانے کو لے کر پریشان تھے۔ مجھے یقین تھا کہ ان کے لیے اپنے گھر میں رہنا بہتر ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ میں ان کی مدد کے لیے کیا کر سکتا ہوں اور تب مجھے توکوشیمارو کے بارے میں پتا چلا۔‘

Tokushimaru delivery driver Junichi Kishimoto
38 سالہ کیشیموتو کے لیے، کمپنی میں شامل ہونے کا مقصد تنخواہ نہیں بلکہ بزرگوں کی مدد کرنا تھا

اس کاروبار کا خیال کمپنی کے بانی، تاٹسویا سومیتومو کو آیا کیونکہ ان کے اپنے والدین 80 کی دہائی میں تھے، جو روزمرہ کی اشیائے خوردونوش کی خریداری کے حوالے سے مشکلات کا شکار تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے توکوشیمارو شروع کی تو مجھے معلوم تھا کہ مارکیٹ اگلے 20 سے 30 سال تک بڑھے گی کیونکہ اس کی مانگ یقینی تھی اور معاشرہ کوئی حل فراہم نہیں کر رہا تھا۔‘

لیکن کمپنی بھی وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایپ کی ٹیسٹنگ بھی کر رہے ہیں جو اگلے دو سال تک دستیاب ہو جائے گی۔ کئی اور شخصیات نے بھی یہی کاروبار شروع کیا ہے اور سومیتومو اس بات سے بھی واقف ہیں کہ صارفین کی اگلی نسل زیادہ ٹیک سیوی ہے۔

’70 کی دہائی میں پیدا ہونے والے بھی جلد ہمارے گاہک بن جائیں گے اور انھیں انٹرنیٹ کی بہتر سمجھ بوجھ ہے، اس لیے ہم اپنے سپر مارکیٹ ٹرکوں کو آن لائن شاپنگ کے ساتھ ضم کر رہے ہیں۔‘

سومیٹومو ایک انٹرپرینیور ہیں جنھوں نے پچھلے 30 سال میں بہت سے دوسرے کاروبار بھی شروع کیے ہیں۔

وہ مقامی تاجر شنیا اومینامی کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور انھیں کامیاما کے نئے بورڈنگ سکول سے بہت امیدیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایک شخص اس دیہی علاقے میں اتنی بڑی تبدیلی لا رہا ہے۔‘

جب ہم توکوشیما میں تھے تو اومینامی کے پاس انٹرویو کے لیے وقت نہیں تھا لیکن وہ اور ’سانسان‘ کے چیکاہیرو تراڈا کامیاما کو ایشیا کی سیلیکون ویلی میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ابھی اس خواب کو حقیقت بننے میں کافی وقت لگے گا لیکن ایک شخص کا تیز رفتار انٹرنیٹ لا کر اپنے آبائی شہر کو نئے سرے سے بنانے والا ویژن ہی شاید اس علاقے کے لیے ایسا روشن مستقبل لے کر آیا ہے جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا تک نہیں تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *