کمیشن نواز شریف اور آصف زرداری کی بند فائلیں دوبارہ کھول سکتا ہے؟

کمیشن نواز شریف اور آصف زرداری کی بند فائلیں دوبارہ کھول سکتا ہے؟

جسٹس عظمت سعید کمیشن حکومت کا نیا ایک رکنی انکوائری کمیشن نواز شریف اور آصف زرداری کی بند فائلیں دوبارہ کھول سکتا ہے؟

اکستان کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن تشکیل دینے کی منظوری دی ہے جو براڈ شیٹ سکینڈل کے علاوہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے معاملات کی تحقیقات کرے گا۔

حکومتی بیان کے مطابق یہ کمیشن نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز اور آصف علی زرداری کے سرے محل اور سوئس بینک اکاونٹس کے معاملے کی تحقیقات کرے گا۔ ماضی میں ان کیسز پر سپریم کورٹ اپنے فیصلے دی چکی ہے۔

اس سے قبل حکومت کے ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے براڈ شیٹ کے معاملے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔

ابھی تک نہ تو جسٹس عظمت سعید شیخ کے بطور کمیشن کے چیئرمین تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اور نہ ہی اس کمیشن کے ضوابط کار طے ہوئے ہیں۔ تاہم حکومت کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ کمیشن پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ سنہ2017 کے تحت کام کرے گا اور اس کمیشن کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جو کہ اس ایکٹ میں بنائے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ اس کمیشن کے ضوابط کار تشکیل دینے کے حوالے سے کام ہو رہا ہے اور جلد ہی اسے حتمی شکل دے دی جائے گی۔

دوسری جانب اپوزیشن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے، جو پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت مخالف تحریک پی ڈی ایم کا حصہ ہے، جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کی تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کمیشن اف انکوائری ایکٹ سنہ 2017ہے کیا؟

پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن کو کسی بھی معاملے کی چھان بین اور تحقیقات کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس ایکٹ کے تحت وفاق اور صوبائی حکومتوں کے ماتحت تمام ادارے کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے کے پابند ہیں۔

اس قانون کے تحت کمیشن کا سربراہ کسی بھی شخص کو تفتیش یا بیان ریکارڈ کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی مقدمے کا ریکارڈ یا دستاویزات طلب کرسکتا ہے۔

اس کمیشن کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ کسی بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک بین الااقوامی ٹیم تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ کسی بھی معاملے کے بارے میں معلومات اور دستاویزات حاصل کرنے کے لیے کسی بھی ملک یا غیر ملکی ایجنسی کی خدمات بھی حاصل کرسکتا ہے۔

اس قانون کے تحت کمیشن کے احکامات نہ ماننے یا اس کا تمسخر اُڑانے کے حوالے سے اس کمیشن کے پاس وہی اختیارات ہوتے ہیں جو ہائی کورٹ کے جج کے پاس ہوتے پیں۔

اس قانون کے تحت کمیشن مقررہ مدت میں کسی بھی معاملے کی چھان بین کر کے اس کی رپورٹ وفاقی حکومت کو دینے کا پابند ہے۔ تاہم اگر مقررہ مدت میں تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں تو وفاقی حکومت کمیشن کے چیئرمین کی درخواست پر اس کی مدت میں اضافہ کرسکتی ہے۔

انکوائری کمیشن کسی کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے؟

وفاقی حکومت یہ اعلان کرچکی ہے کہ کمیشن 45 روز میں اپنی انکوائری مکمل کر کے حکومت کو رپورٹ پیش کرے گا۔

اس قانون کے تحت کمیشن کی سفارشات یا اس کی کارروائی پر کمیشن یا وفاقی حکومت کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔

قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ انکوائری کمیشن صرف اپنی سفارشات حکومت کو دے سکتی ہے اور کسی شخص کے خلاف براہ راست کارروائی عمل میں نہیں لاسکتی۔

سابق اٹارنی جنرل اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ حدیبہ پیپر ملز اور سوئس بینک اکاؤنٹس کا معاملہ تو سپریم کورٹ میں طے ہوچکا ہے تو پھر یہ کمیشن ان معاملات کی کیسے انکوائری کرے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ ’انکوائری کمیشن سپریم کورٹ سے تو بالا تر نھیں ہے اور یہ بات ان کی سمجھ میں نھیں آرہی کہ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کس بنیاد پر یہ کہہ دیا کہ یہ کمیشن ان دونوں معاملات کی بھی انکوائری کرے گا۔‘

واضح رہے کہ سپریم کورٹ سنہ 2018 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کے حوالے سے نیب کی درخواست کو مسترد کرچکا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے کو ’کرپشن کے مقدموں کی ماں‘ قرار دے چکے ہیں۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے این آر او پر عمل درآمد روکنے کا معاملہ جب سپریم کورٹ میں آیا تھا تو اس ضمن میں سوئس اکاؤنٹس کے معاملے کے بارے میں سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے اور اس میں نیب کی اس بات کو تسلیم کیا گیا تھا کہ اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو استثنی حاصل ہے، اس لیے اس وقت تک ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نھیں لائی جاسکتی جب تک وہ عہدہ صدارت پر ہیں۔

سوئس حکام کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے حوالے سے خط نہ لکھنے پر اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا تھا۔

نیب کے سابق ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل راجہ عامر عباس کا کہنا ہے کہ اگر کسی مقدمے میں کوئی نئے ثبوت سامنے آئیں تو اسی ادارے کو اس کی تحقیقات کا حق حاصل ہے جس نے پہلے اس مقدمے کی تحقیقات کی ہوں۔

اُنھوں نے کہا کہ ’انکوائری کمیشن کیسے ان معاملات کے بارے میں اپنی رائے قائم کرسکتا ہے جس کے بارے میں ان کا کوئی تعلق بھی نہ رہا ہو۔‘

حکومت نے براڈ شیٹ، حدیبیہ پیپرملز اور سرے محل اور سوئش بینک اکاؤنٹس کی انکوائری کے لیے جس ایک فرد پر کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے وہ جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ ہیں۔ وہ جنوری سنہ 2019 میں سپریم کورٹ سے بطور جج ریٹائر ہوئے تھے۔

سنہ 2000 میں جس وقت براڈ شیٹ اور نیب کے درمیان بیرونی ممالک میں سیاستدانوں کی جائیدادوں کا سراغ لگانے کے لیے معاہدہ ہوا تھا تو وہ اس وقت نیب میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے۔

سنہ 2004 میں وہ اپنے عہدے سے الگ ہوگئے تھے اور نیب میں بطور پراسیکیوٹر کام کرتے رہے ہیں۔ اس میں وہ نیب کے مختلف مقدمات کی پیروی کے سلسلے میں عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔

دسمبر سنہ 2004 میں اس وقت کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اُنھیں لاہور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات کیا تھا۔

جسٹس عظمت سعید اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز میں شامل تھے جنھوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر سنہ2007 میں ملک میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے دوران پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔

جسٹس عظمت سعید سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ بحال نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں مشہور زمانہ نائیک منصوبے کے تحت اپنے عہدے کا دوبارہ حلف اس وقت کے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس زاہد حسین سے لیا تھا جنھوں نے فوجی صدر پرویز مشرف کے دوسرے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔

جسٹس عظمت سعید سنہ 2011 میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنائے گئے اور وہ ایک سال سے بھی کم عرصے تک اس منصب پر فائز رہنے کے بعد سنہ 2012 میں سپریم کورٹ میں جج تعینات کیے گئے۔ جسٹس عظمت سعید 27 اگست سنہ 2019 میں بطور جج سپریم کورٹ اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

سپریم کورٹ میں بطور جج وہ مختلف بینچوں کا حصہ رہے جنھوں نے مختلف مقدمات کی سماعت کی۔

وہ پاناما لیکس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے بینچ کا بھی حصہ تھے۔

جسٹس عظمت سعید سپریم کورٹ کے اس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے بلوچستان میں تانبے کی تلاش کے لیے ایک غیر ملکی کمپنی کے ساتھ ہونے والے ریکوڈک معاہدے کو متفقہ طور پر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کردیا تھا۔

آسٹریلوی کمپنی نے اس فیصلے کے خلاف عالمی بینک کے ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹیلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپویٹ سے رجوع کیا جنھوں نے پاکستان کو چھ ارب ڈالر جرمانے کی سزا سنائی۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس معاملے میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا جن کے ’غلط فیصلے کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا جرمانہ ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *