کورونا کی لپیٹ میں آئے وارانسی کے شہری اپنے پارلیمانی

کورونا کی لپیٹ میں آئے وارانسی کے شہری اپنے پارلیمانی

کورونا کی لپیٹ میں آئے وارانسی کے شہری اپنے پارلیمانی نمائندے مودی کے منتظر

ہندوؤں کے لیے مقدس سمجھا جانے والا انڈیا کا شہر وارانسی (بنارس) اور اس کے آس پاس کے علاقے کورونا کی وبا کی دوسری لہر سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

اس علاقے کے ناراض لوگ اب یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ضرورت کے وقت ان کے رکن پارلیمان اور ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کہاں ہیں۔

انڈیا میں اب کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد دو کروڑ سے بڑھ چکی ہے جبکہ اس وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ 20 ہزار سے زیادہ ہے۔

وارانسی میں صحت کی سہولیات کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ مریضوں کو ہسپتالوں میں بستر نہیں مل رہے، آکسیجن دستیاب نہیں، ایمبولینس سروس کا مسئلہ ہے اور عوام کو کورونا ٹیسٹ کروانے کے لیے بھی ہفتوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔

گذشتہ دس دنوں میں شہر کے میڈیکل سٹورز میں وٹامنز، زنک اور پیراسیٹامول جیسی بنیادی ادویات کی قلت پیدا ہو چکی ہے۔

ایک مقامی ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں ہسپتال کے بیڈ یا آکسیجن کی ضرورت کے بارے میں بہت سی فون کالز آ رہی ہیں۔ بنیادی ادویات کی قلت کی وجہ سے صورتحال ایسی ہو گئی ہے کہ لوگ ایسی دوائیں کھانے پر مجبور ہیں جن کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس کا کم اثر ہوگا، لیکن کچھ تو اثر ہو گا۔‘

کورونا وائرس کیسے پھیلا؟

شہر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ حالات مارچ میں ہی خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ دہلی اور ممبئی میں وبا کے پھیلاؤ میں تیزی کے بعد وہاں حکام نے پابندیاں عائد کرنا شروع کردیں اور تارکین وطن مزدوروں کو اپنے علاقوں میں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد ایسے مزدوروں سے بھری ٹرینیں، بسیں اور ٹرک وارانسی اور اس کے آس پاس کے دیہاتوں میں پہنچنا شروع ہوئے۔

بہت سے لوگ 29 مارچ کو منائے جانے والے ہولی کے تہوار پر واپس آئے تھے۔ کچھ پنچایتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے آئے تھے جو کہ ماہرین کے مشورے کے خلاف 18 اپریل کو منعقد ہوئے۔

صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں ڈیوٹی پر تعینات 700 سے زیادہ اساتذہ کی موت کورونا کی وجہ سے ہوئی اور یہ بیماری الیکشن کے باعث تیزی سے پھیلی۔

وارانسی کے ہسپتال بہت تیزی سے بھرے اور عوام بےیارومددگار رہ گئے۔ 25 سالہ رشبھ جین ایک مقامی کاروباری شخصیت ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی 55 سالہ خالہ کی طبیعت خراب ہوئی تو انھیں اپنی خالہ کے لیے آکسیجن سلنڈر بھروانے کے لیے روزانہ 30 کلو میٹر کا سفر کرنا پڑا اور اس کے لیے انھیں قطار میں پانچ گھنٹے کا انتظار بھی کرنا پڑا۔

بنارس
دہلی اور ممبئی میں پابندیوں کے نفاد کے بعد مزدوروں سے بھری ٹرینیں، بسیں اور ٹرک وارانسی اور اس کے آس پاس کے دیہات میں پہنچنا شروع ہوئے

وہ کہتے ہیں، ’ہماری پریشان ہو گئے جب ان کی آکسیجن کی سطح 80 سے نیچے چلی گئی۔ ہم ہسپتال میں بستر کا انتظام نہیں کر سکے تھے لہٰذا ہمارا خاندان آکسیجن سیلنڈر کا بندوبست کرنے میں مصروف ہو گیا۔ ہمیں نے 25 مختلف نمبروں پر 12، 13 گھنٹے تک فون کیے اور آخرکار سوشل میڈیا اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے ہم سیلنڈر کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہو پائے۔ اب میری خالہ رو بصحت ہیں۔‘

ان حالات میں، 19 اپریل کو، الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے وارانسی سمیت چار دیگر شہروں میں ایک ہفتے کے لیے لاک ڈاؤن کا حکم دیا تھا کہ اس وبا کی وجہ سے طبی انفراسٹرکچر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے لیکن ریاستی حکومت نے اس حکم کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

ریاستی حکومت کا مؤقف تھا کہ اسے زندگیاں اور معاش دونوں کو بچانا ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت دونوں کو بچانے میں ناکام رہی ہے۔ ریاست میں اب ضلعی انتظامیہ اختتامِ ہفتہ پر کرفیو لگا رہی ہے،بیشتر کاروباری ادارے اور دکانیں خوف کی وجہ سے بند ہیں، ہزاروں افراد اپنے روزگار سے محروم ہو رہے ہیں اور وائرس اب بھی پھیل رہا ہے۔

اعداد و شمار پر پیدا ہونے والے سوالات

اب تک، وارانسی میں ساڑھے 70 ہزار سے زیادہ افراد کورونا کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ اس وبا کی وجہ سے یہاں کم از کم 690 افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ صورتحال کی شدت کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے 65 فیصد مریض یکم اپریل کے بعد سامنے آئے ہیں۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق وارانسی میں روزانہ 10 سے 11 افراد کورونا کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں لیکن آپ وارانسی میں جس سے بھی بات کرتے ہیں وہ کہتا ہے کہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔

ہریش چندر اور مانیکرنیکا گھاٹ کے نواحی علاقے میں رہنے والے ایک بوڑھے شہری نے بتایا کہ ان دونوں گھاٹوں پر گذشتہ ایک ماہ سے مسلسل چتائیں جل رہی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس سے قبل ان دونوں گھاٹوں پر روزانہ 80 سے 90 چتائیں جلتی تھیں لیکن گذشتہ مہینے سے یہاں روزانہ تقریباً 300 سے 400 چتائیں جلائی جا رہی ہیں۔

ان کا سوال ہے کہ ’لاشوں کی اچانک آمد کیسے بڑھی ہے۔ آپ اسے کیا کہتے ہیں۔ یہ لوگ کسی وجہ سے مر رہے ہیں۔ بیشتر اطلاعات میں کہا جارہا ہے کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔ اچانک اتنے سارے لوگ کیسے دل کا دورہ پڑنے سے مر رہے ہیں اور ان میں نوجوان بھی شامل ہیں۔‘

وارانسی کے ایک شخص نے حال ہی میں ایک ویڈیو شائع کی جس میں ایک پتلی گلی کے دونوں اطراف لاشیں موجود تھیں اور یہ قطار ایک کلومیٹر لمبی تھی۔

انتظامیہ نے دس روز قبل دو نئے شمشام گھاٹ کھولے ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہاں بھی چوبیس گھنٹے چتائیں جلائی جا رہی ہیں۔

دیہات میں وائرس پھیل گیا

کرونا کا المیہ صرف وارانسی تک ہی محدود نہیں ہے۔ وبا کی دوسری لہر ریاست کے دور دراز قصبوں اور دیہات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔

وارانسی کے نواح میں واقع چیریگاؤں بلاک میں 110 دیہات شامل ہیں جن کی مجموعی آبادی 230،000 کے قریب ہے۔ سدھیر سنگھ پپو یہاں کے بلاک کے سربراہ ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ دنوں میں ہر گاؤں میں پانچ سے دس افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ کچھ دیہات میں یہ تعداد 15 سے 30 کے لگ بھگ رہی ہے۔

مودی
نریندر مودی 2014 سے وارانسی سے رکنِ پارلیمان ہیں

ان کا کہنا تھا کہ ’بلاک میں کوئی ہسپتال نہیں، آکسیجن نہیں، دوائیں نہیں ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے۔ نجی ہسپتال مریض کو داخل کرنے سے پہلے دو سے پانچ لاکھ روپے جمع کروانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ ہم کہاں جائیں۔‘

ایدھے گاؤں کے کمل کانت پانڈے کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں کی حالت شہر سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔ ’اگر آپ میرے گاؤں کے تمام 2700 افراد کا ٹیسٹ کریں تو کم از کم آدھے کورونا کے مریض نکلیں گے بہت سے لوگوں کو بلغم، بخار، کمر میں درد، کمزوری اور ذائقہ اور بو کے غائب ہونے جیسے مسائل ہیں۔‘

کمل کانت پانڈے خود بھی بیمار تھے لیکن اب صحت یاب ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ ایدھے گاؤں میں مر رہے ہیں ان کا سرکاری اعداد و شمار میں ذکر نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہاں کوئی ٹیسٹ نہیں کر رہا۔‘

’ذرا تصور کریں کہ یہ صورتحال وزیر اعظم کے انتخابی حلقے کی ہے اور ہمارا دم گھٹ رہا ہے۔‘

‘مودی روپوش ہوگئے’

وزیراعظم نریندر مودی اکثر وارانسی ، اس کے عوام اور دریائے گنگا سے اپنی خصوصی لگاؤ ​​کا ذکر کرتے رہے ہیں لیکن جب یہ شہر کورونا کی تباہی سے دوچار ہے اور یہاں کی صحت کی سہولیات مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں تو وزیراعظم مودی کا اپنے انتخابی حلقے میں کوئی اتا پتا نہیں۔

مقامی افراد یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے رکن پارلیمان نے فروری اور اپریل کے درمیان 17 مرتبہ مغربی بنگال کا دورہ کیا۔ مودی وہاں اسمبلی انتخابات کی مہم کے لیے جا رہے تھے مگر ان کی پارٹی انتخاب بری طرح ہار گئی۔

ایک مقامی ریستوران کے مالک کا کہنا تھا کہ پنچایتی انتخابات سے ایک دن قبل، 17 اپریل کو وارانسی میں کووڈ کی صورتحال کے بارے میں مودی کی جانب سے اجلاس بلانا حقیقت میں ایک مذاق تھا۔

انھوں نے کہا ’وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ روپوش ہو گئے ہیں۔ انھوں نے وارانسی کے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے مقامی رہنما بھی آگے نہیں آ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے فون بند کر دیے ہیں۔ یہ وقت ہے جب لوگوں کو ہسپتال کے بیڈ یا آکسیجن سیلنڈر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہاں مکمل افراتفری پائی جاتی ہے۔ لوگ بہت ناراض ہیں۔‘

کانگریس کے رہنما گورو کپور کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کی ذمہ داری وزیراعظم پر عائد ہوتی ہے۔

وارانسی میں ایک تشخیصی مرکز کے مالک نے مجھے بتایا کہ ’ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آکسی میٹر نہیں ہے، مریضوں کی آکسیجن کی سطح کم ہے اور وہ مر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’’جب میری بیوی اور بچوں کو انفیکشن ہوا تو ہم نے اپنے ڈاکٹر کو فون کیا اور اس کے مشورے پر عمل کیا لیکن جو لوگ پڑھ لکھ نہیں سکتے، جنھیں ڈاکٹر تک رسائی نہیں آپ جانتے ہیں کہ وہ کیسے زندہ رہیں گے۔ وہ صرف خدا کے رحم و کرم پر ہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *