پی این ایس تیمور پاکستان کا جنگی جہاز

پی این ایس تیمور پاکستان کا جنگی جہاز

پی این ایس تیمور پاکستان کا جنگی جہاز سری لنکا کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہونے پر انڈین میڈیا میں شور کیوں؟

پاکستانی بحریہ کا جنگی جہاز پی این ایس تیمور اس وقت انڈین میڈیا میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بعض انڈین خبر رساں اداروں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا کو اس جہاز کے سری لنکا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے پر سخت تحفظات ہیں۔

انڈیا کا موقف ہے کہ اس چینی ساختہ جہاز کی انڈیا کے قریب موجودگی اس کے حساس مقامات سے متعلق معلومات جمع کرنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل ایک چینی سرویلنس شپ کو سری لنکا نے اسی بندرگاہ پر پورٹ کال یا لنگر انداز ہونے کی اجازت دی تھی، تاہم بعدازاں معذرت کر لی گئی۔ انڈین میڈیا کے مطابق اس کی وجہ انڈیا کے تحفظات تھے۔

البتہ اب پاکستان نیوی کی فریگیٹ پی این ایس تیمور اس بندرگاہ پر لنگر انداز ہے۔

خیال رہے کہ پی این ایس (پاکستان نیول شپ) تیمور کا یہ پہلا سفر ہے اور یہ جنگی جہاز آئندہ ہفتے پاکستان نیوی کے بحری بیڑے میں باقاعدہ طور پر شامل ہو جائے گا۔

پی این ایس تیمور ان چار جنگی بحری جہازوں میں سے ایک ہے جو پاکستان نے چین سے خریدے ہیں۔ ان میں سے ایک پی این ایس تغرل رواں برس کے اوائل میں پاکستان پہنچا تھا، جبکہ دیگر دو جہاز آئندہ ایک برس کے دوران بحری بیڑے کا حصہ بن جائیں گے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل یہ جنگی جہاز بنگلہ دیش کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونا تھا۔ اس بارے میں انڈین میڈیا پر یہ خبریں گردش میں رہیں کہ بنگلہ دیش میں اگست کا مہینہ سرکاری سطح پر سوگ کے طور پر منایا جا رہا ہے جب 15 اگست 1975 کو شیخ حسینہ واجد کے والد اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کو قتل کیا گیا تھا۔

ان خبروں کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بحری جہاز کو وہاں لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔

تاہم اس بارے میں جب بی بی سی نے پاکستان نیوی کے حکام سے رابطہ کیا تو انھوں نے ان اطلاعات کو ’بے بنیاد پراپیگنڈا‘ قرار دیا، البتہ یہ تصدیق کی کہ بنگلہ دیش نے ’غیر متوقع طور پر‘ پاکستانی حکام سے درخواست کی تھی کہ وہ ’اس دورے کو فی الحال مؤخر کریں اور نئی تاریخوں پر بات کی جائے۔‘

اس سوال پر کہ کیا دورہ مؤخر کرنے کی کوئی وجہ بتائی گئی، نیول حکام نے بتایا کہ: ’یہ ایک سفارتی اور فوجی سطح کی خط و کتابت ہے جس میں سیاسی وجوہات بیان نہیں کی جاتیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’سفارتکاری میں میزبان ملک کی درخواست کا ہمیشہ خیال رکھا جاتا ہے۔‘

حکام کے مطابق: ’پی این ایس تیمور کو مزید کچھ دن بنگلہ دیش کے انتظار میں روکنے کے بجائے یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ اپنا سفر جاری رکھے گا اور پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق سری لنکا کی بندر گاہ پر خیرسگالی اور سفارتکاری کے لیے دورہ کرنے کے بعد پاکستان پہنچے گا۔‘

پاکستان بحریہ

بحری افواج کے جہاز سفارتکار کیسے بنتے ہیں؟

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پاکستانی بحریہ کا یہ جہاز اپنی بندرگاہ پہنچنے کے بجائے دیگر ممالک میں کیا کر رہا ہے؟ اس کا جواب بحری سفارتکاری ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کے درمیان مختلف سطح پر سفارتکاری کی جاتی ہے جس میں اب ایک اہم کیٹیگری اب عسکری سفارتکاری ہے۔

مسلح افواج کے سربراہان اور وفود دیگر ممالک میں اپنے ہم منصب عہدیداروں سے ملاقاتیں، معاہدے اور فوجی مشقیں طے کرتے ہیں۔ ان میں وہ تمام ممالک جہاں ساحلی پٹی موجود ہے اور وہ خشکی سے گھرے ہوئے نہیں، وہاں بحری فوج اور اس کے ذریعے کی جانے والی سفارتکاری نہایت اہم سمجھی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھی اکثر بحری بیڑے کئی ماہ تک سمندر میں رہتے ہوئے نہ صرف مشقیں جاری رکھتے ہیں بلکہ دیگر ممالک کی بندرگاہوں پر خیر سگالی کے دورے بھی کرتے ہیں۔

پاکستان نیوی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ’پی این ایس تیمور کو 23 جون کو چین میں ایک تقریب کے دوران پاکستانی بحریہ کے حوالے کیا گیا‘ اور حکام کے مطابق ’اب کراچی بندرگاہ پہنچنے سے قبل یہ اپنے راستے میں آنے والے بیشتر ممالک میں خیرسگالی اور ’فلیگ شوئینگ‘ کرتے ہوئے یہاں پہنچے گا۔‘

خیر سگالی کے دوروں کی منصوبہ بندی کیسے کی جاتی ہے؟

نیوی

پاکستانی بحری فوج کے حکام کے مطابق جب بھی نیوی کا جہاز کھلے پانیوں میں نکلتا ہے تو اس ضمن میں تمام تر منصوبہ بندی اور خط و کتابت دفتر خارجہ کے ذریعے پہلے سے ہی مکمل کر دی جاتی ہے۔

پاکستانی بحریہ کے ایک افسر کے مطابق ’تقریباً ہر ملک میں ہمارے سفارتخانے اور ہائی کمیشن موجود ہیں جہاں دفاعی اتاشی بھی تعینات ہیں۔ انہی کے ذریعے تمام معاملات طے کیے جاتے ہیں۔

’جن ممالک کی بندرگاہوں پر جہاز نے رکنا ہو یا جن ممالک کے پانیوں سے گزرنا ہو، اس کے لیے اجازت نامے سفر کے آغاز سے قبل دفتر خارجہ اور وہاں ڈیفینس یا نیول اتاشی کے ذریعے پہلے ہی حاصل کیے جاتے ہیں۔ اور دنیا بھر میں یہی طریقہ کار مروّج ہے۔‘

خیال رہے کہ کسی بھی ملک کی ساحلی پٹی سے 12 ناٹیکل میل کا سمندری حصہ اس ملک کی سرحد تصور کیا جاتا ہے۔ اس سے آگے مزید 12 ناٹیکل میل کے بفر ایریا کو ’کانٹیجئیس زون‘ کہا جاتا ہے، جبکہ اس سے آگے 200 ناٹیکل میل کے سمندری حصے کو ایکسکلوزیو اکانومک زون کہا جاتا ہے جس کے بعد بین الاقوامی پانیوں کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔

تاہم ان تینوں زونز میں داخل ہونے سے پہلے متعلقہ ملک سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

کسی بھی بحری فوج کا جہاز سمندر میں اس ملک کی حدود تصور کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ جہاز چاہے کسی بھی ملک میں ہو، اس پر اور اس میں موجود عملے پر اپنے ہی ملک کے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے اور اس جہاز پر ہونے والے کسی بھی حملے کو اس ملک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔

نیول حکام کے مطابق ’سفارتکاری یا خیرسگالی کے دورے میں کسی ملک کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کے دوران وہاں موجود ملکی سفارتخانہ اور اس ملک کی نیوی کے ساتھ مختلف سرگرمیاں بھی پلان کا حصہ ہوتی ہیں جن میں ملاقاتیں، کانفرنسز اور سیاحتی دورے بھی شامل ہیں۔‘

خیال رہے کہ نیول افواج کے درمیان ہونے والی فوجی مشقیں بھی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ عسکری سفارتکاری کا ایک حصہ ہیں۔

پاکستان بحریہ

پی این ایس تیمور کیا ہے؟

پاکستان نیوی کی کچھ عرصہ قبل جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز کے مطابق پی این ایس تیمور چار جہازوں پر مشتمل اس بحری بیڑے کا حصہ ہے جو پاکستان چین سے خرید رہا ہے۔ اس کا سرکاری نام ٹائپ 054 اے سلیش پی ہے۔ یہ جنگی جہاز 23 جون کو شنگھائی میں ایک تقریب کے دوران کمیشن کیا گیا تھا۔

پاکستان نے 2017 میں چین کے ساتھ دو ٹائپ 054 اے سلیش پی جہازوں کا معاہدہ کیا تھا۔ تاہم بعدازاں جون 2018 میں مزید دو بحری جہازوں کو اس میں شامل کر دیا گیا۔

پی این ایس تیمور کی تعمیر کا کام چینی شپ یارڈ نے جنوری 2021 میں شروع کیا اور اس کی تیاری 17 ماہ میں مکمل ہوئی۔ اس سے قبل اس بیڑے کا پہلا جہاز پی این ایس تغرل رواں برس 24 جنوری کو پاکستان نیوی میں کمیشن ہوا تھا۔

پی این ایس تیمور اپنے اس سفر کے دوران اس سے قبل کمبوڈیا اور ملائیشیا کا دورہ کر چکا ہے۔ کمبوڈیا میں یہ پاکستان نیوی کے کسی جہاز کا پہلا دورہ تھا۔

اس کے علاوہ پی این ایس تیمور چین اور پاکستان کے درمیان ہونے والی فوجی مشق سی گارڈیئنز 2022 میں بھی حصہ لے چکا ہے۔

اس فوجی مشق میں چینی نیوی کے دیگر جہاز مثلاً فریگیٹس، کارویٹس، آبدوزیں، لڑاکا اور فضائی نگرانی کے جہاز بھی شامل تھے۔ ملائیشیا میں بھی پی این ایس تیمور نے دو طرفہ بحری مشق مالپاک 4 میں شرکت کی تھی۔

ملائیشیا کے بعد اس جہاز نے بنگلہ دیش کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونا تھا تاہم اس کی منسوخی کے بعد اس وقت یہ جہاز سری لنکا کی بندرگاہ پر موجود ہے۔

جنگی بحری جہاز

پی این ایس تیمور ایک ملٹی رول فریگیٹ ہے اور چین کی بحری فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ چینی نیوی کے بحری بیڑے میں ٹائپ 054 اے سلیش پی قسم کے 30 جہاز موجود ہیں۔

اس بحری جنگی جہاز کی لمبائی 134 میٹرز اور وزن چار ہزار ٹن ہے جبکہ اس کے عملے کی تعداد 150 سے زیادہ ہے۔

نیول حکام کے مطابق پاکستان نیوی میں ان کی شمولیت سے ’سمندری حدود کے تحفظ کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔‘

اس جنگی جہاز میں ایک مین گن، دو اینٹی شپ میزائلز، زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلز کے لیے 32 وی ایل ایس سیلز، دو ٹرپل ٹورپیڈو لانچرز کے علاوہ انتہائی حساس سینسرز نصب کیے گئے ہیں جن سے سمندری حدود کی نگرانی کی جائے گی۔

کیا یہ بندرگاہ پر رہتے ہوئے جاسوسی کر سکتا ہے؟

بی بی سی نے یہی سوال پاکستان نیوی کے ایک افسر سے پوچھا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔

’کم از کم اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک یہ جہاز کسی اور ملک کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہے۔ پورٹ کالز (یعنی کسی ملک کی بندرگاہ کے دورے) کے دوران عسکری پروٹوکولز کی پابندی کی جاتی ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے ملک کی سمندری حدود میں داخل ہونے پر اس بحری جنگی جہاز کی آپریشنل کمانڈز کو غیر فعال رکھا جاتا ہے۔‘

اُنھوں نے بتایا کہ ’جہاز کی نیویگیشن سمیت دیگر بنیادی فنکشنز کام کرتے ہیں تاہم نگرانی یا سرویلینس کرنے والے فنکشنز غیر فعال رہتے ہیں۔‘

تاہم انڈیا اور پاکستان سمیت ہر ملک ہی کسی دشمن ملک کے جہاز کی اپنے پانیوں کے قریب موجودگی پر الرٹ رہتا ہے اور اسے اپنی اہم تنصیبات سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی ایک کوشش قرار دے سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *