ڈیفالٹ کا کوئی امکان نہیں وزیر خزانہ

ڈیفالٹ کا کوئی امکان نہیں وزیر خزانہ

ڈیفالٹ کا کوئی امکان نہیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے دعوے کی حقیقت کیا ہے؟

پاکستان میں گذشتہ آٹھ ماہ سے جاری سیاسی عدم استحکام اور رواں برس آنے والے سیلاب نے ملک کو معاشی طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے۔

ملک میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہونے سے نہ صرف سرمایہ کاری متاثر ہوئی ہے بلکہ بلکہ مالی خسارہ بڑھنے سے ساتھ ساتھ روپے کی قدر کے مقابلے میں ڈالر بھی آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔

ملکی کرنسی اس وقت ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہے، جس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک سب سے بنیادی وجہ درآمدی بل میں اضافہ ہے جس سے ڈالر کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ جبکہ دوسری جانب ملکی برآمدات میں معمولی اضافہ دیکھا گیا۔

ڈالر کی قدر میں اضافے کے باعث جہاں تجارتی و مالی خسارہ بڑھا ہے وہیں ملک کے زر مبادلہ کے زخائر میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے۔

معاشی ماہرین تجارتی خسارے میں اضافہ ملکی معیشت کے لیے خطرناک علامت قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ خسارہ جاری کھاتوں کے خسارے کو بڑھا کر شرح مبادلہ پر منفی اثر ڈالتا ہے۔

پاکستان کو اس وقت کہیں سے قابل ذکر مالی امداد یا قرض نہیں مل پا رہا جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے ہیں۔

پاکستان کو آئندہ چند ماہ کے دوران بیرونی قرض کی مد میں 30 ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنی ہے تاہم اس قرض کی ادائیگی کے قریب آتے ہی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کو مسترد کیا گیا۔

’مشکل صورتحال ضرور ہے مگر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی امکان نہیں‘

پاکستان

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو سٹاک ایکسچینج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’معاشی اعتبار سے مشکل صورتحال ضرور ہے مگر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔‘

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ہم روز سنتے ہیں پاکستان ڈیفالٹ ہو جائے گا؟ کیسے ہو جائے گا؟ آپ لوگ سرمایہ کاری کریں، نام نہاد مفکروں کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ اپنی سیاست کے لیے ملک کا نقصان کر رہے ہیں تاہم سیاسی مقاصد کے لیے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی باتیں نہ پھیلائی جائیں۔‘

مگر جب اگلے کچھ عرصے میں پاکستان کو 30 سے 32 ارب روپے کی ضرورت ہو اور اس کے مرکزی بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر صرف چھ ارب ڈالر کے قریب ہوں اور ان میں سے بھی زیادہ تر چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے  دوست ممالک سے اس شرط پر لے رکھے ہوں کہ یہ قابل خرچ نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ ان دوست ممالک نے یہ پیسے اس شرط پر پاکستان کے پاس رکھوائے ہیں کہ وہ ان کو خرچ نہیں کر سکتا۔ تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ قابلِ خرچ ڈالرز کے کم ہونے کی وجہ سے پاکستان بیرونی قرضہ جات پر ڈیفالٹ کر سکتا ہے؟

وزیر خزانہ اسحاق ڈار اتنے پُراعتماد کیسے ہیں؟

اس صورتحال میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار ملک کو دیوالیہ نہ ہونے کے دعویٰ پر اتنے پراعتماد کیسے ہیں؟

اس بارے میں ہم نے چند معاشی ماہرین سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا جب پاکستان کے پاس اتنے پیسے نہیں رہے ہیں کہ وہ آنے والے چند ماہ میں واجب الادا قرضے واپس کر پائے اور ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی درآمد بھی نہ کر پائے تو پاکستان دیوالیہ ہونے سے کیسے بچ سکتا ہے؟

سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) اسلام آباد سے منسلک ماہرِ معاشیات ڈاکڑ ساجد امین کا کہنا ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان کے پاس قابلِ خرچ زرمبادلہ کے ذخائر (فارن ریزروز) یا ڈالرز کے کیش ڈپازٹ سے کم ہیں۔

مگر ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہو گا۔ ان کے خیال میں اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔

’ایک تو یہ کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں یہ کبھی ڈیفالٹ نہیں کیا۔ تاریخ میں کئی مقامات پر ہمارے ذرمبادلہ کے ذخائر اس سے بھی کم رہے ہیں۔‘

ان کے خیال میں دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ذمے جو واجب الادا قرض ہیں ’جو قرض اس نے آئندہ چند ماہ میں ادا کرنے ہیں وہ رول اوور ہو جائیں گے۔‘ یعنی ان کے ادا کرنے کی مدت میں اضافہ ہو جائے گا۔

 معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان اس وقت دباؤ اور مشکل میں ہے لیکن اس کے دیوالیہ ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان کو اس وقت مالی خسارے کا سامنا ہے کیونکہ بیرونی ادائیگیوں کی وجہ سے جاری کھاتے بہت بڑھے ہوئے تھے لیکن اب اسے درآمدات کے حجم کو محدود کر کے ترسیلات اور برآمدات سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کے ذخائر کے برابر لایا جا رہا ہے۔

’پاکستان اور ڈیفالٹ کے درمیان آئی ایم ایف ہے‘

ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جس اعتماد کے ساتھ یہ دعوٰی کر رہے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کی جانب نہیں جا رہا ہے اس کے پیچھے ان دو عوامل کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی ہے  کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کا اگلا پروگرام مل جائے گا۔

’آئی ایم ایف کا پروگرام میچیور ہونے سے بھی ہمیں ڈالرز مل جائیں گے اور اس کے بعد کچھ دوست ممالک سے ہمیں مزید پیسے بھی مل جائیں گے۔ میرا اپنا بھی خیال ہے کہ ایسا ہو جائے گا۔‘

تاہم ڈاکٹر ساجد کہتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کو آئی ایم ایف کے پروگرام کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں ماضی میں بھی حکومت آئی ایم ایف پر سیاست کرتی رہی اور اب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پر سیاست کر رہی ہے۔

’ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ اس وقت پاکستان اور ڈیفالٹ کے درمیان آئی ایم ایف ہے۔ جب آپ نے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی ہے اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے تو آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے افراتفری پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق اس نوعیت کی افراتفری سے پہلے بھی پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑا تھا جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہت زیادہ گر گئی تھی۔ مارکیٹ میں اکسچینج ریٹ میں اتار چڑھاو انھی افواہوں اور افراتفری کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔

معاشی امور کے ماہر اور وزارت خزانہ کے سابق ترجمان ڈاکٹر خاقان نجیب بھی آئی ایم ایف کو پاکستان کی معیشت کا سانس بحال رکھنے کے لیے ڈاکٹر قرار دیتے ہیں۔

’پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے صرف ایک ڈاکٹر، آئی ایم ایف ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے یا نہ ہونے کا بہت بڑا دارومدار آئی ایم ایف کے پروگرام پر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ تین نومبر کو آئی ایم ایف کے پروگرام کا نواں جائزہ اجلاس ہونا تھا جو اب دو ماہ تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب آئی ایم ایف اس کا جائزہ لے گا تو فنڈز فلو ہونا شروع ہو جائے گے، اس سے ملک سے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہو سکتے ہیں۔‘

آیی ایم ایف

’آئی ایم پروگرام کو نہ چھوڑنے کا واضح فیصلہ کرنا ہو گا‘

خاقان نجیب کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام انتہائی اہم ہے اور اس پر واضح فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے اس کو نہیں چھوڑنا۔ وزیر اعظم کی جانب سے آئی ایم ایف ہی آخری حل کا بیان معاشی استحکام کے  لیے درست سمت میں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پروگرام اگلے چھ ماہ کے لیے بہت اہم ہے اور اگر پاکستان اس کے تاخیر کا شکار جائزہ پروگرام کو کامیابی سے ڈیل کر لیتا ہے تو عوامی حلقوں میں ملک کے دیوالیہ ہونے کا تاثر ختم ہو گا کیونکہ فنڈز فلو کریں گے اور سٹاک مارکیٹ، کرنسی مارکیٹ، کریڈٹ مارکیٹ مثبت رحجان ظاہر کریں گی۔

ماہر معاشی امور ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ پاکستانی حکام اور پالیسی ساز آئی ایم ایف سے کیا چاہتے ہیں اس بارے میں بہت واضح ہیں یعنی سیلاب کے بعد ترقی کی شرح کے اشاریے کیا ظاہر کرنے ہیں کیونکہ جب آخری مرتبہ اکتوبر میں آئی ایم ایف بحالی پروگرام کا آغاز ہوا تھا اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ لہذا پاکستان کو فوری کچھ فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ جنوری میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات حتمی طور پر طے پا جائیں اور ہم اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کی امید رکھتے ہیں۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر ساجد کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر سب سے فائدہ مند اور موزوں صورتحال وہ ہوتی ہے جب آپ برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلاتِ زر کے ذریعے زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑھا رہے ہوں۔

تاہم اس وقت اور آنے والے دنوں میں فوری طور پر ان تینوں چیزوں میں بہتری لانا اور ان سے ڈالرز کمانا پاکستان کے لیے ممکن نظر نہیں آ رہا۔

’برآمدات کو بڑھانا بھی مشکل ہو گا کیونکہ دنیا بھر میں معاشی گراوٹ کا رجحان ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں ہو نہیں رہی اور ترسیلاتِ زر میں سرکاری ذرائع کے ذریعے بھی ڈالر کے بلیک ہونے کی وجہ سے کمی آئی ہے۔‘

ان کے خیال میں جب ڈالر اوپن مارکیٹ میں 253 روپے کا ملے گا تو کوئی بیرونِ ملک سے کیوں بینکوں کے ذریعے 220 روپے کے ریٹ پر بھجوائے گا۔

’ایسی صورتحال میں زر مبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے کیش ڈپازٹ ہی بہتر آپشن دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اصولی طور پر اسے برآمدات اور ایف ڈی آئی کے ذریعے بڑھنا چاہیے۔‘

پاکستان

دوست ممالک کے ڈالر خرچ نہیں کر سکتے تو ان کا فائدہ؟

پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر یعنی وہ امریکی ڈالرز جن کی مدد سے وہ قرضے واپس کر سکتا ہے یا پھر اشیائے ضروریہ برآمد کرتا ہے جیسا کہ ایندھن وغیرہ، ان کا ایک بڑا حصہ دوست ممالک کی طرف سے دیے گئے ڈالرز پر مشتمل ہے۔

تاہم پاکستان یہ ڈالرز خرچ نہیں کر سکتا یعنی ان کو وہ قرض کی ادائیگی یا برآمدات کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ان ڈالرز کا پاکستان کو کیا فائدہ ہو ریا ہے؟

اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکڑ ساجد کہتے ہیں کہ دوست ممالک کی طرف سے پاکستان کے پاس رکھے گئے ان اربوں ڈالرز کا فائدہ یہ ہے کہ ’اس سے پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام رہے گا اور اس کی قدر مزید نہیں گرے گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں اگر آپ یہ فرض کر لیں کہ اگر پاکستان کے پاس ایک بھی ڈالر نہ ہو تو پاکستانی روپے کی قدر پر کس قدر دباؤ ہو گا۔

’قدر کم ہونے کی وجہ سے مارکیٹ میں سے روپے پر سے اعتماد ختم ہو سکتا ہے۔‘

ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اربوں ڈالرز کی موجودگی مارکیٹ میں یہ تصور قائم کرتی ہے کہ پاکستان کے پاس ڈالرز ہیں جن کی مدد سے اسے مزید قابلِ خرچ ڈالرز بھی مل جائیں گے جیسا کہ آئی ایم ایف۔

تاہم ڈاکڑ ساجد کہتے ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے پروگرام منظور کروانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ سرکاری ذرائع اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں ہم آہنگی لائے جس کے لیے اسے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *