پی ٹی آئی پر بیرونِ ملک سے ممنوعہ فنڈنگ

پی ٹی آئی پر بیرونِ ملک سے ممنوعہ فنڈنگ

پی ٹی آئی پر بیرونِ ملک سے ممنوعہ فنڈنگ کا الزام ثابت، الیکشن کمیشن نے شوکاز نوٹس جاری کر دیا

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف پر بیرونِ ملک سے ممنوعہ فنڈز لینے کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے پی ٹی آئی کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ یہ فنڈز ضبط کر لیے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

تحریکِ انصاف نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ممنوعہ فنڈنگ کا یہ کیس سنہ 2014 سے الیکشن کمیشن میں زیر سماعت تھا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ فیصلہ 21 جون کو محفوظ کیا گیا تھا اور منگل کی صبح چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں نثار احمد اور شاہ محمد جتوئی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا۔اس کیس کے فیصلے کے موقع پر الیکشن کمیشن سمیت دیگر اہم مقامات پر پولیس، رینجرز اور ایف سی کے 1400 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے کمیشن کے سامنے صرف آٹھ اکاؤنٹس کی ملکیت کو تسلیم کیا ہے جبکہ اس نے 13 اکاؤنٹس کو نامعلوم قرار دیتے ہوئے اظہارِ لاتعلقی کیا۔

کمیشن کے مطابق سٹیٹ بینک سے حاصل کردہ ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی نے جن اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اظہار کیا وہ پی ٹی آئی کی سینیئر صوبائی اور مرکزی قیادت اور عہدیداروں نے کھولے اور چلائے تھے۔

یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے سینیئر پارٹی قیادت کے زیرِ انتظام تین مزید اکاؤنٹس کو چھپایا۔ کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے ان 16 بینک اکاؤنٹس کو چھپانا آئین کی شق 17 (3) کی خلاف ورزی ہے۔

اس فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی کے سربراہ نے سنہ 2008 سے سنہ 2013 تک کے لیے جو فارم ون جمع کروایا تھا، وہ کمیشن کی جانب سے سٹیٹ بینک سے حاصل کردہ ڈیٹا اور دیگر ریکارڈ کی بنا پر بے انتہا غلطیوں کا حامل ہے، چنانچہ کمیشن پارٹی کو نوٹس جاری کر رہا ہے کہ کیوں نہ یہ ممنوعہ فنڈز ضبط کر لیے جائیں۔

کمیشن کے سامنے موجود چند سوالات

  • عارف نقوی کے بذریعہ ووٹن کرکٹ لمیٹڈ، برسٹل انجینیئرنگ سروسز دبئی، ای پلینیٹ ٹرسٹ اور ایس ایس مارکیٹنگ برطانیہ کی جانب سے بھیجی گئی رقوم کی قانونی حیثیت کیا ہے اور کیا یہ ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتی ہے؟
  • پی ٹی آئی امریکہ، پی ٹی آئی کینیڈا کارپوریشن اور پی ٹی آئی پرائیوٹ لمیٹڈ برطانیہ کی جانب سے فنڈز اکٹھے کرنا اور پاکستان میں پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں بھیجنا ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتا ہے؟
  • غیر ملکی شہریوں، اور غیر ملکی کمپنیوں سے حاصل کردہ عطیات اور چندوں کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
  • چار پی ٹی آئی ملازمین کے اپنے ذاتی اکاؤنٹس میں چندے وصول کرنے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
  • چیئرمین پی ٹی آئی کے دستخط کردہ فارم ون سرٹیفیکیٹ کے حوالے سے کتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
  • کمیشن کے پاس ممنوعہ ذرائع سے چندے، عطیات اور فنڈنگ کی تحقیقات کرنے کے لیے کسی بھی ادارے سے معلومات کے حصول کا کتنا اختیار ہے؟
الیکشن کمیشن

عارف نقوی کا کردار

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں ابراج گروپ کے عارف نقوی پر امریکہ میں قائم مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی پاکستان نے بظاہر جان بوجھ کر مجرمانہ دھوکہ دہی میں ملوث کاروباری شخصیت کے زیرِ انتظام کمپنی سے عطیات وصول کیے۔

کمیشن نے کہا کہ جماعت کو اس کے لیے اپریل 2018 سے دسمبر 2021 تک کا وقت دیا گیا تھا تاہم پارٹی اپنے فنڈنگ کے ذرائع چھپاتی رہی۔

الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ جب کمیشن نے پارٹی کے سامنے ووٹن کرکٹ لمیٹڈ سے پی ٹی آئی پاکستان کو فنڈز کی منتقلی کے بارے میں ثبوت رکھے تو پی ٹی آئی نے عارف نقوی کا دستخط شدہ بیانِ حلفی فراہم کیا جس میں اُنھوں نے تسلیم کیا کہ تھا کہ اُنھوں نے ‘متحدہ عرب امارات میں ہوتے ہوئے پارٹی (پی ٹی آئی) فنڈ، عطیات اور چندہ جمع کرنے اور خود بھی حصہ ڈالنے میں رضاکارانہ طور پر حصہ ڈالا’ جو کہ کمیشن کے مطابق متحدہ عرب امارات کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

کمیشن کے مطابق چنانچہ یہ فنڈز (21 لاکھ 21 ہزار 500 ڈالر) ووٹن کرکٹ لمیٹڈ کے ذریعے منتقل کیے گئے اور یہ فنڈز کس نے دیے، یہ عارف نقوی اور پی ٹی آئی نے نہیں بتایا ہے۔ فیصلے کے مطابق یہ فنڈز پاکستانی قوانین کے تحت کمپنیوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کی پابندی کے دائرے میں آتے ہیں۔

کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ دبئی میں رجسٹرڈ برسٹل انجینیئرنگ سروسز سے حاصل کردہ 49 ہزار 965 ڈالر، سوئٹزرلینڈ میں رجسٹرڈ ای پلینیٹ ٹرسٹیز سے حاصل کردہ ایک لاکھ ڈالر، اور برطانیہ میں رجسٹرڈ ایس ایس مارکیٹنگ لمیٹڈ سے حاصل کردہ 1741 ڈالر بھی کمپنیوں سے سیاسی جماعت کو فنڈنگ کی پابندی کے زمرے میں آتے ہیں۔

’امریکی شہریوں، کمپنیوں سے پیسے لیے گئے‘

الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی نے امریکہ میں کمپنیوں کے ذریعے امریکی شہریوں اور امریکہ میں قائم کمپنیوں سے عطیات اور چندے وصول کرنے کے لیے چندہ مہم چلائیں۔

کمیشن کے مطابق ان کمپنیوں نے امریکی قانونی تقاضے تو پورے کیے مگر پاکستان میں کام کرنے والی سیاسی جماعتوں سے متعلق پاکستانی قوانین کی پاسداری نہیں کی جس کے تحت کمپنیاں اور غیر ملکی شہری ایسے عطیات نہیں دے سکتے۔

کمیشن کے مطابق امریکہ میں قائم پی ٹی آئی امریکہ ایل ایل سی 6160 نے کُل پانچ لاکھ 49 ہزار امریکی ڈالر منتقل کیے جس میں سے 70 ہزار 960 ڈالر غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے حاصل کیے گئے۔

اسی طرح پی ٹی آئی امریکہ ایل ایل سی 5975 نے 13 غیر ملکی شہریوں اور 231 غیر ملکی کمپنیوں سے اندازاً ایک لاکھ 13 ہزار 948 ڈالر کی رقم پی ٹی آئی پاکستان کو منتقل کی۔

کیس کی تفصیلات

تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر اس مقدمے کو لگ بھگ ساڑھے سات برس قبل اُس وقت کمیشن کے سامنے لے کر آئے جب وہ اندرونی اختلافات کی وجہ سے پارٹی اور اعلیٰ قیادت سے دُور ہوئے۔

اس معاملے پر دیگر سیاسی جماعتیں ابتدائی کچھ عرصہ تو خاموش رہیں مگر جیسے جیسے عمران خان نے مخالف سیاسی جماعتوں کو اپنا ہدف بنانا شروع کیا تو اِن جماعتوں کی قیادت کی طرف سے بھی یہ مطالبات سامنے آنے لگے کہ تحریک انصاف کو بیرون ملک سے حاصل ہونے والی فنڈنگ کا حساب کتاب ہونا چاہیے۔

فارن فنڈنگ

گذشتہ برسوں کے دوران تحریک انصاف الیکشن کمیشن کو اس مقدمے میں کوئی حتمی فیصلہ سنانے سے روکنے کے لیے متحرک نظر آئی۔ چند ماہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے جب الیکشن کمیشن کو 30 روز میں ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سُنانے کا پابند کیا تو تحریک انصاف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اُن (پی ٹی آئی) کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔

پی ٹی آئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی اسی نوعیت کے کیسز الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہیں مگر کسی دوسری سیاسی جماعت کے حوالے سے عدالت نے الیکشن کمیشن کو فیصلہ سُنانے کا پابند نہیں کیا ہے۔

اس کیس پر سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو 30 روز میں پی ٹی آئی کی ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ کرنے سے متعلق سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنے سے متعلق بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیا۔

سابق وزیراعظم عمران خان اور اُن کی جماعت گذشتہ چھ برس سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ اُن کی جماعت پی ٹی آئی نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل نہیں کیے بلکہ تمام حاصل ہونے والے فنڈز کی دستاویزات موجود ہیں۔

اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے چند روز قبل ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گیے انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ دو ملکوں نے انھیں عام انتحابات میں مالی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی جو انھوں نے قبول نہیں کی تھی۔ عمران خان نے ان دو ملکوں کے نام یہ کہہ کر نہیں بتائے کہ ان کے نام بتانے سے پاکستان کے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں گے۔

عمران خان

ممنوعہ فنڈنگ کیس کیا ہے؟

الیکشن کمیشن میں دائر اپنی درخواست میں اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے فنڈز حاصل کیے، جس کی پاکستانی قانون اجازت نہیں دیتا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے دعویٰ کیا تھا کہ مبینہ طور پر ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ اُنھوں نے سنہ 2011 میں پہلی مرتبہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان کے سامنے اٹھایا تھا اور یہ درخواست کی تھی کہ پارٹی کے ایک اور رکن جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اس پر عمران خان کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے کی بنا پر وہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں لے کر گئے۔

اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ میں جماعت کے لیے وہاں پر رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکھٹے کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیاں بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیا گیا۔

اُنھوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریک انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے بھی ہُنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔

تحریک انصاف نے ان الزامات کی ہمیشہ اور ہر فورم پر تردید کی ہے اور پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کو ملنے والے تمام تر فنڈز پاکستان میں اس حوالے سے رائج قوانین کے تحت حاصل کیے گئے ہیں۔

اکبر ایس بابر
پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے کا معاملہ الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے اپنے بانی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر سنہ 2014 میں لے کر آئے تھے

الیکشن کمیشن میں اس درخواست کا کیا بنا؟

جب اکبر ایس بابر کی طرف سے یہ درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی تو اس پر کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے یہ معاملہ مختلف اوقات میں چھ مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے جایا گیا اور یہ مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کا قانوناً اختیار ہی نہیں۔

تحریک انصاف نے اس مقدمے میں نو مختلف پیٹیشنز دائر کیں اور نو ہی وکیل بدلے جبکہ الیکشن کمیشن نے متعدد مرتبہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تفصیلات بھی خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔

ایک مرتبہ حکم امتناع ملنے کے بعد جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید حکم امتناع دینے سے انکار کیا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار کو تحریک انصاف کی طرف سے چیلنج کیا گیا اور کمیٹی کو اپنا کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کرنے کی درخواست دی گئی۔

بار بار حکم امتناع کی درخواستیں دائر کرنے پر پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب کا موقف تھا کہ کسی سیاسی جماعت کو دستیاب قانونی آپشن استعمال کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے جب موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست پی ٹی آئی کو ملنے والے مبینہ ممنوعہ فنڈز کے حوالے سے بھی دی گئی تھی اور اسی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے سنہ 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمشن کو سنہ 2009 سے 2013 کے دوران تحریک انصاف کو موصول ہونے والے فنڈز کی جانچ پڑتال کا حکم بھی دیا تھا۔

الیکشن کمیشن

’تحریک انصاف نے درجنوں اکاؤنٹس خفیہ رکھے‘

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اکبر ایس بابر کی درخواست کو لے کر پاکستان تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگز کے حوالے سے تحققیات کے لیے مارچ 2018 میں الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل لا کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور وزارت خزانہ کا ایک نمائندہ بھی اس سکروٹنی کمیٹی کا حصہ تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن سے 31 کروڑ سے زائد کی موصول ہونے والی رقم خفیہ رکھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کی طرف سے درجنوں اکاؤنٹس ظاہر ہی نہیں کیے گئے۔

رواں برس جنوری کے پہلے ہفتے میں جاری ہونے والی الیکشن کمیشن کی تین رکنی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمیشن میں عطیات سے متعلق ’غلط معلومات‘ فراہم کی گئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے چند افراد کے علاوہ فارن فنڈنگ کے مکمل ذرائع ظاہر نہیں کیے ہیں جس کی وجہ سے سکروٹنی کمیٹی اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہے۔

رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کو یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، سنگاپور، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈ اور فن لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فنڈز موصول ہوئے۔ کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کو نیوزی لینڈ سے موصول ہونے والے فنڈ تک سکروٹنی کمیٹی کو رسائی نہیں دی گئی۔

سکروٹنی کمیٹی کے مطابق جب تحریک انصاف سمیت فریقین کی طرف سے مکمل ڈیٹا تک رسائی سے متعلق تعاون نہیں کیا گیا تو پھر کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی اجازت سے سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان کے دیگر بینکوں سے 2009 سے 2013 کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی اور یوں یہ رپورٹ مرتب کی گئی۔

’غیر ملکی چندے میں بے ضابطگی کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر نہیں‘

پاکستان تحریک انصاف نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اُنھوں نے بیرون ممالک سے جتنے بھی فنڈز اکھٹے کیے ہیں وہ قانون کے مطابق ہیں۔

تاہم رواں برس تحریک انصاف کی طرف سے جو بیان الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کو پیش کیا گیا اس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اگر بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندے میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ اُس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات اس کام کے لیے حاصل کی جاتی ہیں۔

اسی جواب کو بنیاد بناتے ہوئے مخالف سیاسی جماعتوں نے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کیے ہیں۔

الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل شاہ خاور نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ سکروٹنی کمیٹی کے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ اگر ایجنٹس نے پاکستان کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی غیر ملکی کمپنی یا شخص سے کوئی چندہ حاصل کیا ہے تو اس کی ذمہ داری ان کی جماعت پر نہیں ہو گی بلکہ اس کی ذمہ داری ان ایجنٹس پر ہو گی اور مقامی قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

عمران خان

سیاسی جماعتیں بیرون ملک سے فنڈ کیسے جمع کرتی ہیں؟

پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے بالخصوص امریکہ اور برطانیہ سمیت مختلف ترقی یافتہ ملکوں میں لمیٹڈ لائبلیٹیز کمپنییاں بنا رکھی ہیں، جس کے انچارج اس ملک میں مقیم ایسے پاکستانی ہوتے ہی جس کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے۔

ان ذمہ داران یا ایجنٹس کی تقرری فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے۔

یہ نمائندے ان ملکوں میں موجود دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں یا جن کے پاس نائیکوپ کارڈ ہے، سے اپنی جماعت کے لیے فنڈز اکھٹے کرتے ہیں اور پھر اُنھیں پاکستان بھجواتے ہیں۔ ان ایجنٹس کو پارٹی کا منشور بھیجا جاتا ہے اور یہ ہدایات بھی دی جاتی ہیں کہ پاکستانیوں کے علاوہ کسی غیر ملکی حکومت، شخصیت یا ادارے سے پارٹی کے لیے فنڈز حاصل نہ کریں۔

ممنوعہ فنڈنگ کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

الیکشن کمیشن ایکٹ سنہ 2017 کے سیکشن 204 کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلاواسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نینشل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کیے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔

اس ایکٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی یا جن کو نیشل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے نائیکوپ کارڈ جاری کیا ہے، ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ سیکشن 204 کے سب سیکشن چار کے تحت اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز اکھٹے کیے ہیں تو جتنی بھی رقم پارٹی کے اکاؤنٹ میں آئی ہے اس کو بحق سرکار ضبط کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں یا حکومتوں سے فنڈز حاصل کرنے والی جماعت پر پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔

ووٹ

پاکستانی تاریخ میں صرف ایک سیاسی جماعت پر پابندی عائد ہوئی

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر مختلف ادوار میں یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ اُنھیں فلاں دشمن ملک یا ایسا ملک مالی معاونت فراہم کر رہا ہے جس کا پاکستان میں کوئی مفاد ہوں لیکن ملکی تاریخ میں الیکشن کمیشن نے صرف ایک سیاسی جماعت پر پابندی عائد کی تھی، جس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ اُنھوں نے ممنوعہ ذرائع سے پارٹی چلانے کے لیے فنڈز اکھٹے کیے ہیں۔ یہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی۔

نیشنل عومی پارٹی ایک ترقی پسند سیاسی جماعت تھی اور اس کی بنیاد سنہ 1958 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں عبدالمجید خان بھاشانی نے رکھی تھی۔

اس جماعت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اپنا کردار ادا کیا جس کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس جماعت پر ’غداری‘ اور ’انڈیا سے فنڈز حاصل کرنے‘ کے الزامات عائد ہونے کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔

اس کے بعد سے لے کر اب تک کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد نہیں ہوئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *