کالعدم تحریک لبیک سے مذاکرات حکومت کو ٹی ایل پی

کالعدم تحریک لبیک سے مذاکرات حکومت کو ٹی ایل پی

کالعدم تحریک لبیک سے مذاکرات حکومت کو ٹی ایل پی سے متعلق اپنا رویہ تبدیل کیوں کرنا پڑا؟

اکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں گذشتہ روز یہ بیانیہ پیش کیا تھا کہ فرانس کے سفیر کی ملک بدری ملک کے مفاد میں نہیں۔ حکومت کے ترجمان فواد چوہدری نے واضح طور پر کہا تھا کہ ’وزیر اعظم بلیک میل نہیں ہوں گے۔‘

پیر کو عمران خان کے قوم سے خطاب کے بعد یہ تاثر قائم ہوگیا تھا کہ پیغمبر اسلام کی توہین کے معاملے پر حکومت کسی طور پر کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مطالبے پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہیں کرے گی اور ان حالات میں ٹی ایل پی سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔

مگر پھر اچانک رات کو ٹی ایل پی کی قیادت سے مذاکرات کے بعد حکومتی پالیسی میں ناقدین کے مطابق ’ایک اور یو ٹرن‘ آیا۔

وزیر داخلہ شیخ رشید، جو کہ وزیر اعظم کے ماتحت ہیں، ان کی طرف سے یہ بیان جاری ہوا کہ حکومت ٹی ایل پی کے ’مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے‘ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے ایک قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔

کالعدم تنظیم تحریک لبیک کے صوبہ خیبر پختونخوا کے امیر ڈاکٹر شفیق امینی کو خصوصی طور پر پشاور سے اسلام آباد لایا گیا اور پھر وہاں سے اُنھیں وزیر داخلہ کے ساتھ لاہور لے جایا گیا، جہاں حکومت اور تحریک لبیک کی قیادت کے درمیان مذاکرات ہوئے۔

اس کے بعد وزیر داخلہ شیخ رشید نے ’مذاکرات کامیاب‘ ہونے کی ویڈیو جاری کی۔ مذاکرات کے بعد ڈاکٹر شفیق امیٹی کا آڈیو پیغام بھی سوشل میڈیا پر آیا جس میں وہ تحریک لبیک کے کارکنوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنا ’احتجاج ختم کر دیں۔‘

سو پیاز بھی کھائے، سو جوتے بھی

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی کالعدم تنظیم کے مطالبات پر اس طرح کے اقدامات سے حکومت کی نہیں بلکہ ’ریاست کی رٹ کمزور ہوتی ہے۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ پاکستان میں کوئی بھی گروہ چاہے تو وہ چند سڑکیں بند کر کے ریاستی نظام کی قلعی کھول سکتا ہے۔

تجزیہ نگار اور صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ حکومت نے ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کے بعد معاہدہ کر کے ’سو پیاز بھی کھائے ہیں اور سو جوتے بھی۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو گزشتہ چھ روز سے ملک میں جو ’بدامنی پھیلی ہوئی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت نے ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کرنے سے لے کر اس جماعت کو کالعدم قرار دینے اور پھر اس جماعت کے مطالبات کو تسلیم کرنے سمیت جتنے بھی فیصلے کیے، وہ سوچے سمجھے بغیر کیے گئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے حزب مخالف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی ناکامی کے بعد تحریک لبیک کو بھی ’انڈر ایسٹیمٹ‘ کیا اور اس پر چڑھائی کر دی۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس عوامی حمایت تو ضرور ہے لیکن ان کے پاس ’سٹریٹ پاور نہیں‘ ہے جبکہ تحریک لبیک جیسی جماعتوں کے پاس پبلک سپورٹ تو نہیں ہے لیکن سٹریٹ پاور موجود ہے، جس کا اظہار انھوں نے متعدد بار کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ تحریک لبیک کے پورے ملک میں نہیں بلکہ صرف سندھ اسمبلی میں تین ارکان ہیں لیکن اس کے باجود انھوں نے ’پوری ریاستی مشینری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘

’مذاکرات میں کوئی حرج نہیں‘

سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور ریاست نے کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں تو ’یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔‘ ماضی میں بھی کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر کوئی تنطیم ملک میں بڑے پیمانے پر امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے تو ان سے مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر مذاکرات میں کالعدم تنظیم کے مطالبات تسلیم کر لیے جاتے ہیں تو پھر یہ ریاست کی کمزوری ہوتی ہے اور ریاست کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

حکومت، مذاکرات، ٹی ایل پی
سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور ریاست نے کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں تو ‘یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا’

مگر اس پر حامد میر کا کہنا تھا کہ اس بات کا اندازہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی ’باڈی لینگویج‘ سے لگا لیں کہ جب انھوں نے اس جماعت کو کالعدم قراد دینے کا اعلان کیا تو کس طرح سینہ تان کے بات کی جبکہ اس برعکس ایک ویڈیو میں جب وہ ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے قرارداد لانے کی بات کر رہے ہیں تو اس وقت ان کی باڈی لینگویج کیا ہے۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ ’اسٹیلشمنٹ ملک میں بڑی جمہوری پارٹیوں کو کمزور کرنے کے لیے ٹی ایل پی جیسی جماعتیں پیدا کرتی ہے۔‘

’ماضی میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے ایم کیو ایم اور جئے سندھ جیسے گروپوں کو جماعتوں کی شکل دی گئی۔‘

وہ عامر رانا سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسے حالات میں تمام ریاستی اداروں کو مل بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب دو وفاقی وزرا نے تحریک لبیک کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا تھا تو کیا انھیں اس وقت معلوم نہیں تھا کہ فرانس یورپی یونین کا ایک اہم ملک ہونے کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک ہے۔‘

حامد میر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ’ایک کمیشن تشکیل دیں جو ذمہ داروں کا تعین کرے۔۔۔ ایسے افراد کو فوری طور پر ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے چاہے۔‘

حکومت عمل پہلے کرتی ہے، سوچتی بعد میں ہے‘

سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی اگر امن و امان کی صورت حال خراب ہوئی تو کالعدم جماعتوں سے مذاکرات ہوئے۔

اس سلسلے میں وہ لشکر جھنگوی اور تحریک جفریہ سے مذاکرات کی مثال دیتے ہیں۔

تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کے حکومتی فیصلے کی تائید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس جماعت کے ارکان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں جو کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ سنہ 1997 کے شیڈول ایک سے چار کے ذمرے میں آتی ہیں۔

سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کررہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر تحریک لبیک کے مطالبات کو تسلیم ہی کرنا تھا تو پھر ’نہتے لوگوں پر گولیاں کیوں برسائی گئیں اور سینکٹروں افراد کو کیوں گرفتار کیا گیا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ابھی تک تو تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی معلومات بھی فراہم نہیں کی گئیں اور ’ہم صرف وزیر داخلہ کی زبانی سن رہے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں۔‘

سابق وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’سنہ2017 میں جب ان کی جماعت اقتدار میں تھی اور تحریک لبیک نے فیض آباد پر دھرنا دیا تھا تو لوگوں میں ایک تاثر یہ بھی تھا کہ حکومت اور ریاستی ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تحریک لبیک کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر اسیا نہ ہوتا ملک میں فرقہ واریت پھیلنے کا خطرہ تھا۔‘

واضح رہے کہ 2017 میں حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان ہونے والے معاہدے پر دستخط کرنے والوں میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید شامل تھے۔

احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ’حکومت عمل پہلے کرتی ہے اور سوچتی بعد میں ہے، جس کا خمیازہ پوری قوم کو بگھتنا پڑتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *