پوتن اور بائیڈن سائبر حملوں پر بات چیت کرنے پر متفق

پوتن اور بائیڈن سائبر حملوں پر بات چیت کرنے پر متفق

پوتن اور بائیڈن سائبر حملوں پر بات چیت کرنے پر متفق لیکن سائبر گینگز ان مذاکرات کی پروا کیوں نہیں کریں گے؟

روس کے صدر ولادمیر پوتن اور امریکی صدر جو بائیڈن کی جنیوا میں ہونے والی ملاقات میں سائبر سکیورٹی سے متعلق ’رینسم ویئر‘ جیسے مسائل پر بات چیت کے بعد دونوں ملکوں میں سائبر سکیورٹی کے لیے کوئی نظام واضح کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔

جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ اور صدر پوتن ’جرائم پیشہ‘ گروہوں کی طرف سے بڑی اور اہم امریکی تنصیبات پر سائبر حملوں کو روکنے اور نظم و ضبط لانے کے لیے باہمی مشاورت کا جلد آغاز کریں گے۔

امریکہ اور روس کے درمیان اس مسئلے پر باہمی مشاورت کافی پیچیدہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ فریقین کے درمیان اس بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ ’رینسم ویئر‘ کا کون ذمہ دار ہے۔

’رینسم ویئر‘ جرائم پیشہ ہیکروں کی طرف سے بڑے بڑے اداروں کا ڈیٹا ہیک کرنے کے بعد ان سے تاوان حاصل کرکے ڈیٹا بحال کرنے کو کہا جاتا ہے۔

جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انھوں نے روس کے صدر کے ساتھ ملاقات میں امریکہ کی تیل کی بڑی پائپ لائن پر حالیہ سائبر حملے پر بات کی۔ یہ سائبر حملہ مبینہ طور پر ’ڈارک سائڈ‘ نامی ہیکروں کے گروہوں کی طرف سے کیا گیا تھا جس کے بارے میں شبہ ہے کہ اس کا تعلق روس سے ہے۔

امریکہ کے صدر نے کہا کہ انھوں نے صدر پوتن کو امریکہ کی 16 حساس اور اہم تنضیبات کی فہرست فراہم کی جن کے بارے میں کہا گیا کہ مستقبل میں ان پر کوئی سائبر حملے نہیں ہونے چاہئیں۔

صدر پوتن نے اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کلونیل پائپ لائن‘ حملے اور ایسے دوسرے حملوں کا روسی حکام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

صدر پوتن نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انھیں امریکی ذرائع ہی سے یہ معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر سائبر حملے امریکہ سے ہی کیے جاتے ہیں اور روس کی طرف سے امریکہ میں ہونے والے ان حملوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوششوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ہیکر
روسی شہری میکسم یاکوبٹس اور ایگور توراشیف پر ‘ایول کورپ’ گروپ چلانے کا الزام ہے

رینسم ویئر گینگ کے روس سے تعلق کے کیا ثبوت ہیں؟

سائبر دنیا میں شناخت آسان نہیں، یہ معلوم کرنا اکثر بہت مشکل ہوتا ہے کہ حملے کہاں سے ہو رہے ہیں اور کون کر رہا ہے۔

لیکن گذشتہ چند برس میں ماہرین کے مشاہدے میں ان حملوں کا ایک مخصوص انداز نظر آیا ہے اور یہ صرف ایک سمت میں اشارہ کر رہا ہے۔

روس سے تعلق رکھنے والے سابق ہیکر اور سائبر سکیورٹی کے ماہر دمتری سملیانٹس کہتے ہیں کہ انٹیلیجنس ادارے اور تحقیق کاروں کو یقین ہے کہ یہ حملے سویت بلاک میں شامل ملکوں روس، یوکرین وغیرہ سے ہو رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے اشارے اس بات کی توثیق کر رہے ہیں۔‘

دمتری سملیانٹس اور دوسرے ماہرین اس بارے میں درجہ ذیل ثبوت پیش کرتے ہیں:

  • زیادہ تر بڑے بڑے گروپ اپنے ہیکنگ کے ’سافٹ ویئر‘ کے اشتہار ڈارک ویب پر صرف روسی زبان میں چلنے والے ہیکروں کے فورم پر دیتے ہیں
  • ہیکروں کے گروپ اکثر ماسکو کے اوقات کار میں کام کرتے ہیں اور عام طور پر روس میں عام تعطیلات کے دوران خاموش ہو جاتے ہیں
  • بہت سے کیسز میں رینسم ویئر سافٹ ویئر کے کوڈ میں بھی مخصوص ہدایات درج کی گئی ہیں جو خود کار طریقے سے روسی کی بورڈ کنفیگریشن استعمال کرنے والے کمپیوٹر سسٹم پر حملوں کو خود بخود روکتی ہیں
  • مغربی ملکوں کے مقابلے میں روس اور سویت بلاک کے دوسرے ملکوں میں رینسم ویئر کا نشانہ بننے والے نہ ہونے کے برابر ہیں
ہیکر
یوکرائن کی پولیس نے مشتبہ ہیکروں کے خلاف کارروائی کی ویڈیو جاری کی تھی

سائبر ڈیفنڈرز ریکارڈڈ فیوچر کے سملیانٹس کہتے ہیں کہ ’رینسم ویئر آپریٹرز اور ان سے وابستہ افراد کے خلاف کی جانے والی خفیہ کارروائیوں سے غیر معمولی معلومات مل رہی ہیں۔‘

’ان کا علم اور حوالہ جات بہت درست ہیں اور اس موضوع پر کام کرنے والے سائبر محققین کے نتائج کی تصدیق کرتے ہیں۔‘

سنہ 2019 میں دو روسی افراد پر امریکہ اور برطانیہ کے حکام نے فرد جرم عائد کی تھی۔ ان پر تاوان رساں گینگ ’ایول کورپ‘ چلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن یہ دونوں افراد روس میں آزاد گھوم رہے ہیں۔

روس کو بھی رینسم ویئر حملوں کا سامنا ہے، پوتن کا دعویٰ:

روس کے صدر نے پریس کانفرنس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ روس کو بھی اکثر رینسم ویئر کے حملوں کا سامنا رہتا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے روس کے صحت عام کے نظام کی مثال دی جس پر ہیکروں نے حملہ کیا اور جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ امریکی ہیکروں نے کیا تھا۔

دمتری سملیانٹس کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ حملہ رینسم ویئر کا نہیں ہو سکتا اور کمپیوٹر نظام کی کسی اور خرابی کو سائبر حملہ کہا جا رہا ہو۔

ہیکنگ

رینسم ویئر ایک عالمی دھندا بن گیا ہے

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ رینسم ویئر کے گینگ بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شمالی کوریا کے ہیکروں نے تاریخ میں سب سے سنگین حملہ سنہ 2017 میں برطانیہ کے صحت عامہ کے ادارے این ایچ ایس پر کیا تھا جس کا اثر سینکڑوں ہسپتالوں پر پڑا تھا۔

جنیوا میں سربراہی اجلاس کے دن یوکرین میں چھ جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن کا مبینہ طور پر تعلق کلاپ نامی رینسم ویئر گروہ سے ہے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ امریکہ اور جنوبی کوریا میں مختلف اداروں پر سائبر حملے کرنے میں ملوث ہیں۔

اس سے قبل جنوری میں کینیڈا میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا تھا جس پر الزام تھا کہ اس کا تعلق رینسم ویئر کے ایک اور گروہ ’نیٹ واکر‘ سے ہے۔ تاہم ان حالیہ گرفتاریوں سے اس دھندے پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *