کراچی: پولیس کا خاتون کے قتل کے شبے میں دو افراد

کراچی: پولیس کا خاتون کے قتل کے شبے میں دو افراد

کراچی: پولیس کا خاتون کے قتل کے شبے میں دو افراد گرفتار کرنے کا دعویٰ، ’ملزمان آپس میں دوست تھے‘

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پولیس نے گذشتہ پیر کو مردہ حالت میں ملنے والی ایک خاتون کے قتل کے شبے میں دو افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

یاد رہے کہ قتل ہونے والی ممتاز بیگم وہی خاتون ہیں جن کی میت کی ویڈیوز پیر کے روز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں اور چھیپا کے رضاکاروں کے مطابق اُن کی ایک پانچ سالہ بچی ساری رات اپنی والدہ کی لاش کے نیچے دبی رہی، جسے پیر کی صبح نکالا گیا اور فلاحی سینٹر منتقل کیا گیا۔

اس کیس کے تفتیشی افسر شمشاد چاچڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ گرفتار ہونے والے مرکزی ملزم کی خاتون سے شناسائی تھی تاہم کچھ عرصہ قبل تعلقات کشیدہ ہونے پر اس نے خاتون کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

تفتیشی افسر کے مطابق دونوں ملزمان آپس میں دوست ہیں۔

پولیس کے مطابق مرکزی ملزم کے ساتھ مبینہ تعلقات کی وجہ سے قتل ہونے والی خاتون کے اپنے شوہر سے تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے۔

تفتیشی افسر شمشاد چاچڑ کے مطابق مرکزی ملزم خاتون کے شوہر کا دوست تھا۔ تاہم بعدازاں، پولیس کے مطابق خاتون کے مرکزی ملزم کے ایک دوست کے ساتھ مبینہ تعلقات استوار ہوئے، جو مرکزی ملزم کے منصوبے کے تحت تھے۔

پولیس کے مطابق دونوں ملزمان نے ایک منصوبہ بنایا اور خاتون کو وقوعے کے روز رکشے میں ایک ویران علاقے میں بلایا جہاں ان کے سر میں گولی مار کر انھیں ہلاک کر دیا گیا۔

خاتون کے ساتھ ان کی چھوٹی بیٹی بھی تھی جو اس دوران خاتون کے نیچے دب گئی جسے اگلے روز نکالا گیا۔

پولیس کے مطابق دونوں ملزمان چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں اور کل ان کا ریمانڈ حاصل کیا جائے گا۔

واقعہ کیسے پیش آیا؟

صبح ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا کہ منگھو پیر تھانے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور ایک شہری نے اطلاع دی کہ ویرانے میں لاش موجود ہے۔ اے ایس آئی سبحان علی شاہ سپاہیوں کے ساتھ جائے وقوعہ پہنچ کر دیکھتے ہیں کہ زمین پر ایک خاتون منھ کے بل موجود ہیں اور ان کے سر سے نکلنے والا خون زمین پر پھیلا ہوا ہے۔

اس خاتون نے سیاہ رنگ کے کپڑے اور اس پر سیاہ رنگ کا ہی برقعہ پہنا ہوا تھا۔ لاش کے نیچے تقریباً پانچ سال کی بچی بھی موجود تھی۔ پولیس کو جائے وقوعہ سے ایک گولی کا خول اور ایک زندہ راؤنڈ ملاتھا۔

ایک ویڈیو میں اس بچی کو یہ کہتے سُنا جا سکتا ہے کہ ’میں ماما کے نیچی دب گئی تھی۔‘ بچی کی نانی، جو اسے لینے فلاحی ادارے پہنچی تھیں، نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو شوہر کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی تھی۔

شناخت سم کارڈ کی مدد سے

28 سے 30 سالہ عمر کی ممتاز کی لاش عباسی شہید ہسپتال منتقل کی گئی تھی جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ پولیس سرجن ڈاکٹر سیدہ سمیعہ کے مطابق عورت کے سر میں ایک ہی گہری چوٹ کا نشان ہے اور کسی جنسی زیادتی کا ثبوت نہیں ملا جبکہ بچی پر بھی معمولی چوٹوں کے نشانات ہیں۔

پوسٹ مارٹم کے بعد لاش کو چھیپا ویلفیئر کے سرد خانے منتقل کردیا گیا تھا جبکہ بچی کو ایک فلاحی ادارے میں بھیج دیا گیا تھا۔

جائے وقوعہ سے پولیس کو شناخت کا کوئی کارڈ وغیرہ دستیاب نہیں ہوا تھا۔

ایس ایس پی ویسٹ ڈاکٹر فاروق رضا کے مطابق ابتدا میں مقتولہ کی بائیو میٹرک سے شناخت نہیں ہو پا رہی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ مقتولہ کا نادرا میں ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ ’خاتون کے بیگ میں ایک سم کارڈ موجود تھا جس سے کالز کی گئیں اور ایک نمبر پر خاتون نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ یہ اُن کی بیٹی ممتاز کا نمبر ہے۔‘

’اس کے بعد مقتولہ کی شناخت ممتاز بیگم اور بیٹی کی شناخت کی گئی جو گلشن اقبال موتی محل کے رہائشی تھے۔‘

کراچی، پولیس، بچی

’میاں بیوی کے تعلقات اچھے نہیں تھے‘

ممتاز کی والدہ تقریباً چوبیس گھنٹے کے بعد اپنی نواسی کو لینے پہنچیں تھیں جہاں انھوں نے بتایا تھا کہ اتوار کی رات آٹھ بجے کے قریب ان کی بیٹی ممتاز یہ کہہ کر گھر سے نکلی تھی کہ ان کو کوئی کام ہے جس کے بعد سے ان کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ان کے مطابق ممتاز بیگم کا ایک بیٹا بھی ہے جس کو وہ گھر چھوڑ کر گئیں تھی۔

انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اُن کا داماد نشہ کرتا تھا اور میاں بیوی کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ وقوعے سے دو روز قبل بھی نیپا کے قریب دونوں کی ہاتھا پائی ہوئی اور تشدد میں ان کی بیٹی کے کپڑے پھٹ گئے تھے اور شوہر ان کو گھسیٹتا ہوا لے جا رہا تھا۔ ’اس کی چیخ و پکار پر لوگ جمع ہو گئے جس کے بعد وہ بھاگ گیا۔‘

ممتاز کے چچا کا کہنا تھا کہ دونوں میاں بیوی کے تعلقات ایک ڈیڑھ سال سے خراب تھے مگر اس سے قبل دونوں ٹھیک چل رہے تھے۔ ’وہ شوہر کو نشئی دوستوں کو گھر آنے سے روکتی تھی۔‘

پولیس کو بھی مقتولہ کے شوہر پر شبہ ہے تاہم ایس ایس پی انویسٹی گیشن راؤ عارف کا کہنا ہے کہ انھوں نے والدہ کا بیان ریکارڈ کیا ہے۔ ’سی ڈی آر ریکارڈ بھی چیک کیا جا رہا ہے تاہم اس وقت کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *