چہرے پر کیل مہاسے اور معاشرتی رویے والدہ نے

چہرے پر کیل مہاسے اور معاشرتی رویے والدہ نے

چہرے پر کیل مہاسے اور معاشرتی رویے والدہ نے کہا تم بہت بدصورت نظر آ رہی ہو، تمھاری شکل دیکھنے کا دل نہیں کرتا

تم بہت بدصورت نظر آ رہی ہو، تمھاری شکل دیکھنے کا دل نہیں کرتا۔۔۔‘ یہ الفاظ انعم کو کسی اور سے نہیں بلکہ اپنی والدہ سے اس وقت سننے کو ملے جب ان کو چہرے پر کیل مہاسے آنا شروع ہوئے۔

ایمن یونیورسٹی کی طالبِ علم ہیں اور اِس وقت اُن کے پورے چہرے پر دانے ہیں۔

ایمن کے مطابق اُن کو یونیورسٹی جانے سے پہلے بھی کافی بار سوچنا پڑتا ہے کیونکہ وہ دوستوں کی باتوں سے ڈرتی ہیں۔

چہرے پر دانے یا ایکنی ہونا، سننے میں تو عام سی بات لگتی ہے اور اس سے متاثرہ افراد مختلف علاج بھی کرواتے ہیں لیکن پاکستان میں اکثر افراد، خاص کر خواتین کو اس وجہ سے کئی باتیں بھی سننا پڑتی ہیں، جس سے ان کی خود اعتمادی بھی متاثر ہوتی ہے۔

اور ایسا ہی کچھ ایمن کے ساتھ بھی ہوا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ ’میری کزن نے کہا کہ تمہارا چہرہ دیکھ کر مجھے بہت غصہ آ رہا ہے، تمارا چہرہ بہت خراب ہو گیا ہے۔‘

سب سے تلخ اور تکلیف دہ ردِ عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایمن نے بتایا کہ اُن کی اپنی والدہ نے جب اُنھیں کہا کہ ’تم بہت بدصورت ہو گئی ہو‘ تو اُن کا شیشے میں اپنا چہرہ دیکھنے کا دل نہیں کرتا تھا۔

ایمن نے کہا کہ اُنھیں جب یہ باتیں سننے کو ملیں تو وہ ڈاکڑ سے علاج کروانے پر مجبور ہو گئیں۔

ایمن
ایمن نے بتایا کہ اُن کی اپنی والدہ نے جب اُنھیں کہا کہ ’تم بہت بدصورت ہو گئی ہو‘ تو اُن کا شیشے میں چہرہ دیکھنے کا دل نہیں کرتا تھا

’ٹیچر نے کہا کہ وائٹنگ کریمز کی وجہ سے تمارا چہرا ایسا ہوا‘

میرب جبین کو پہلی بار ایکنی اُس وقت ہوئی جب وہ کالج میں تھیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے میرب نے بتایا کہ چہرے پر پس والے دانوں کی وجہ سے وہ بہت زیادہ تکلیف میں تھیں۔

’جب کلاس میں ٹیچر نے مجھے کہا کہ تم نے چہرے پر وائٹنگ کریمز لگائی ہوں گی یا پھر بہت میٹھا کھاتی ہو گی، اس وجہ سے تمارا چہرا ایسا ہو گیا ہے تو اُس وقت دانوں کے درد سے زیادہ تکلیف ان جملوں سے ہوئی۔‘

میرب کے مطابق سوشل میڈیا پر لوگوں کی صاف شفاف جلد دیکھ کر وہ مزید احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگ گئیں اور اپنے بارے میں دوسروں کے جملے انھیں سچ لگنے لگے۔

صرف یہ ہی نہیں میرب نے چہرے پر دانوں کی وجہ سے اپنے ایک راشتے دار کی شادی پر جانے سے ہی منع کر دیا۔

’میری کزن کی شادی تھی، میں نے جب شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا تو سوچا اگر ایسا منہ لے کر گئی تو ہر کوئی مجھے سے پوچھے گا کہ چہرے کو کیا ہوا۔‘

میرب
میرب جبین کو پہلی بار ایکنی اُس وقت ہوئی جب وہ کالج میں تھیں

لیکن یہ مسئلہ صرف خواتین تک ہی محدود نہیں بلکہ مردوں کو بھی اس حوالے سے منفی رویوں اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مُشرف جاوید ایک نوکری کے انٹرویو کے دوران اسی الجھن کا شکار ہو کر انڑویو دینے کے لیے نہیں جا سکے۔

مشرف نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کچھ عرصہ پہلے میرا پورا چہرہ دانوں سے بھرا ہوا تھا اور اسی دوران مجھے ایک کمپنی سے انٹرویو کے لیے بلایا گیا مگر چہرے پر دانوں کی وجہ سے مجھے دوسروں کا سامنا کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔‘

مشرف نے بتایا کہ جب وہ ایکنی سے تنگ تھے تو اُنھوں نے ڈاکڑ کے پاس جانے کا سوچا مگر ’اس ڈر سے کہ دوست کیا کہیں گے‘ وہ نہیں گئے۔

مشرف کے مطابق اکثر مرد دانوں کے علاج کے لیے ڈاکڑ کے پاس نہیں جاتے کیونکہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ جلد سے متعلق مسائل کے لیے صرف خواتین ہی ڈاکڑز کے پاس جا سکتی ہیں۔‘

مشرف جاوید
مُشرف جاوید ایک نوکری کے انٹرویو کے دوران اسی الجھن کا شکار ہو کر انڑویو دینے کے لیے جا ہی نہیں سکے

’معاشرے نے خوبصورتی کے معیار کا خود سے تعین کیا ہوا ہے‘

اس بارے میں بات کرتے ہوئے اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات ڈاکٹر عائشہ طارق نے کہا کہ کسی بھی انسان کی مضبوط شخصیت میں بہت اہم کردار اُس کا خود پر اعتماد ہوتا ہے۔

’معاشرے نے خوبصورتی کے معیار کا خود سے تعین کیا ہوا ہے اور جب کوئی اس معیار پر خود کو اترتا ہوا نہیں پاتا تو ذہنی کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ اس وجہ سے خود پر سے اعتماد کھو دیتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ہم بولتے وقت نہیں سوچتے کہ ان کا دوسرے کی دماغی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔‘

ڈاکٹر عائشہ
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو ہم بولتے وقت نہیں سوچتے کہ ان کا دوسرے کی دماغی صحت پر کیا اثر پڑے گا

ڈاکڑ عائشہ طارق لوگوں کے منفی رویوں کا سامنا کرنے والے افراد کو تین مشورے دیتی ہیں:

  • خود اعتمادی کو مضبوط کریں، آپ کی شخصیت کا انحصار آپ کی شکل و صورت پر نہیں۔
  • سوشل میڈیا پر نظر آنے والی بہت سی چیزیں حقیقت نہیں۔ اشتہارات میں صاف و شفاف نظر آنے والی جلد حقیقت نہیں، چہرے پر دانے عمر کے کسی نہ کسی حصے میں ضرور آتے ہیں۔
  • اِن رویوں کے بارے میں اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں سے بات کریں، جتنا اپنے مسائل کے بارے میں کھل کر بات کریں گے، اُتنی آپ کو ان افراد کی سپورٹ ملے گی۔

ڈاکڑ عائشہ نے مزید کہا کہ ’والدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دوسروں کے قد، رنگ یا چہرے سے موازنہ اُن کے بچوں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے اور اُن کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ لوگوں کو اس بارے میں اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *